Vinkmag ad

جگر میں چربی کیسے پیدا ہوتی ہے

جگر ہمارے جسم میں کچھ انتہائی اہم کام انجام دیتا ہے۔ ان میں خون بنانا اور جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنا زیادہ قابل ذکر ہیں۔ جگر کے مختلف امراض میں سے ایک فیٹی لیور یعنی چربیلا جگر بھی ہے جو جگر ناکارہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جس تیز رفتاری سے جگر میں چربی پیدا ہونے کا مسئلہ بڑھ رہا ہے، اس کے پیش نظر ماہرین صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ مستقبل میں جگر کی ناکارگی کا سب سے بڑا سبب بن سکتا ہے۔

دوسری طرف بدقسمتی سے جگر ان اعضاء میں شامل ہے جن کے مسائل کو اس وقت تک سنجیدہ نہیں لیا جاتا جب تک کہ وہ پیچیدہ شکل نہ اختیارکر لیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ اس کی علامات نمایاں ہو کر اس وقت سامنے آتی ہیں جب معاملہ خاصا بگڑ چکا ہوتا ہے۔

جگر میں چربی کی وجوہات

 شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی ماہر امراض معدہ و جگر ڈاکٹر صدف یوسف کے مطابق پیٹ کے اندر مختلف اعضاء مثلاً آنتوں اور جگر وغیرہ پر کچھ چربی ویسے بھی لپٹی ہوتی ہے۔ تاہم چربیلے جگر کا معاملہ ذرا الگ ہے۔ لوگوں کی قابل ذکر تعداد سمجھتی ہے کہ فیٹی لیور میں جگر پر چربی چڑھ جاتی ہے حالانکہ یہ جگر کے اوپر نہیں بلکہ اس کے اندرجمع ہوتی ہے۔

صحت مند جگر کا وزن تقریباً تین کلوگرام ہوتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق اس میں چربی کی مقدار پانچ فی صد یا اس سے تجاوز کر جائے تو نہ صرف اس کا وزن بڑھتا ہے بلکہ افعال بھی متاثر ہونے لگتے ہیں۔ کچھ سال قبل تک یہ مسئلہ صرف بڑی عمر کے افراد تک محدود تھا۔ اب یہ بچوں میں بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے ماہر امراض معدہ و جگر ڈاکٹر فضل منان کہتے ہیں کہ کچھ مریض ویسے تو پتلے ہوتے ہیں تاہم جسم کے مرکزی حصے یعنی پیٹ کے موٹاپے کے باعث ان کا جگر چربیلا ہو جاتا ہے۔

خطرے کی زد میں

جگر کے چربیلا ہونے کی کوئی حتمی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوئی۔ ماہرین صحت کے خیال میں اس کے اسباب میں موروثیت، غیر متحرک طرز زندگی اور کھانے کی غیر صحت مندانہ عادات شامل ہو سکتی ہیں۔ اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کن افراد میں اس کے امکانات زیادہ ہیں؟

جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق چربیلے جگر سے متاثرہ افراد کی اکثریت یعنی 80 فی صد کا وزن عمومی حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ 30 فی صد فربہی، 30 سے 70 فی صد ہائپرٹینشن اور 20 فی صد ذیابیطس کا شکار ہوتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ موٹاپے، ذیابیطس اور ہائی بلڈپریشر کے شکار افرد میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

زیادہ وزن اور موٹاپے میں فرق

موٹاپا ایسی کیفیت ہے جو بظاہر اتنی واضح نہیں کیونکہ ہر فرد کی قدرتی ساخت مختلف ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس کا شکار ہونے کے باوجود خود کو نارمل سمجھتے ہیں جبکہ کچھ خواہ مخواہ موٹے ہونے کا وہم پال لیتے ہیں۔ اس الجھن کو دور کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ پیمانہ بی ایم آئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق جن بالغ افراد کا بی ایم آئی 25 یا اس سے زیادہ ہوان کا وزن عمومی حد سے زیاد ہے۔ بی ایم آئی 30 یا اس سے زیادہ ہو تو وہ فربہی ہیں۔

چربیلے جگر کی اقسام

طرز زندگی کی وجہ سے ہونے والے مرض کی بنیاد پر چربیلے جگر کی دو اقسام ہیں۔ پہلی کثرت شراب نوشی کے سبب جگر میں چربی کا مرض ہے۔ دوسری قسم کو طب میں نیفلڈ کہتے ہیں جس کا تعلق شراب نوشی سے نہیں۔ یہ چربیلے جگر کی سب سے عام پائی جانے والی قسم ہے۔ جب یہ جگر میں سوزش اور خلیوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بننے لگے تو اسے نیش کہا جاتا ہے۔ امریکن ایسوسی ایشن آف لیور ڈیزیزز کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 25.24 فی صد افراد ( ہر چار میں سے ایک فرد) کو نیفلڈ کی شکایت ہے۔

چربیلے جگر کی وجہ سے وفات پانے والے ایک ہزار افراد میں سے کم و بیش 15 میں اس کا سبب نیش ہی ہوتا ہے۔ این سی بی آئی کے مطابق 1990 سے 2017 تک اس کی شرح میں 8.2 فی صد سے 10.9 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

علامات کیا ہیں

ابتدائی مرحلے میں چربیلے جگر کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ اس کی تشخیص عموماً مرض بگڑنے کے بعد ہی ہوتی ہے۔ تاہم بعض صورتوں میں حادثاتی طور پر یعنی معمول کے ٹیسٹوں یا الٹراساؤنڈ سے تشخیص ہو جاتی ہے۔ مثلاً جب مریض ٹیسٹ کرواتا ہے تو اس میں جگر کے انزائمز بڑھے ہوتے ہیں۔ یہ اشارہ دیتے ہیں کہ اسے نقصان پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔

چربیلاپن جگر کے ناکارہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے یا نہیں، اس حوالے سے ڈاکٹر صدف کہتی ہیں کہ ابتدا میں زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔

پہلے مرحلے میں اسے قابو نہ کیا جائے تو 80 سے 90 فی صد کیسز میں جگر کو آہستہ آہستہ نقصان پہنچتا رہتا ہے۔ پھر 10 سے 15 سالوں بعد جگر سکڑ جاتا ہے۔ نتیجتاً مریض کو پیٹ میں پانی، کمزوری، یرقان اور خون کی الٹیوں جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔ آخری مرحلے میں جگر ناکارہ ہو جاتا ہے اور لیور ٹرانسپلانٹ کرنا پڑتا ہے۔ چربیلے پن کے ساتھ کوئی اور مرض مثلاً موٹاپا یا ذیابیطس بھی ہو تو ان سے جڑی پیچیدگیاں بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔

جگر کی چربی کم کرنے کے لیے ہدایات

غذائی احتیاطیں

لاہور کی ماہر غذائیات، سدرہ امتیاز کہتی ہیں کہ مرض بگڑنے سے قبل معاملے کو سنبھالنے کا مؤثر ترین حل بگاڑ کے اسباب کی نشاندہی اور ان کا علاج ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر اور ماہرغذائیات سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مریض ذیابیطس کا شکار ہو تو دوا، ورزش اور خوراک میں کچھ تبدیلیاں مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔

انہیں چاہیے کہ ایسا نشاستہ لیں جو فوری طور پر شوگر کی مقدار نہ بڑھائے۔ مثلاً دلیہ، سیریل، براؤن چاول، کالا اور سرخ لوبیا وغیرہ۔ اس کے علاوہ کم گلائسیمک انڈیکس کی حامل خوراک مثلاً شملہ مرچ، بروکلی، ٹماٹر، سلاد کے پتے، ناشپاتی، سیب، سٹرابیری، چنے، دالیں، کاجو اور میوہ جات استعمال کریں۔

شوگر کے مریض تازہ پھلوں کے مشروبات پینے کے بجائے پھل کھائیں۔ ان میں فائبر ہوتا ہے جو بلڈشوگر لیول فوراً نہیں بڑھنے دیتا۔ اسی طرح ایسے پھل مثلاً تربوز وغیرہ سے گریز کریں جن میں پانی زیادہ ہوتا ہے۔ کھانے کے دوران لمبا وقفہ نہ دیں کیونکہ زیادہ دیر بھوکا رہنے کے بعد جب کھائیں گے تو شوگر لیول فوری بڑھے گا۔ اس کے علاوہ پھل کھانے کے ساتھ نہیں بلکہ سنیک کے طور پر کھائیں۔

موٹاپا کم کریں

عموماً چکنائی کو موٹاپے کا بڑا سبب ٹھہرایا جاتا ہے۔ صرف چکنائی ہی نہیں ضرورت سے زیادہ کیلوریز اور پروٹین کی کم مقدار بھی اس کا سبب بن سکتی ہے۔

موٹاپے کے شکار افراد ماہر غذائیات سے رابطہ کر کے غذا کا چارٹ بنوائیں۔ پروٹین سے بھرپور غذا کھائیں، اومیگا تھری فیٹی ایسڈز یعنی غیرہ سیرشدہ چکنائیاں استعمال کریں۔ سادہ کاربوہائیڈریٹس جیسے میدہ، سفید آٹا اور سفید چینی کے بجائے کمپلیکس کاربوہائیڈریٹس مثلاً براؤن چاول اور اَن چھنا آٹا کھائیں۔ اپنی ضرورت کے مطابق پانی بھی پیئیں کیونکہ جسم میں پانی کی کمی کے باعث بھی میٹابولزم سست ہو سکتا ہے۔

دیگر اہم ہدایات

معمول کے ٹیسٹوں میں خرابی سامنے آئے تو جنرل فزیشن یا ماہر امراض معدہ و جگر سے رابطہ کریں۔ ہیپاٹائٹس کی ویکسین لگوائیں اور وزن زیادہ ہو تو احتیاطاً جگر کا الٹراساؤنڈ کروا لیں۔

٭ وزن زیادہ ہو تو اسے کم ازکم 5 یا بہتر ہے کہ 10 فی صد کم کریں۔ مثلاً اگر 70 کلو وزن ہے تو ساڑھے تین سے سات کلو کم کریں۔

٭ وزن اس حد تک بڑھا ہو کہ کچھ کلو کم کرنے کے بعد بھی آپ موٹاپے کے شکار ہی کہلائیں تو سرجری کا آپشن استعمال کریں۔

٭ ہفتے میں پانچ دن 30 سے 40 منٹ تیز چہل قدمی یا ایروبک ورزشیں (جاگنگ اور بھاگ دوڑ) کریں۔ سخت ورزشیں کرنے والے انہیں ہفتے  میں دو سے تین مرتبہ کر سکتے ہیں۔

٭ بعض گھریلو خواتین سمجھتی ہیں کہ گھریلو کاموں کے ساتھ الگ سے کسی جسمانی سرگرمی کی ضرورت نہیں۔ یہ درست نہیں۔ اپنے لیے وقت نکالیں تاکہ صحت مند وزن برقرار رکھ سکیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

اکھڑے ہوئے ناخن کی کیئر

Read Next

حال ہی میں ماں بننے والی زارا نور عباس کا ماؤں کو اہم مشورہ

Leave a Reply

Most Popular