Vinkmag ad

آپریشن یا نارمل ڈیلیوری

بچے کی پیدائش قدرت کے کرشموں میں سے ایک ہے۔ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ فطرت کے قریب رہنے میں ہی فائدہ ہے ‘ اس لئے اگر کوئی پیچیدگی ہو تو نارمل ڈیلیوری کو ہی ترجیح دینی چاہئے ۔تاہم اس میں کوئی مسئلہ ہو تو پھر آپریشن سے گھبرانایا کترانا نہیں چاہئے۔ ایسے میں متوقع ماوں کو چاہئے کہ حوصلے سے کام لیں اور مفروضوں پر کان دھرنے کی بجائے حقیقت کا سامنا کریں۔ ناجدہ حمید کی ایک معلوماتی تحریر


میں نے ڈیلیوری کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا ۔ اس کے بعد میرا تاثر یہ تھا کہ یہ بہت مشکل اور نازک مرحلہ ہوتاہے اور عورت اپنی جان پر کھیل کر بچے کو جنم دیتی ہے ۔میری کزنز نے دردِ زہ (لیبر پین)سے متعلق اپنے تجربات کو جس طرح بیان کیا ‘ انہیں سن کر مجھے بہت خوف آتا تھا کہ پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ جن کزنز کے ہاں بچے بڑے آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے ہوئے‘ وہ بھی اپنی تکالیف اور مسائل بتاتی نہیں تھکتی تھیں۔غرض یہ کہ میںاپنے بیٹے موحد کی پیدائش سے متعلق دونوں ہی صورتوں سے خوف زدہ تھی۔
جب یہ موقع آیا توسبھی کاکہنا تھا کہ کیس کا نارمل ہو جانا زیادہ بہتر ہے۔میں نے بھی آپریشن سے بچنے اور نارمل ڈیلیوری کے لئے جو بن پڑا کیا اور اس کے لےے جس کسی نے جو مشورہ دیا‘ اس پر عمل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اللہ تعالیٰ سے دعابھی کیا کرتی تھی کہ یہ نارمل طریقے سے ہوجائے ۔ڈیلیوری سے پہلے آ خری بار چیک اَپ کے وقت میں نے ڈاکٹرصاحبہ سے پوچھا کہ یہ نارمل ہو گی یا آپریشن سے؟ انہوں نے کہا کہ ابھی تک تو سب کچھ نارمل ہے لیکن اس کا فیصلہ آخری وقت پر ہی ہو سکے گا۔
نو ماہ پر محیط طویل عرصے کے بعدبالآخر وہ دن بھی آگیا جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ سحری کے وقت سے ہی مجھے درد شروع ہو گئے تھے۔ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب تکلیف زیادہ ہو گی‘ تب ہسپتال جائیں گے۔اس طرح ہم نے دن کے وقت ہسپتال کا رخ کیا۔وہاں شام کے وقت میری تکلیف ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئی ۔صبح کے وقت درد شروع ہوئے تھے اور اب رات ہو گئی تھی ۔ میںبہت تھک چکی تھی لیکن ڈاکٹر نے بتایا کہ ابھی ڈیلیوری میں کافی وقت باقی ہے ۔
اسی دوران امی میرے پاس آئیں۔ میں نے ان کی منت سماجت شروع کر دی کہ میرا آپریشن کرا دیں لیکن انہوں نے مجھے حوصلہ دلایا اور کہاکہ بس تھوڑا سااور برداشت کرو۔ پھر وہ چلی گئیں۔ جب تکلیف مزید بڑھی تو میں نے ڈاکٹر سے کہاکہ میرا آپریشن کر دیں‘ اس لئے کہ مجھ سے اب یہ برداشت نہیں ہو رہا۔ انہوں نے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ اس مرحلے پر آپریشن نہیں ہو سکتا۔اس کے کچھ ہی دیر بعد بچے کی پیدائش ہو گئی۔اس کے بعد یوں لگاجیسے ساری تکلیف اچانک ختم ہوگئی ہو۔ میںنے کامیاب زچگی اور درد سے نجات پر اللہ کا شکر ادا کیا۔
بعد میںایک دن مجھے اپنے شوہر کے ساتھ اُن کے ایک دوست کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔میں ان کی اہلیہ سے ملی جن کی چوتھی بچی آپریشن سے پید اہوئی تھی۔ان کی باتوں سے مجھے احساس ہوا کہ آپریشن کے ذریعے زچگی کے بعد کتنی احتیاطیں کرنا پڑتی ہےں۔ ان کے مسائل سن کر میں نے ایک بار پھر اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری ڈیلیوری نارمل طریقے سے ہوئی ہے۔
خوف اور ترجیح
زچگی کے طریقہ کار کے تناظر میںہمارے ہاں دو طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ایک طرف وہ خواتین ہیں جو سی سیکشن کے نام سے بھی ڈرتی ہیں اور کسی بھی قیمت پر اس پر آ مادہ نہیں ہوتیں۔دوسری طرف بعض خواتین کے بقول وہ درد زہ برداشت نہیں کر سکتیں لہٰذا آپریشن کو ترجیح دیتی ہیں۔
کے آرایل ہسپتال اسلام آباد کی ماہر امراض زچہ وبچہ ڈاکٹربشریٰ بابر اس کے پس منظر پر گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں:
”ہمارے ہاں اکثر خواتین نارمل طریقے سے بچے کی پیدائش کا اپنا تجربہ کچھ اس انداز میں بیان کرتی ہیں کہ سننے والی دیگر خواتین ڈر جاتی ہیں ۔ اس لئے وہ آپریشن کو ڈیلیوری کا آسان حل سمجھتی سمجھتی ہیں۔یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ فطرت کا کوئی نعم البدل نہیں۔قدرتی عمل سب سے زیا دہ محفوظ ہے۔“
تاہم بعض صورتوں میں یہ ضروری بھی ہو جاتا ہے ۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر بشریٰ کہتی ہیں:
”جو خواتین آپریشن کا نام سن کر ہی گھبرا جاتی ہیں‘انہیں سوچنا چاہئے کہ اگر ایسا ممکن نہ ہوتا تو کتنی خواتین اور بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتیں۔“
بعض صورتوں میں ڈاکٹر پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ سی سیکشن کے بغیر چارہ نہیں ۔ان میں ماں کا بلڈ پریشر یا شوگر کنٹرول میں نہ ہونا، ماں کو دل کا کوئی عارضہ ہونا، بچے میںکوئی پیچیدگی یا اس کی پوزیشن کا درست نہ ہونا شامل ہیں۔ہمارے ہاں یہ تاثرعام ہے کہ اگر ایک بار آپریشن ہو تو پھر ہر بار ایسا ہی ہو گا۔ڈاکٹربشریٰ اس سے اتفاق نہیں رکھتیں :
” ضروری نہیں کہ ہر بار ایسا ہی ہو، اس لئے کہ اس کا دارومدار مختلف وجوہات پرہوتا ہے۔اگر پہلی بار کسی وجہ سے آپریشن ہوا ہو اوردوسری بار وہ وجہ سامنے نہیں آتی تونارمل ڈیلیور ی ہو سکتی ہے۔تاہم اگرکوئی پیچیدگی حمل کے دوران ہی سامنے آجاتی ہے تو پھر پہلے سے ہی سی سیکشن کا پلان یا ایمرجنسی سی سیکشن بہتر آپشن ہے۔
وجوہات کیا ہیں
ڈاکٹر بشریٰ کے مطابق اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میںسے زیادہ عام درج ذیل ہیں:
٭دورانِ حمل ماں یا بچے میںکسی پیچیدگی کاظاہر ہونا
٭زچگی کے وقت بچے کے دل کی دھڑکن متاثر ہونا
٭بچے کا کمزور یا زیادہ موٹا ہونا
٭پیدائش کی نالی کا تنگ ہونا
٭ بچے کے آنول(placenta)کاٹھیک جگہ پرنہ ہونا
٭نارمل زچگی کے دوران بچے کا سر نیچے نہ آرہا ہو
٭آنول بچے کے گردن کے گرد آجائے
٭بچہ کی پوزیشن درست نہ ہو
٭زچہ کا بی پی ہائی ہوجانا۔
آپریشن کے بعد احتیاطیں
٭آپریشن کے بعد خوراک کا خاص خیال رکھنے کی ضروت ہوتی ہے۔
٭پانی اور جوس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ڈاکٹر بشریٰ کہتی ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پانی پینے سے ٹانکے خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اس لےے زچہ کو پانی زیادہ نہیں پینا چاہےے۔ یہ بالکل غلط تصور ہے۔پانی کم پینے سے بچے کی فیڈ متاثر ہو سکتی ہے ۔اس لئے دودھ پلانے والی ماو¿ں کو زیادہ پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
٭زیادہ پروٹین والی خوراک (مثلاً گوشت اور چکن وغیرہ) استعمال کریں۔اس سے ٹانکے جلدی بھرنے میں مدد ملے گی۔
٭چھے ہفتوں تک مکمل آرام کریں اور اس دوران صرف بچے کی دیکھ بھا ل کریں۔ایسے میں فیملی کی مدد کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
٭ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں باقاعدگی سے استعمال کریں تاکہ انفیکشن سے بچا جا سکے ۔
٭آپریشن کے بعد تین سے چھے ماہ تک کوئی بھی ایسا کام مثلاً بیٹھ کر جھاڑو لگانا،بیٹھ کر آٹا گوندھنا وغیر ہ نہ کریں جس سے پیٹ پر دباو¿ پڑے۔ نیزرفع حاجت کے لےے کموڈ استعمال کریں ۔
ٹانکے‘ انفیکشن سے بچیں
سی سیکشن کے بعد ٹانکوں کا خیال رکھنا بھی اہم ہے۔ اکثرسننے یا دیکھنے میں آتا ہے کہ ٹانکے خراب ہو گئے ہیں۔اس کی وجوہات بتاتے ہوئے ڈاکٹر بشریٰ کہتی ہیں :
ٹانکوں کی صفائی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں خواتین اس خوف سے نہاتی نہیں کہ پانی سے ٹانکے خراب ہو جائیں گے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ٹانکوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے نہانا ،کپڑے تبدیل کرنا اور اپنی صفائی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے ۔اگر پٹی گیلی ہو جائے تو اسے تبدیل کرا دیں۔
ٹانکوں کو انفیکشن سے بچانے کے لےے ضروری ہے کہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ اینٹی بائیوٹکس کا کورس مکمل کریں۔اگر ایک بھی ٹانکا خراب ہوجائے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں ‘ اس لئے کہ اس کا زخم اندر تک خراب ہو کر کھل سکتا ہے۔
ماں بننا آسان نہیں۔اس کے لےے بہت سے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔اسی لےے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے اور اس کا رتبہ باپ سے تین گناہ زیادہ بتایا گیا ہے ۔میں اپنے تجربے کے بعد سمجھتی ہوں کہ بچے کی پیدائش قدرت کے کرشموں میں سے ایک ہے۔فطرت کے قریب رہنے میں فائدہ ہے ‘ اس لئے اگر کوئی پیچیدگی نہ ہو تو نارمل ڈیلیوری کو ہی ترجیح دیں۔ تاہم اس میں مسئلہ ہو تو پھر آپریشن سے مت گھبرائیں ۔ خواتین کو چاہئے کہ ہمت اور حوصلے سے کام لیں اور مفروضوں پر کان دھرنے کی بجائے حقائق پر توجہ دیتے ہوئے حقیقت کا سامنا کریں۔

Vinkmag ad

Read Previous

میڈیسن میں پہاڑ جیسی غلطیاں

Read Next

لیزر ٹریٹمنٹ حسن کولگائے چار چاند

One Comment

Leave a Reply

Most Popular