Vinkmag ad

میڈیسن میں پہاڑ جیسی غلطیاں

بقراط اور حکیم جالینوس سمیت عہدقدیم کے اطباءکی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ انسانی جسم میں چار طرح کی رطوبتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ رطوبتیں خون‘ بلغم‘صفرا ء(yellow bile) اور سودا ( black bile) ہیں۔ اس نظرئیے کو بعد میں عربوں اور ایرانیوں نے بھی قبول کرلیا اورپھر یہ ملکوں ملک پھرتا پھراتا برصغیر میں بھی پہنچ گیا ۔ یونانی طریقہ¿ علاج میں بھی اسی نظرئیے کو مانا جاتا ہے۔اس کے مطابق ان چار رطوبتوں میں ایک خاص اور نازک توازن پایاجاتا ہے۔ جب یہ توازن کسی وجہ سے بگڑ جائے تو ہمیںمختلف بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں جن کا علاج اس توازن کو واپس معمول پر لانا ہے ۔اس تصور کی بنا پر نشتر کے ذریعے مریض کے جسم میں زخم لگاکر خون نکالا جاتا تھا ۔یہ بہت خطرناک طریقہ تھا جس کی وجہ سے پہلے سے کمزور پڑے مریض کے جسم سے بہت سا خون ضائع ہو جاتا۔ ایسے میں اس کی حالت مزید بگڑ جاتی اور وہ دائمی نیند سو جاتا۔اس غلط تصور کا شکار ہونے والوں میں ایک اہم تاریخی شخصیت جارج واشنگٹن بھی شامل ہیں جنہوں نے امریکہ کو برطانیہ سے آزاد کرانے کے لئے جنگ لڑی اور اس میں کامیاب ہوئے ۔ بستر مرگ پران کے جسم سے بھاری مقدار میں دوتین بار خون نکالا گیاجو ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔
ہزاروں سال کے تجربات کی روشنی میں کچھ ایسے درخت ‘ پودے‘ سبزیاں اور جڑی بوٹیاں وغیرہ شناخت کی گئیں جو انسانوںکو خوراک مہیا کرتی ہیں۔ چائے کا پودا چین میں جبکہ کافی کا عرب ممالک میں دریافت ہوا۔ عربوں نے دیکھا کہ ان کی جو بھیڑ بکریاں اس پودے کے پھل کو چبالیتی ہیں‘ وہ ساری رات جاگ کر گزارتی ہیں۔چائے کے بعد کافی کے مشروبات کو مذہبی لوگ زیادہ استعمال کرنے لگے تاکہ انہیں رات بھر نیند نہ آئے اور وہ یہ وقت عبادات میں گزارسکیں۔کچھ جڑی بوٹیوں میں ادویات کے خواص پائے گئے جبکہ کچھ ایسی بھی تھیں جن کے استعمال سے انسان کو نشہ سامحسوس ہوا۔ان کے استعمال سے کئی لوگ حظ اُٹھانے لگے اور افیون‘ چرس ‘کوکین اور بعض کھمبیاں منشیات کے طور پر استعمال ہونے لگیں۔ تمباکو بھی ان میں شامل ہے۔انگریزوں نے ہندوستان میں تیار کردہ افیون چین میں بیچ کر پیسہ کمایا اور پوری چینی قوم کواس لعنت میں مبتلا کردیا۔ بعد میں جرمنی کی بیئر (Bayer)کمپنی( جس نے اسپرین بھی بنائی تھی)نے 19ویں صدی کے آخر میں ہیروئین بھی بنائی۔یہ وہ زمانہ تھا جب ماہر نفسیات ڈاکٹر سگمنڈفرائڈ زندہ تھے۔انہوں نے کوکین اور ہیروئین کو اس بنیاد پر فروغ دیا کہ اس کا استعمال افیون کے عادی لوگوں کو اس نشے سے نجات دلاتا ہے۔مزیدبراں یہ ڈپریشن سمیت کئی اور نفسیاتی امراض کا موثر علاج ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے مقبول ترین مشروب ’کوکاکولا‘ میںکوکین شامل کیاجاتا تھا۔ اس کے استعمال سے فرائڈ اور اس کاایک قریبی دوست کوکین اور ہیروئین کے نشوں میں پھنس گئے۔ کئی سال بعدپتہ چلا کہ یہ ایسی لعنتیں ہیں جن سے جان چھڑانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کی فروخت پرمختلف حکومتوں نے پابندیاں عائد کردیں۔
19ویں صدی کے آخر تک کوئی بھی ایسی دوادریافت یا ایجاد نہ ہوئی تھی جس سے پاگل پن اور نفسیاتی امراض کا خاطر خواہ علاج کیاجاسکتا۔ قارئین جانتے ہیں کہ بعض نفسیاتی مریض بہت جارحانہ طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف اوروں کو بلکہ اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔ ایسے مریضوں کے لئے پاگل خانے بنائے جاتے تھے جن میں اکثراوقات ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا تھا۔ یہ پاگل خانے بہت گندے اور پرہجوم ہوتے تھے جن میں متعدی امراض پھیلنے کا خطرہ رہتا تھا۔
ایک پرتگالی ڈاکٹر مونز( Moniz)نے1935ءمیں دماغ پر آپریشن کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ڈاکٹروں کو اس بات کا علم تھا کہ انسانی شخصیت کی تعمیر میں دماغ کا آگے کا حصہ بہت اہم کردار اداکرتا ہے۔اس حصے کو فرنٹل لوب(frontal lobe) کہتے ہیں۔دماغ کے مختلف حصوں سے نکلنے والے اعصاب بجلی کی پیچیدہ تاروں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور مل جل کر کام کرتے ہیں۔ اگر فرنٹل لوب کو باقی دماغ سے منقطع کردیاجائے تو مریض کے جارحانہ طور طریقے ختم ہوجاتے ہیں۔مونز نے مریضوں کی کھوپڑی میں سوراخ کرکے یہ کام کیا جس سے ان مریضوں میں جارحانہ رویہ ختم ہوگیا اوراب انہیں آسانی سے قابو میں لایاجاسکتا تھا۔ اس طریقے کی ایجاد پر ڈاکٹر مونز کو1949ءمیں نوبل انعام سے نوازا گیاتاہم آپریشن کے بعد مریضوں کے طرز عمل میں کچھ منفی تبدیلیاں بھی دیکھی گئیں ۔مثال کے طور پر ان کی حالت ایسے بچوں کی طرح ہو گئی جنہیں بُرے بھلے کی تمیز نہیں ہوتی۔انہیں بھوک پیاس کی پرواہ نہ ہوتی ‘ وہ ننگ دھڑنگ پھرتے‘ پیشاب اور پاخانہ کہیں بھی کردیتے اور اُن پر(پیشاب پاخانے پر) ان کا کنٹرول بھی نہ رہا۔اس کے باوجوداس آپریشن کو مغربی ممالک میں مقبولیت حاصل ہوگئی۔ ایک امریکی ڈاکٹر والٹرفریمین نے اسے اپنے ملک میں فروغ دیا ۔ اس آپریشن میں کھوپڑی میں سوراخ کرنا پڑتا تھااوریہ بات ڈاکٹر والٹر کو ناپسند تھی ۔اُس نے ایک نیا طریقہ دریافت کیاجس کے مطابق وہ آنکھوں کے اوپری پپوٹے کے نیچے کی جگہ پر لوہے کی سلاخ ڈال کراسے پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ۔ وہ سلاخ کو دماغ کے اگلے حصے میں چبھو کر اسے تیزی سے دائیں بائیں ہلاتا۔اس سے فرنٹل لوب کے اعصاب منقطع ہوجاتے اورمطلوبہ مقاصد حاصل ہوجاتے ۔ اس عمل میں ایک خرابی یہ تھی کہ یہ عمل فقط باہر سے ہی دیکھا جاسکتا تھالہٰذا صرف اندازہ ہی کیاجاسکتا تھا کہ سر کے اندرکیا ہورہاہے۔ اس سے کبھی کبھی خون کی رگیں زخمی ہوجاتیں اور اندر ہی اندر خون بہنے سے بعض اوقات مریض کی موت بھی واقع ہوجاتی ۔فریمین نے ایسے ہزاروں آپریشن کئے تاہم اس کی پیچیدگیوں اور غیر تسلی بخش نتائج کی وجہ سے امریکہ وغیرہ میں اسے غیرقانونی قراردے دیاگیا۔فریمین نے آخری آپریشن 1967ءمیںکیا جس میں مریض کے دماغ میںخون بہنے کی وجہ سے اس کا انتقال ہوگیا۔1930ءکی دھائی سے لے کر ا ب تک امریکہ میں اس طرح کے تقریباً 50ہزار جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں ایک لاکھ آپریشن ہوئے۔یہ آپریشن کروانے والوں میں امریکی صدر کینیڈی کی بہن اور مشہورامریکی ڈرامہ نویس ٹینیسی ولیمز (Tennessee William)کی بہن بھی شامل تھیں۔
ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ طبی سائنس میںڈاکٹروں سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں جن سے مریضوںکو نقصان بھی ہوا اور بعض مریضوں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔لیکن سائنس تب ہی ترقی کرکے آگے بڑھتی ہے جب سائنس دانوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو اوروہ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کریں۔

Vinkmag ad

Read Previous

ایگزیما اِک پل چین نہ آئے

Read Next

آپریشن یا نارمل ڈیلیوری

Leave a Reply

Most Popular