Vinkmag ad

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے منفی اثرات عمر بھر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ کراچی کی چائلڈ سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر تانیہ ندیم اس موضوع پر اہم سوالات کے جوابات دے رہی ہیں

جنسی زیادتی کی تعریف کیا ہے؟

 ایک بالغ شخص بچے کو اس کی آزاد مرضی کے خلاف کسی بھی سطح کے جنسی عمل کے لیے استعمال کرے تو اسے جنسی زیادتی کا نام دیا جاتاہے۔ عمر کے اس حصے میں بچہ ذہنی،نفسیاتی اور جسمانی طور پر ایسے حادثے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ لہٰذا اسے پہنچنے والا صدمہ شدید ہوتا ہے۔ بظاہر یہ بات معمولی لگتی ہے۔ تاہم مستقبل میں اس کے بہت سے نفسیاتی اور طبی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کئی طرح کی پیچیدگیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ صحت کا مسئلہ بھی ہے۔

والدین کیسے پہچانیں کہ بچے کے ساتھ ایسا ہوا ہے؟

اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ کیا آپ نے اس سے پہلے اس سے بات کی ہے۔ کیا آپ کے اپنے بچے کے ساتھ تعلقات دوستانہ ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ خود ہی آپ کو بتا دے گا۔ اگرچھوٹے بچے کے ساتھ ایسا ہوا ہو تو وہ بھی کسی دوسرے کے ساتھ ایسی حرکات کرنے کی نقل کرے گا۔ اگر وہ ایسا کرے تو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہئے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جسمانی اور ذہنی نشو و نما کی طرح جنسی نشو و نما بھی فطری عمل ہے۔ تاہم ظاہر ہے کہ اس کا اظہار اپنی عمر میں ہی اور فطری انداز میں ہوتا ہے۔

پاکستان میں یہ مسئلہ کس حد تک موجود ہے؟

مجھے پاکستان میں اس سے متعلق اعداد و شمار کا علم نہیں۔ البتہ ہمارے کلینک میں اس مسئلے کے شکار بہت سے بچے آتے ہیں۔ ہم کونسلنگ اور دیگر طریقوں سے انہیں نفسیاتی الجھنوں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کن بچوں میں جنسی زیادتی کی شرح زیادہ ہے؟

چھوٹے بچے اور بلوغت کی دہلیز پر نیا نیا قدم رکھنے والی بچیاں اس کی زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ ہوٹلوں پر بحیثیت ویٹر مزدوری کرنے والے بچے بھی ایسے افراد کا نشانہ بنتے ہیں۔ گاڑیوں پر کلینر اور ہیلپر بچوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔ ایسے بچے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں جنہیں گھروں میں پیار نہیں ملتا۔

زیادتی کرنے والے افراد زیادہ تر کون لوگ ہوتے ہیں؟

بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں میں رشتہ داروں، گھریلو ملازمین یا قابل بھروسا افراد کی شرح زیادہ ہے

اکثر والدین سمجھتے ہیں کہ زیادتی کا امکان اجنبیوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے وہ بچوں کو زیادہ وقت گھر پر رکھتے ہیں۔ وہ انہیں قریبی رشتہ داروں کے علاوہ دیگر لوگوں سے میل جول رکھنے سے منع کرتے ہیں۔ ان کی توقع کے برعکس زیادہ تر کیسز میں قریبی لوگ اس میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس میں رشتہ داروں، گھریلو ملازمین یا قابل بھروسا افراد کی شرح زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن پر کوئی شک نہیں کرتا۔ ان کے لیے بچوں تک رسائی آسان ہوتی ہے۔ ان کے درمیان اعتماد اور بے تکلفی کا رشتہ بھی ہوتا ہے۔ ایسے افراد کو تسلی ہوتی ہے کہ بچہ اس کی شکایت نہیں کرے گا۔ اور اگر اس نے کر بھی دی تو کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا۔

جنسی زیادتی کے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

اگر والدین دھیان دیں تو انہیں بچے کے رویے میں نمایاں تبدیلیاں محسوس ہوں گی۔ وہ بظاہر کوئی وجہ نہ ہونے کے باوجود خوفزدہ نظر آئے گا۔ اس کے رویوں میں جارحانہ پن پایا جائے گا۔ ایسے بچوں کی نیند متاثر ہو جاتی ہے۔ وہ تعلیمی طور پر پیچھے رہ جاتے ہیں۔

ان میں طویل المدتی اثرات بھی ہوتےہیں۔ ان میں کئی طرح کی نفسیاتی مسائل اور بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ ان میں صدمے کے بعد ذہنی دباﺅ (Post Traumatic Stress Disorder) , ڈپریشن اور بی پی ڈی (Borderline Personality Disorder) نمایاں ہیں۔

بی پی ڈی ایک سنجیدہ نفسیاتی مسئلہ ہے. اس کا بچے کے موڈ، رویے، اپنی ذات کے بارے میں تصور اور کارکردگی سے گہرا تعلق ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی ان میں خودکشی کے خیالات پیدا کر سکتی ہے۔ یہ ان کی تعلیم پر برا اثر ڈال سکتی ہے۔ فرد اپنی عزت نفس اور دوسروں کے ساتھ انسیت کھو سکتا ہے۔ ایسے بچوں میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں میں بڑے ہونے پر امراض قلب کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے۔

بچیوں میں شادی کے خوف کا ایک سبب کیا یہ بھی ہے؟

جنسی زیادتی کے عمل میں بچیوں کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے دل میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ مرد پر کبھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ انہیں انسیت پیدا کرنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ بچپن میں ایسا تجربہ بھی ہو سکتا ہے۔

ہوٹلوں میں ویٹرز، پبلک ٹرانسپورٹ میں کلینرز اور ہیلپرز  کے علاوہ ایسے بچوں میں اس کی شرح زیادہ ہے جنہیں گھروں میں پیار نہیں ملتا

کیا ان کی ازدواجی زندگیاں متاثر ہو سکتی ہیں؟

اس کا تعلق بچپن میں پہنچنے والے صدمے کی شدت سے ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ کیا ایسا ایک دفعہ ہوا یا باربار ہوتا رہا۔ ہم فطری طور پر لوگوں کے ساتھ محبت کے تعلقات قائم کرنا سیکھتے ہیں۔ اگر اس طرح کا واقعہ باربار ہوا ہو یا اس کا ذہنی صدمہ شدید ہو تو سیکھنے کا یہ عمل متاثر ہوتا ہے ۔ اس سے ان کی شادی شدہ زندگی بھی متاثر ہو سکتی ہے ۔

والدین اپنے بچوں کو کیسے بچائیں؟

سب سے پہلے والدین اس معاملے کی اہمیت کو سمجھیں۔ انہیں چاہیے کہ ان کے ساتھ اس موضوع پر بات کریں۔ انہیں بتائیں کہ ایسا ہوجانے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب کوئی فرد اس طرح کی حرکت کرے تو اسے ماننے سے سختی سے انکار کر دیں اور آپ کو اطلاع کریں۔

اس کے باوجود بچوں کو جنسی زیادتی سے 100 فی صد نہ بچایا جا سکے۔ بچوں کو لوگوں سے ملنا ہوتا ہے اور انہیں کچھ آزادی بھی دینا پڑتی ہے۔ تاہم اس موضوع پر بات کر کے اور کچھ اصول و ضوابط طے کر کے اس کا امکان کم کیا جا سکتا ہے۔ ان کی عمر کے مطابق کسی حد تک نگرانی کا عمل بھی ضروری ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ لڑکیوں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے ۔

زیادتی کی خبر پر والدین کو کیا کرنا چاہئے؟

بچے کو اتنا اعتماد ضرور دیں کہ وہ آپ سے بات کر سکے۔ اسے سمجھائیں کہ اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں

 جب بچہ والدین کو ایسی بات بتائے تو وہ اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ اسے ان کے قریبی عزیز یا رشتہ دار پر الزام لگانے پر ڈانتے ہیں۔ ایسا کرنے کے بجائے اُس کی بات پوری توجہ سے سنیں۔ اسے یہ اعتماد دیں کہ وہ آپ سے بات کر سکے۔ اسے حوصلہ دیں۔ بچے کو سمجھائیں کہ اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں۔ اور یہ کہ ساری غلطی اس فرد کی ہے جس نے یہ حرکت کی ہے ۔

اسے بتائیں کہ اس نے آپ کو بتا کر بہادری کا ثبوت دیا ہے۔ اسے غلطی یا گناہ کے احساس سے نجات دلائیں۔ اس کے بعد اس کی حفاظت کریں۔ آئیڈیل بات تو یہ ہے کہ اس پر قانونی کارروائی کریں۔ اس بات کو نظرانداز مت کریں ورنہ ایسے دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔ بچے سے کہیں کہ اسے خود پر سوار نہ کرے اور معمول کی زندگی بسر کرے ۔

آپ والدین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

بچوں کو اس معاملے پر ایجوکیٹ کیا جائے۔ ان کی عمر کے مطابق انہیں زیر نگرانی رکھا جائے۔ اجنبی لوگوں کے ساتھ انہیں نہ بھیجا جائے۔ انہیں اس بات کی تربیت دی جائے کہ اپنی حفاظت کیسے کرنی چاہئے ۔

Child sexual harassment, interview with psychiatrist 

Vinkmag ad

Read Previous

رمضان میں آپ کن مشروبا ت کو ترجیح دیتے ہیں؟

Read Next

نگلنے کا عمل۔۔۔حیرت انگیز اور دلچسپ

Most Popular