Vinkmag ad

دل اور پھیپھڑوں کے مسائل

دل کو متاثر کرنے والے عوامل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جنہیں آپ تبدیل نہیں کر سکتے جیسے جینز اور فیملی ہسٹری وغیرہ۔ دوسرے وہ ہیں جنہیں ایک خاص حکمت عملی سے بدلا جا سکتا ہے۔ پھیپھڑوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ دل اور پھیپھڑوں کے مسائل کون سے ہیں اور ان کا علاج کیا ہے، جانیے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے کارڈیو تھوراسک سرجن، ڈاکٹر اصغر نواز کے انٹرویو میں

کارڈیو تھوراسک سرجن اور کارڈیالوجسٹ میں کیا فرق ہے؟

کارڈیالوجسٹ ابتدائی مرحلے پر ادویات یا چھوٹے پروسیجرز کے ذریعے دل کی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کارڈیوتھوراسک سرجن سینے کے اندر موجود اعضاء جیسے دل، پھیپھڑے اور سینے کی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔ یہ سرجن ہوتے ہیں اس لیے یہ ان اعضاء کی بیماریوں کو سرجری کی مدد سے ٹھیک کرتے ہیں۔

دل کا بائی پاس، دل میں ٹیومر، پھیپھڑے کا کینسر، دل کا سوراخ، سینے کے پیچھے غدود کو آپریشن سے نکالنا ان کے ذمے ہوتا ہے۔امراض قلب کے معالجین کی ایک تیسری قسم بھی ہے جنہیں کارڈیئک سرجنز کہتے ہیں۔ یہ لوگ سرجری کے ذریعے امراض قلب کا علاج کرتے ہیں۔

کن لوگوں میں دل اور پھیپھڑوں کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں؟

دل کو متاثر کرنے والے عوامل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جنہیں آپ تبدیل نہیں کر سکتے جیسے جینز اور فیملی ہسٹری وغیرہ۔ دوسرے وہ جنہیں ایک خاص حکمت عملی سے بدلا جا سکتا ہے۔ ان میں موٹاپا، غیر متحرک طرز زندگی، غیر صحت بخش غذا، سگریٹ نوشی، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس وغیرہ شامل ہیں۔

پھیپھڑوں کی بیماریوں کی بات کی جائے تو تمباکو نوشی کرنے والے اور اس فضا میں سانس لینے والے افراد بھی اس کی زد میں ہیں۔ گردو غبار، سیمنٹ ،اینٹوں اور پینٹ انڈسٹری میں کام کرنے والے پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ماسک استعمال کریں۔ جن کے خونی رشتوں میں ٹی بی اور پھیپھڑے کا کینسر ہو وہ بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ان بیماریوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

ایسے لوگ جن میں کوئی بھی ایک رزک فیکٹر موجود ہے، اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔ مردوں کا پیٹ ان کی رانوں سے باہر ہو تو سمجھ لیں کہ ان کا وزن خاص حد سے زیادہ ہے لہٰذا وزن کو قابو کریں۔ متحرک طرز زندگی اپنائیں اور متوازن اور صحت بخش غذا کھائیں۔

دل کی سرجری کی ضرورت کب پڑتی ہے؟

دل یا پھیپھڑوں سے متعلق کوئی غیر معمولی علامت ظاہر ہو تو حکیموں کے بجائے کارڈیالوجسٹ کے پاس جائیں۔ ابتدائی مرحلے پر انجائنا کو ادویات اور پرہیز سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ وہ بگڑ جائیں تو سرجری کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ بیماریوں یا کیفیات کا پہلے ہی مرحلے میں علاج آپریشن ہے۔ ان میں زیادہ تر پیدائشی یا موروثی بیماریاں مثلاً دل میں سوراخ یا والوز کا خراب ہونا شامل ہیں۔

دل کی وہ بیماریاں ہیں جو پیدائش کے بعد ہوتی ہیں، ان میں والوز کی خرابیاں اور خون کی نالیوں کی بیماریاں شامل ہیں۔ بعض اوقات کسی انفیکشن کی وجہ سے دل کے والوز متاثر ہوتے ہیں یا اس کا پمپ کمزور پڑ جاتا ہے۔ ان میں بھی سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

 مردوں کا پیٹ ان کی رانوں سے باہر ہو تو ان کا وزن خاص حد سے زیادہ ہے لہٰذا اسے قابو کریں، متحرک طرز زندگی اپنائیں اور متوازن غذا کھائیں

بگڑا ہوا نمونیا کیا ہے؟

اس بیماری میں مبتلا مریض سانس اور بخار کی تکلیف کے ساتھ آتے ہیں۔ مریض کے ظاہری معائنے اور ایکسرے سے یہ پتا لگایا جاتا ہے کہ کہیں اسے پھیپھڑوں میں انفیکشن یا پھیپھڑوں کے باہر یا سینے کی جھلی کے اندر انفیکشن (Empyema) تو نہیں۔ اس کیفیت میں مریض کے پھیپھڑوں میں پیپ پڑ جاتی ہے جسے سرجری کی مدد سے نکالا جاتا ہے۔ یہ پاکستان میں پھیپھڑوں کا سب سے عام انفیکشن ہے۔ اس کی بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔

شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں ہارٹ ڈپارٹمنٹ کیا سروسز دے رہا ہے؟

شفا انٹرنیشنل میں دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے علاج کا ایک سنٹر ہے۔ اس میں مایہ ناز کارڈیالوجسٹ، سرجنز اور نرسنگ سٹاف کی ٹیم موجود ہے۔ یہ لوگ 24 گھنٹے ان مریضوں کی رہنمائی اور علاج کے لیے موجود ہیں جو دل کی کسی بھی بیماری یا علامت کے ساتھ ہمارے پاس آتے ہیں۔

فوری طور پر آپریشن کرنا ہو تو ہم وہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم لوگوں میں ایک آگہی پیدا کر رہے ہیں کہ آپ ہارٹ اٹیک کے مریض کو 90 منٹ کے اندر شفا انٹرنیشنل لے آئیں تو ہم اس کے دل کی شریانیں کھول سکتے ہیں۔ اس سے اس کی جان بچ سکتی ہے۔ لہٰذا ایسی حالت میں ایمبولینس سروس سے رابطہ کریں اور فوراً شفا انٹرنیشنل آ جائیں۔

چھوٹے کٹ کی مدد سے سرجری کیا ہے اور کیسے یہ روایتی سرجری سے بہتر ہے؟

سائنس میں جدت کے باعث دل اور پھیپھڑوں کی سرجریز اب بڑے کٹ یا پسلیوں کو پھیلا کر نہیں بلکہ دو انچ کے ایک چھوٹے سے کٹ (UniVATS) کی مدد سے کی جاتی ہیں۔ روایتی طریقہ علاج میں مریض کو تکلیف زیادہ ہوتی تھی، انفیکشن کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا تھا اور صحت یابی کا عمل سست ہوتا تھا۔ اس کے برعکس زخم چھوٹا ہونے کے باعث مریض کو درد کم ہوتا ہے، انفیکشن کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے اور صحت یابی کا عمل بھی تیز ہوتا ہے۔ نتیجتاً مریض ایک سے دو دن میں ہسپتال سے فارغ ہو جاتا ہے۔

وہ آپریشن کے اگلے ہی دن کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے، سانس کی ورزش کر رہا ہوتا ہے اور جلد ہی چلنا پھرنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ زیادہ دیر لیٹنے کی وجہ سے خون کی نالیوں میں لوتھڑے بننے کی پیچیدگی سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ آپریشن کے اگلے یا دوسرے ہفتے وہ اپنی نارمل روٹین شروع کر دیتا ہے۔ یہ طریقہ کار بزرگوں، دل یا ذیابیطس کے مریضوں اور موٹاپے کے شکار افراد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ روایتی سرجری ان کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ جو مریض روایتی سرجری کروا سکتے ہوں انہیں بھی یہی تجویز کیا جا رہا ہے۔

اس سرجری میں آپریشن سے پہلے اور بعد میں کیا احتیاطیں کرنی چاہیئیں؟

پھیپھڑوں کی اس سرجری میں ہم مریض کو کہتے ہیں کہ تمباکو نوشی بالکل ترک کر دے۔ مختلف تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اگر مریض آپریشن سے دو ماہ پہلے سگریٹ چھوڑ دے تو آپریشن کے بعد نمونیا یا سینے کے انفیکشن سے بچاؤ اور جلد صحت یابی کا امکان 80 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

اگر کسی مریض کا وزن بڑھا ہوا ہے تو ہم اسے وزن کم کرنے اور بلڈ پریشر/ شوگر کے مریضوں کو اسے کنٹرول کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔آپریشن کے بعد مریضوں کو اگلے ہی دن چلنا پھرنا شروع کروا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بحالی صحت کا سٹاف انہیں کچھ ورزشیں کرواتا ہے اور سیڑھیاں بھی چڑھواتا ہے تاکہ وہ جلد صحت یاب ہو سکیں۔

دل کے مریضوں کے لیے سوڈیم اچھا نہیں ہے۔ پوٹاشیم سالٹ بلڈپریشر تو نہیں بڑھاتا لیکن اس کا زیادہ استعمال گردوں کو خراب کرتا ہے

دل کے کون کون سے ٹیسٹ ہیں اور کب کیے جاتے ہیں؟

دل کی عام بیماریوں میں سانس پھولنا، سینے میں درد اور بلڈ پریشر قابو میں نہ رہنا شامل ہیں۔ جن مریضوں کا بلڈ بریشر کنٹرول میں نہیں رہتا، ان کے لیے گردوں کی نالیوں کا ٹیسٹ، ہارمونز کے ٹیسٹ، دل کا ایکو کارڈیوگرام اور آنکھوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ سینے میں درد کے مریض کے لیے ایکو اور ای ٹی ٹی (Exercise Tolerance Test) کیے جاتے ہیں۔ تاہم ان ٹیسٹوں کے درست ہونے کی شرح 70 فیصد تک ہے۔ دل کے مرض کا خطرہ اگر زیادہ ہو اور مسئلے کی تصدیق ضروری ہو تو پھر درد کی شدت اور باقی علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے سی ٹی انجیوگرافی کرتے ہیں۔

 چھوٹی عمر میں امراض قلب کی وجہ ورزش کی کمی ہے؟

اکثر صورتوں میں ہم واک کی عادت اس وقت ڈالتے ہیں جب ہمیں ہارٹ اٹیک، ہائی بلڈ پریشر یا شوگر ہو چکی ہو۔ حالانکہ اس کی عادت دو یا پانچ سال کی عمر سے ڈال لینی چاہیے۔ جب کھیل کا وقت ہوتا ہے تو ہم بچوں کو ویڈیو گیمز یا ٹیبلٹ دے کر بٹھا دیتے ہیں۔ ہم نہ تو خود گھر سے نکلنا چاہتے ہیں اور نہ ہی بچوں کو نکالتے ہیں۔ جب بچے متحرک نہیں رہتے تو موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں جو دوسری بیماریوں کی طرح دل کے امراض کا باعث بھی بنتا ہے۔

دل کی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

امراض قلب کے علاوہ خطرناک بیماریوں میں ہائی بلڈپریشر، شوگر اور فالج بھی شامل ہیں۔ ان سب کی وجوہات میں خوراک ضرورت سے زیادہ، مرغن اور فاسٹ فوڈ کی صورت میں کھانا اور ورزش کم کرنا ہے۔ پراٹھا، فاسٹ فوڈ اور پیزا ضرور کھائیے لیکن اعتدال کے ساتھ اور پھر واک کی عادت بھی ڈالیں۔ ایک سنہری اصول اپنا لیں کہ جتنا کھاتے ہیں اسے متحرک رہ کر جلانا بھی ہے۔ ایسا کریں گے تو آپ دل کے امراض کے علاوہ دیگر بڑی بیماریوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ سادہ غذا کھائیں اور روزانہ 30 منٹ تک ایسی ورزش کریں جس سے پسینہ آئے اور دل کی دھڑکن تیز ہو جائے۔ اس کے لیے کارڈیو ورزشیں یا سائیکلنگ کی جا سکتی ہے۔

دل کے مریض خصوصاً خواتین اور بزرگوں کے لیے کون سی ورزش بہتر ہے؟

دل کے مریضوں کے لیے ورزش کی شدت یا اس کی قسم نہیں بلکہ اس کا دورانیہ اور باقاعدگی اہم ہیں۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ہر شخص کے لیے روزانہ 10000 قدم لینا ضروری ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ روزانہ 7000 تک بھی قدم لے رہے ہیں تو یہ صحت مند دل کی نشانی ہے۔ اگر ان کی تعداد 2500 قدم سے کم ہے تو آپ کو دل کے دورے کا خطرہ دوسروں سے زیادہ ہے۔

روزانہ 7000 تک قدم لینا صحت مند دل کی نشانی ہے۔ یہ 2500 سے کم ہوں تو آپ کو دل کے دورے کا خطرہ دوسروں سے زیادہ ہے

دل کی صحت کے لیے مفید غذائیں کون سی ہیں؟

ان میں ہرے پتوں والی سبزیاں، مرغی، مچھلی اور مکمل انڈا (ہفتے میں ایک یا دو دفعہ کھانا) شامل ہیں۔ گھی، بڑا یا چھوٹا گوشت اور یخنی جو صرف چکنائی پر مشتمل ہوتی ہے، دل کے مریضوں کے لیے اچھی نہیں۔ اگر بہت دل چاہے تو اپنی مرضی کا مرغی یا مچھلی کا ایک پیس کھا لیں لیکن روزانہ نہیں ورنہ آپ کا کولیسٹرول لیول بڑھ جائے گا۔

کیا دل کے مریضوں کے لیے تمام نمک مضر صحت ہیں؟

دل کے مریضوں کے لیے سوڈیم اچھا نہیں ہے۔ پوٹاشیم سالٹ بلڈ پریشر تو نہیں بڑھاتا لیکن اس کا زیادہ استعمال گردوں کو خراب کرتا ہے۔ جسم میں پوٹاشیم کی سطح بڑھنے سے دل میں اختلاج قلب (palpitation) بھی ہونے لگتا ہے۔ عام نمک ہی استعمال کریں لیکن اس کی مقدار کم سے کم رکھیں۔ اس کے علاوہ زیتون کے تیل کا استعمال بھی مفید ہے۔  کسی بھی کوکنگ آئل میں کھانا پکائیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ سالن پر تری موجود نہ ہو۔

ہائی بلڈپریشر کے مریض اور جن افراد کے دل کا پٹھہ کمزور ہے وہ نمک کم سے کم استعمال کریں۔ آٹے، چاول، سلاد اور پھلوں پر نمک چھڑک کر بالکل نہ کھائیں۔ صرف سالن میں نمک ڈالیں۔ اگر طلب ہو تو کالی مرچ اور لیموں کا استعمال بھی کریں۔ اس سے ذائقہ بہتر ہوگا اور نمک کی کمی بھی محسوس نہیں ہوگی۔

ہاتھوں اور چہرے پر ذہنی تناؤ کے باعث پسینہ زیادہ آتا ہو تو اس کا علاج کیا ہے؟

کچھ بچوں یا بچیوں کو اچانک پیش آنے والی صورتحال، امتحان یا انٹرویو کے وقت خوف کی وجہ سے ہاتھوں، سینے، بغلوں یا جسم کے دوسرے حصوں میں خاص حد سے زیادہ پسینہ آتا ہے۔ اسے ہائپر ہائیڈروسس کہتے ہیں۔ یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ ایک کیفیت ہے۔ ابتدا میں اس کا علاج اینٹی اینگزائٹی ادویات، پرسکون کرنے والی ورزشوں اور کونسلنگ سے کیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ مستقل ہو تو بغل میں دو سنٹی میٹر کٹ لگایا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے سینے میں موجود ان اعصاب کا دماغ سے رابطہ توڑا جاتا ہے جو ذہنی تناؤ کی صورت میں پسینے کے ہارمونز کو متحرک کرتے ہیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

حمل سے متعلق کچھ اہم سوالات

Read Next

بغیر درد کے زچگی

Leave a Reply

Most Popular