Vinkmag ad

ماضی اورحال میں بڑھاپا روکنے کی کوششیں

ماضی اورحال میں بڑھاپا روکنے کی کوششیں

بزرگی کے اثرات کو چھپا کرجوان نظرآنے کی خواہش آج کے دورکا ہی خاصا نہیں بلکہ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ماضی قریب اوربعید میں اس کے لئے مختلف علاج اورٹوٹکے استعمال کیےجاتے رہے۔ ان میں سے بعض مؤثرثابت ہوئے جبکہ کچھ قبل ازقت بڑھاپےاوردیگر پیچیدگیوں کا بھی سبب بنے۔ یہ طریقے جسم کے ان حصوں پراستعمال کیے جاتے جہاں بڑھاپے کی ابتدائی علامات ظاہرہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ماضی سے لے کراب تک کی کاوشوں کا خلاصہ یہ ہے۔

جڑی بوٹیاں، یوگا اورمراقبہ

آثارِ قدیمہ سے ملنے والے شواہد کے مطابق قدیم اہل مصربڑھاپے کے اثرات کو روکنے کے لئے جڑی بوٹیوں سے بنی اشیاء‘ خصوصاً زیتون کے پتے استعمال کرتے تھے۔ برصغیرپاک وہند کے اطباء اوروید حکیموں نے جڑی بوٹیوں کی مدد سے بنی اشیاء، یوگا اورمراقبے پرزوردیا۔ انہوں نے کوشش کی کہ کوئی ایسی چیزوجود میں لائی جا سکے جس سے چہرے کی جھریاں ہمیشہ کے لیے صاف ہوجائیں لیکن وہ ناکام رہے۔


جانوروں کے اعضا کا استعمال

امریکہ سے تعلق رکھنے والے دوسائنسدانوں نے 1889 میں پالتو چوہوں اورکتوں پرتجربات کیے۔ انہوں نے ان جانوروں کے خصیوں کا عرق نکال کراپنی جلد کے اندر انجیکشن کی صورت میں لگایا۔ اس تجربے کے بعد ان کی جلد قدرے صاف ہو گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنی عمرسے پورے 30 سال کم نظرآتے ہیں۔ ان تجربات سے متاثرہوکرایک روسی سائنسدان نے 1920 میں ہمیشہ جوان نظرآنے کے لیے بندروں کے خصیوں کی انسانوں میں پیوندکاری کی کوشش بھی کی۔


بیسویں صدی کی تحقیقات

 امریکن ایجنگ ایسوسی ایشن 1970 میں بنائی گئی۔ اس کا مقصد ڈھلتی عمرکے اثرات کو کم کرنے کے لیے تحقیق کرنا اوراس تحقیق سے وابستہ افراد سے رابطہ رکھنا تھا۔ 1976 میں جوئیل کڈزمین اورفلپ گارڈن نامی دو سائنسدانوں نے مل کرایک کتاب (No more dying) لکھی۔ یہ اس موضوع پر مقبول ہونے والی پہلی کتاب تھی۔1980 میں سائول کینٹ نامی ایک شخص نےبھی ایک کتاب (Life extension revolution) لکھی جس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑدئیے۔ 1988 میں ویل فورڈ نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ کم کیلوریزوالی خوراک کھانے سے ڈھلتی عمرکے اثرات کم ہوسکتے ہیں۔ انہیں اپنی تحقیق کے مصدقہ ہونے کا اتنا یقین تھا کہ اس کا تجربہ سب سے پہلے اپنی ذات پرکیا۔ تاہم یہ خود اعتمادی انہیں راس نہ آئی اوروہ 80  سال کی عمرمیں کم خوراکی کے سبب ہونے والی ایک پیچیدہ بیماری کی وجہ سے فوت ہو گئے۔ بڑھاپے کے اثرات دورکرنے کے لئے سائنسی تحقیقات کو فروغ دینے کی غرض سے 1992میں امریکن اکیڈمی آف اینٹی ایجنگ قائم کی گئی۔ ان تنظیموں نے اس حوالے سے سائنسی پیش رفتوں میں اہم کردارادا کیا۔


میڈیسن میں جدید پیش رفتیں

موجودہ دور میں جھریوں کے خاتمے کے لیے غذا، ورزش، ہارمون تھیراپیز، ملٹی وٹامنزاورمختلف کریموں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ٹشوانجینئرنگ سے انسانی جلد کی پرانی بافتوں (ٹشوز) کو ختم کرکے نئے ٹشوزکو بنانے کا کام بھی جاری ہے۔ اس سلسلے میں جینیاتی انجینئرنگ اوردوا سازی سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک مقبول نام بوٹاکس بھی ہے۔ یہ لاطینی زبان کے لفظ بوٹلس (botulas)سے نکلا ہے جس کے لفظی معنی ساسیج یعنی گوشت کا قیمہ ہیں۔

انیسویں صدی کے آغاز میں کینیڈا کے آنکھوں کے ایک ڈاکٹر نےبتایا کہ یہ چہرے کے پٹھوں کوریلیکس کرکے جھریاں دورکرنے میں مفید ثابت ہوتا ہے ۔ 1992 میں مزید دو ڈاکٹروں نے ایک مقا لے میں اس کی تصدیق کی۔ پھر 2002 میں سرکاری طورپراس کے استعمال کی اجازت دی گئ ۔ آج بوٹاکس کاسمیٹک سرجری کا ایک اہم حصّہ ہے۔ اس عمل میں ایک سرنج کے ذریعے دوا کوجلد کے نیچے جھریوں کی جگہ داخل کیا جاتا ہے۔ پھرمتعلقہ حصے پرجلد کا ڈھیلا پن دورہوجاتا ہے۔ وہ تروتازہ اورجوان دکھائی دینے لگتی ہے۔

چہرے کی خوبصورتی بڑھانے یا بڑھاپےکے اثرات روکنے کے لئے بغیرسوچے سمجھے فیصلہ لینا اورطرح طرح کے ٹوٹکے آزمانا درست نہیں۔ یہ بعض اوقات جلد کو اتنا نقصان پہنچا دیتے ہیں کہ اسے ٹھیک کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس سلسلے میں کسی مستند ماہرامراض جلد سے رابطہ کریں تاکہ وہ مناسب آپشن تجویز کرسکے۔

anti-ageing treatments, burhapa roknay k tareekay

Vinkmag ad

Read Previous

بزرگوں کے لئے 15 مشاغل

Read Next

ناک کیوں بہتی ہے؟

Leave a Reply

Most Popular