Vinkmag ad

چھوٹے بچے ‘ بڑے مسائل

چھوٹے بچے ‘ بڑے مسائل

بچوں کی دیکھ بھال بہت نازک معاملہ ہے۔ اس میں ذرا سی بے احتیاطی اورلاپروائی انہیں جسمانی اور ذہنی صحت کے متعدد مسائل سے دوچار کرسکتی ہے ۔ یہ مسائل کون سے ہیں ،ان کا حل کیا ہے اور ماؤں کو اس دوران بچوں کا خیال کیسے رکھنا چاہیے، جانئے شفا انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد کے ماہرامراض بچگان ڈاکٹرشاہد نذیر کے انٹرویو میں

سردیاں میں بچوں کو صحت کے کن مسائل کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے؟

سردیوں میں بچوں کوبخاراورنزلہ زکام کی شکایت زیادہ ہوتی ہے۔ سکول میں چونکہ بچوں کا ہجوم ہوتا ہے لہٰذا وہاں اس کا وائرس پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ بچہ وہاں سے وائرس لے کر گھرآتا ہے تو دیگراہل خانہ بھی اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ سردیوں میں بچوں کو متاثر کرنے والا دوسرا بڑا مسئلہ نمونیا ہے۔ اس کے علاوہ سانس کی نالی میں انفیکشن بھی عام ہے۔

ان مسائل سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟

والدین کو چاہئے کہ بچے کو باہربھیجنے سے قبل اچھی طرح ڈھانپیں، ٹھنڈ سے بچائیں اورہجوم والی جگہوں پرغیرضروری طورپرنہ جانے دیں ۔علاوہ ازیں بچوں کو چاہئے کہ صفائی کا خاص خیال رکھیں اورخاص طورپرہاتھ دھونے کی عادت اپنائیں۔ ایک اوراہم بات یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد اچھی صحت کے غذائی پہلوکو مناسب اہمیت نہیں دیتی۔ اکثروالدین کوعلم ہی نہیں ہوتا کہ بچے کوکیا کھلانا پلانا ہے اور کس چیزسے دوررکھنا ہے۔ انہیں چاہئے کہ اس سے آگاہی حاصل کریں اوربچوں کی غذائی ضروریات کا دھیان رکھیں تاکہ وہ صحت مند ہوں۔والدین کا ایک اورغیرصحت مندانہ رویہ یہ ہے کہ وہ نزلہ زکام شروع ہوتے ہی بغیر ڈاکٹری مشورے کے بچوں کواینٹی بائیوٹکس دے دیتے ہیں۔ ایسا مت کریں اورآغاز میں انہیں گھرپررکھیں‘ آرام کروائیں اورپانی زیادہ پلائیں۔ ان علامات کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں جو بچے کے لیے خطرناک ہوسکتی ہیں۔ اس بارے میں معالج سے رابطہ کریں تاکہ وہ انہیں ان سے آگاہ کرسکے۔

پیڈزکے شعبے میں کس عمرتک کے بچوں کا علاج کیا جاتا ہے؟

عام طورپرہم نوزائیدہ بچوں سے لے کر 16 سال کی عمرکے بچوں کو دیکھتے ہیں۔

وہ کون سی علامات ہیں جن پرماؤں کو فکرمند ہونا چاہئے؟

 اگربچہ کھانا نہیں کھاتا یا دودھ نہیں پیتا تو ماں کوفکرمند ہونا چاہئے۔ مزید برآں اگربچہ ٹھیک طرح سے سانس نہیں لے رہا یا اس کا سانس پھولا ہوا محسوس ہو تورہا ہے تو ٹوٹکوں میں وقت ضائع نہ کریں۔ بروقت ڈاکٹر کے پا س جائیں تاکہ پیچیدگیوں سے بچا جائے۔

قولنج کا درد کیا ہے اورکیوں ہوتا ہے؟

چھ ہفتے سے لے کرتین ماہ تک کی عمر کے بچوں کو پیٹ میں درد ہوتا ہے جسے قولنج کہا جاتا ہے۔ اس درد کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ بچے کو فارمولا ملک یا گائے کا دودھ راس نہ آ رہا ہو۔اگربچے کو زیادہ دودھ پلایا گیا ہوجو ہضم نہ ہو پا رہا ہوتو بھی پیٹ میں درد ہو سکتا ہے۔ اس درد کی صورت میں بچہ ہفتے میں اوسطاً تین دن تک تین گھنٹے روتا ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ ختم ہو جاتا ہے۔ایسے میں والدین پریشان ہوجاتے ہیں لیکن ان کا پریشان ہونا بچے کی تکلیف کوکم نہیں کرسکتا۔ اس لئے صبرکریں اورڈاکٹر کی ہدایت کے بغیرکوئی دوا نہ دیں۔ کچھ لوگ مساج اور ہلکی مالش کرتے ہیں جو کسی حد تک فائدہ دیتے ہیں۔ مالش ہمیشہ ہلکے ہاتھوں سے کریں کیونکہ بچے کی جلد بہت حساس ہوتی ہے۔

بچوں کا قد کس عمر تک بڑھ سکتا ہے؟

بچوں کے قد کا سب سے زیادہ تعلق والدین کے قد سے ہوتا ہے۔ اس لئے یہ جاننے کے لئے کہ ان کا قد معمول سے چھوٹا ہے یا نہیں‘ ماں اور باپ دنوں کے قد کو دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے پاس گروتھ چاٹ ہوتے ہیں جن کی مدد سے بچے کی نشووونما کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کس عمرتک قد بڑھ سکتا ہے‘ تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی متعین عمر نہیں ہے. کچھ بچوں کا قد 16 سال کی عمرکے بعد نہیں بڑھتا اورکچھ کا 19 سال تک بڑھتا رہتا ہے۔

قد نہ بڑھنے کی کیا وجوہات ہیں؟

بچوں کے قد نہ بڑھنے کی ایک وجہ غذائیت کی کمی ہے۔ آج کل کے بچے جنک فوڈ زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ ایسی غذائیں ہیں جن میں کیلوریز توزیادہ ہوتی ہیں لیکن غذائیت کم ہوتی ہے۔ ایسی خوراک زیادہ کھانے سے ان کے جسم کو مطلوبہ غذائیت نہیں مل پاتی۔ دوسری طرف کچھ بچوں کو خوراک ملتی ہی کم ہے۔ اگربچے کوصحت بخش خوراک زیادہ عرصے تک نہ مل پائے تواس کا اثراس کی نشووونما پربھی پڑتا ہے اوراس کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔

والدین بچوں کو دانت صاف کرنے کی عادت کیسے ڈالیں؟

دانتوں کی صفائی کا آغازپہلا دانت نکلنے کے بعد سے ہی کردینا چاہئے۔ ماں گیلے کپڑے سے آہستہ آہستہ اس کا اکلوتا دانت صاف کرے۔ ایسا کرنے سے بچے کو شروع سے ہی دانت صاف کرنے کی عادت پڑے گی۔ پھربڑا ہونے پر وہ خود انہیں صاف کرنے کی کوشش کرے گا۔ جو والدین بچوں کے دانت چھوٹی عمرمیں صاف نہیں کرواتے‘ ان کے بچے یہ عادت نہیں اپناتے۔ اس کے علاوہ تھوڑا بڑے ہونے پروہ والدین کو تنگ بہت کرتے ہیں۔ اس لئے والدین شروع سے ہی اس معاملے کوسنجیدہ لیں اوربچے سے پوچھیں کہ اس نے دانت صاف کئے ہیں یا نہیں اورنہ کرنے پراپنی نگرانی میں دانت صاف کروائیں۔ اسے بتائیں کہ رات کو سونے سے پہلے دانتوں کی صفائی کے بعد ہی وہ بیڈ پرجا سکتا ہے۔ ان باتوں پرعمل کرنے سے بچوں میں اس عادت کو ڈالنا آسان ہو گا۔

اگر بچے کے کان میں درد ہوتو کیا کرنا چاہئے؟

کان کا درد عموماً اس کے درمیانی حصے میں ہوتا ہے جس کا سبب کان کے پردے کے پیچھے کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے۔ لوگ اس سے نجات کے لیے لہسن یا تیل استعمال کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے وقتی طورپرفائدہ ہوجائے لیکن اس کا سبب اگرکان میں انفیکشن ہے تو پھر یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ معالج کے پاس جائیں اوریہ اس کا کام ہے کہ وہ بیماری کو پکڑے اوربچے کو درد سے نجات دلائے۔

والدین کے کون سے اقدامات بچوں کی صحت کو منفی طورپرمتاثر کرتے ہیں؟

پہلی دفعہ والدین بننے والوں کو بچے سنبھالنے کا تجربہ نہیں ہوتا۔اس لیے میں ان سے کہتاہوں وہ ایک کتاب’’ First year of your baby’s life ‘‘ ضرور پڑھیں۔ اس کے ذریعے وہ بہت سی اہم باتوں سے آگاہ ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ آپ کے میگزین میں بھی اس حوالے سے اچھی معلومات شائع ہوتی ہیں۔

بچے کی دیکھ بھال کیسے کرنی ہے، بچہ گردن کب سنبھالے گا اوروہ بیٹھے گا کب؟ یہ سوالات ہروالدین کے ذہن میں آتے ہیں۔ جب تک ماں کو یہ باتیں معلوم نہیں ہوں گی‘ تب تک وہ بچے کا خیال نہیں رکھ پائے گی۔ بعض مائیں بچے کو زیادہ کپڑے پہنا دیتی ہیں جس کے اپنے مسائل ہیں۔ دوسری طرف کم کپڑے پہنانے کی صورت میں وہ بیمارہوسکتے ہیں۔ اس لیے موسم کے مطابق بچوں کے کپڑوں کا انتخاب کریں۔ اس کے علاوہ  گھر کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔ بچوں کواپنا دودھ پلائیں اورجنک فوڈ سے پرہیزکرائیں۔ ایک اوراہم بات یہ ہے کہ 80 فی صد بیماریاں مناسب طریقے سے ہاتھ دھونے سے روکی جا سکتی ہیں۔ اس لئے والدین اپنے بچوں کو صحیح طریقے سے ہاتھ دھونا سکھائیں۔ اس کے علاوہ خود علاجی سے بچیں۔

ہمارے ہاں بچوں پرتشدد کے واقعات بہت عام ہیں۔ اس کے ان کی ذہنی اورجسمانی صحت پرکیا اثرات ہوتے ہیں؟

یہ ہمارے معاشرے کا بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا اثربچے کی پوری زندگی پرپڑتا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ صورتحال کو ٹھیک کون کرے گا۔ میری نظر میں پہلی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے قوانین بنائے جائیں اورجوقوانین موجود ہیں‘ ان پر مٔوثرانداز میں عملدرآمد کرایا جائے تاکہ سزا کے خوف سے ایسے واقعات ختم ہوں۔ امریکہ میں بچوں کو مارنے پرپولیس دروازے پرہوتی ہے اورپوچھتی ہے کہ اس بچے کو کس سلسلے میں مارا گیا ہے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ اسے سنجیدہ لیں‘ اس لئے کہ اس سے بچوں کی ذہنی صحت ختم ہو کررہ جاتی ہے اوربڑے ہونے پرعملی زندگی میں وہ بھی ایسے ہی بن جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اولاد کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کو بھی بحال رکھ سکیں۔ آج کل کے والدین کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے بچوں کے مسائل سنیں،ان سے باتیں کریں اوران کے حل تلاش کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بچہ خود ہی سب کچھ سیکھ جائے لیکن ایسا ممکن نہیں۔ ان سے توجہ اورپیارکا برتاؤ کریں تاکہ وہ مثبت رویے سیکھیں۔ آپ بچے کو مارکراچھا انسان نہیں بنا سکتے۔ مارکھا کر وہ مارے گا، بگڑے گا اوربدتمیزہوگا۔ بچے پردیرپا مثبت اثرپیارکی زبان کا ہوتا ہے۔ اسے پیارسے بتائیں‘ وہ آپ کی بات مانے گا۔

آج کل بچوں میں بھی سگریٹ نوشی کا رحجان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کے مضرصحت اثرات کیا ہیں؟

جن گھروں میں سگریٹ نوشی کی جاتی ہے وہاں بالعموم بچے بھی بڑوں کی دیکھا دیکھی سگریٹ پینا شروع کرتے ہیں۔ کچھ بچے اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنے کے لئے سگریٹ پیتے ہیں۔ زیادہ ترلوگوں اورخصوصاً نوجوانوں کو اس کی لَت دوستوں کی وجہ سے پڑتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے اس کے نقصانات سے متعلق آگاہی فراہم کرنی چاہئے۔ والدین اس حوالے سے محتاط رہیں اورنظررکھیں کہ بچے کے دوستوں میں اس کی عادت تونہیں اوروہ کہیں چھپ چھپ کر سگریٹ تو نہیں پیتا۔ ہمیں ایسی پابندیاں لگانی چاہئیں جولوگوں کوسگریٹ پینے سے روکیں۔ مثلاً   عمارت کے اندرسگریٹ کو ممنوع قرار دیں کیونکہ دوسرے اس سے متاثرہوسکتے ہیں۔ لوگوں سے کہوں گا کہ سگریٹ نوشی سے پرہیزکریں‘ جو پی رہے ہوں‘ ان کے دھوئیں سے دوررہیں اورباقاعدہ ورزش کریں تاکہ آپ کے پھیپھڑے صحت مند رہیں۔سگریٹ نوشی کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ سگریٹ پی توکوئی اوررہا ہے لیکن اس کا دھواں آپ کو بھی متاثرکرتا ہے۔ اسے سیکنڈ ہینڈ سموکنگ کہا جاتا ہے۔

بچے کو صحت بخش چیزیں کھانے کے لئے کیسے قائل کریں؟

صحت بخش کھانا نہ کھانے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے پہلی یہ ہے کہ مائیں شروع سے ہی بچوں کوکھانے پینے کی صحیح عادات نہیں ڈالتیں۔ وہ کھلانے کے لئے بچے کے پیچھے بھاگتی ہیں۔ گھرکا کھانا دینے کے بجائے بچوں کو پیسے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ سکول سے کچھ خرید کرکھا لیں۔ اب ضروری نہیں کہ وہ کھانا صحت بخش ہو۔ میڈیا اورسکول بھی اس معاملے میں اپنا کردارادا کرتے ہیں۔ سکولوں کی کینٹینوں پرغیرصحت بخش کھانے پینے کی اشیاء مہیا کی جاتی ہیں۔ اسی طرح باہرجا کرکھانا ایک نیا رواج بن گیا ہے۔ یہ سب عادات غلط ہیں۔  پیدائش کے بعد بچے کو نہیں پتا ہوتا کہ اس نے کیا کھانا ہے، کیا نہیں کھانا۔ والدین ہی اسے اچھی یا بری عادات ڈالتے ہیں۔ مائیں ایسا ماحول رکھیں کہ بچے سبزیاں، دالیں، گوشت اور پھل سب کھائیں۔

 بچوں کو صحت مند رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہئے؟

اس کا سادہ سا اصول یہ ہے کہ ان کی خوراک کا خاص خیال رکھیں اورانہیں موبائل فون سے ہر ممکن حد تک دوررکھیں۔ آج کل چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں فون ہوتا ہے جوان کے لیے نقصان دہ چیزہے۔ والدین کو چاہئے کہ ان کے ساتھ وقت گزاریں اورانہیں فونزکے حوالے مت کریں۔ اگر کسی بچے کو کھانسی یا نزلہ زکام ہو تو اسے گھررکھیں تاکہ باقی بچوں میں جراثیم نہ پھیلیں۔ چھوٹے بچوں کے مسائل کوہلکا مت لیں ۔ گھریلوٹوٹکوں پرزیادہ انحصار کرنے کے بجائے معالج سے بروقت رابطہ کریں جو آپ اور آپ کے بچے کو پریشانیوں سے بچا سکتا ہے۔علاوہ ازیں مائیں اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں، جنک فوڈ کے بجائے گھر کے بنے کھانے کھائیں اوراپنے بچوں کو صحت بخش غذا کھانے کی عادت ڈالیں۔

common health issues of children in winters, how to keep your child healthy, how to reduce colic pain, tips to develop teeth brushing habit 

Vinkmag ad

Read Previous

Dryness dryness, every where

Read Next

کان کے درد سےچھٹکارا پانے کے طریقے

Leave a Reply

Most Popular