Vinkmag ad

کینسر اتنی خطرناک بیماری کیوں ہے

کینسر یا سرطان دنیا بھر میں اموات کا دوسرا بڑا سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مرض خوف کی علامت بن گیا ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب اس کے لاعلاج ہونے کا تاثر بھی ہے۔ یہ تاثر درست نہیں کیونکہ علاج کے جدید طریقوں کی بدولت اب مریض کی شفایابی کے امکانات خاصے بڑھ گئے ہیں۔

شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے کینسر رجسٹری ڈیٹا کے مطابق اس ہسپتال میں علاج کروانے والوں میں تین ماہ کے بچے سے لے کر 100 سال کے بزرگ تک شامل ہیں۔ کینسر کے علاج میں بروقت تشخیص اہم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو اس کی ابتدائی علامات سے آگاہ کیا جائے اور کینسر سکریننگ پروگرام شروع کیے جائیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں آگہی اور جلد تشخیصی مہمات کی بدولت مریضوں کی مکمل شفایابی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی وجہ سے مرض زیادہ تر پہلی یا دوسری سٹیج میں تشخیص ہو جاتا ہے۔ اس سے علاج آسان ہوتا ہے اور مریض بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

کینسر کیوں اور کیسے ہوتا ہے

اس کی بنیادی اور حتمی وجہ کا ابھی تک تعین نہیں ہو سکا۔ کینسر میں انسانی خلیوں کے ڈی این اے میں کچھ ایسی تبدیلی آ جاتی ہے جس کے باعث وہ بے قابو ہو کر بڑھنے لگتے ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک غالب جین (anti oncogene) خلیے کی تقسیم اور نقل کے دوران اسے منظم کرتا ہے۔ جب مختلف وجوہات کی بنا پر اس میں تبدیلی آتی ہے تو اس کے کام کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس سے خلیہ بے قابو ہو کر بڑھتا ہے جس کا نتیجہ کینسر کی شکل میں ہو سکتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ سامنے آئی ہے کہ ہمارے اردگرد کچھ ایسی چیزیں ہیں جو کینسر پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً سگریٹ کا دھواں پھیپھڑوں اور مثانے کا کینسر، شراب معدے اور جگر کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ سورج کی شعاعیں جلد کا کینسر اور ہیپاٹائٹس بی اور سی جگر کا کینسر پیدا کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔

کینسر کا باعث بننے والے مادوں کو کارسینوجنز (carcinogens) کہتے ہیں۔ ان میں اوپر ذکر کردہ عوامل کے علاوہ بھی کئی چیزیں شامل ہیں۔

کینسر خطرناک کیوں ہے

ایک اوسط عمر اور جسامت کے حامل شخص کے جسم میں اندازاً ایک کھرب خلیے ہوتے ہیں۔ ان کی 200 سے زائد اقسام ہیں جو مختلف افعال انجام دیتی ہیں۔ ایک خاص نظام کے تحت نئے خلیے بنتے اور پرانے مرتے ہیں۔

یہ پورا نظام ایک مربوط طریقے سے چلتا رہتا ہے۔ تاہم بعض اوقات ایک خلیے میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ پھر وہ عام خلیے جیسا نہیں رہتا اور مرتا بھی نہیں۔ نتجتاً یہ خلیے کنٹرول میں نہیں رہتے اور تیزی سے نشوونما پاتے ہیں۔

یوں بنیادی طور پر ایک خلیہ کینسر زدہ ہوتا ہے اور پھر ایسے بہت سے خلیے مل کر رسولی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ خلیے نشوونما پا کر صحت مند اور فعال خلیوں کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔ یوں رسولی بڑھنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ عضو کام کے قابل نہیں رہتا۔

سرطان زدہ رسولی اردگرد کے اعضاء پر حملہ کر کے انہیں بھی ناکارہ کر دیتی اور نئی سرطان زدہ رسولیاں پیدا کر دیتی ہے۔ مثلاً معدے میں کینسر ہو تو جگر اور اس کے ساتھ موجود دیگر حصوں میں بھی اس کے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی ایک خطرناک صورت حال تب سامنے آتی ہے جب یہ خلیے خون یا لمفی نظام کے ذریعے دوسرے اعضاء میں پہنچ کر نیا کینسر پیدا کرتے ہیں۔ اسے ثانوی یا میٹاسٹیسز (Metastasis)  کہتے ہیں۔

دنیا بھر میں 60 فی صد سے زائد کینسرز کی تشخیص تب ہوتی ہے جب وہ دیگر حصوں میں منتقل ہو چکا ہوتا ہے۔ اس وقت اسے کنٹرول کرنے میں شدید مشکلات ہوتی ہیں۔ بعض اوقات اس کا علاج ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔

ہر کینسر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اس کی کچھ اقسام انتہائی خطرناک ہیں۔ ان میں زندگی بچنے کی امید ذرا کم ہوتی ہے جبکہ بعض کا بروقت علاج ہو جائے تو مرض سالوں تک زندگی کے لیے خطرہ نہیں بنتا۔ اس لیے پریشان اور نا امید نہیں ہونا چاہیے۔

ہر رسولی سرطان زدہ نہیں

جسم میں نمودار ہونے والی ساری رسولیاں سرطان زدہ (malignant) نہیں ہوتیں۔  بہت سی سادہ (benign) بھی ہوتی ہیں۔ یہ عموماً آہستہ آہستہ بڑھتی ہیں اور اکثر اوقات جسم کے ایک ہی حصے تک محدود رہتی ہیں۔ تاہم یہ بھی کسی موقع پر کینسر میں تبدیل ہوسکتی ہیں لہٰذا ان پر نظر رکھنی چاہیے۔ بہتر ہے کہ انہیں ڈاکٹر سے چیک کرائیں۔ وہ بائیوپسی کے ذریعے معلوم کرے گا کہ وہ سادہ ہیں یا سرطان زدہ۔ سادہ رسولی کو بھی ابتدائی مرحلے میں نکال لینا بہتر ہوتا ہے۔

کینسر کی علامات

کینسر کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ سرطان زدہ خلئے انسان کے اپنے جسم کا حصہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ ان کے خلاف ابتداء میں کوئی ایسا ردعمل نہیں دیتا جس سے بیماری پھیلنے کا پتا چل سکے۔

اکثر رسولیوں میں ابتداء میں عام طور پر درد بھی نہیں ہوتا۔ یوں اس مرحلے میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔ جب علامات ظاہر ہوں تو اکثر اوقات انہیں ابتدا میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یوں کینسر کی جو رسولی ابتدا میں آسانی کے ساتھ نکالی جا سکتی تھی اب بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ بعض اوقات کسی اور حصے میں بھی منتقل ہو جاتی ہے۔

مختلف اعضاء میں کینسر کی علامات ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اسی طرح کینسر میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، وہ دوسری بیماریوں میں بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر تشخیص کے عمل کو مشکل بنا دیتے ہیں۔

کینسر کی تشخیص

بہت سے ممالک میں سرکاری اور نجی سطح پر کینسر کی جلد تشخص کے لیے پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ 40 سال سے زائد عمر کے افراد کو چاہیے کہ اس کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ اور معائنے کو نظرانداز نہ کریں۔

اس سلسلے میں امریکہ میں وسیع پیمانے پر کام ہو رہا ہے جس کی بدولت وہاں کینسر کی جلد تشخیص کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ وہاں بروقت علاج کی وجہ سے بہت سے افراد کی جانیں بچانا ممکن ہوا ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اسے اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔

کینسر کے علاج کے لیے مختلف آپشنز استعمال ہوتے ہیں۔ اس کا علاج ایک طرف آسان ہے جبکہ دوسری طرف انتہائی مشکل اور بعض اوقات تو ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کینسر کی نوعیت (morphology) کیا ہے اور یہ جسم کے کس عضو میں ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ یہ وہیں تک محدود ہے یا باقی حصوں تک پھیل چکا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی سٹیج کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔

تحریر:ظفر خٹک، ٹیومر رجسٹرار، شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد 

Vinkmag ad

Read Previous

کمر درد سے نپٹنے کے آسان طریقے

Read Next

Prevent heart problems by eating simple and healthy

Leave a Reply

Most Popular