Vinkmag ad

نشے کی لت طنز نہیں مدد کیجئے

نشے کی لت طنز نہیں، مدد کیجئے

لوگوں کو اس بات میں ہمیشہ ابہام رہتا ہے کہ کون سی چیز نشہ ہے اور کون سی نشہ نہیں ہے ۔آپ بتائیے کہ یہ ہے کیا؟
آپ یوں سمجھ لیں کہ ہر وہ چیز‘ کام یا عادت جسے کرنا آپ کو اتنا لطف دے کہ آپ اس کے بغیر رہ نہ پائیں اور اگر وہ آپ کونہ ملے تو آپ کے معمولات زندگی تک متاثر ہونے لگیں‘ نشہ کہلاتی ہے۔ ماہرنفسیات نشے کی عادت کو ایک دماغی بیماری کے طور پر لیتے ہیں۔

نشے سے انسانی جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟ 
جب آپ کسی چیز کے ابتدائی استعمال کے بعد اسے باقاعدہ اور مستقل طور پر پسند کرنے لگتے ہیں تو وہ ہمارے دماغ کے ایک مخصوص حصے پر اثر انداز ہوکر اسے بیدار کر دیتی ہے۔اس بیداری کے نتیجے میں صلے کا نظام (reward system) حرکت میں آتا ہے ۔اور فرد کو خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اس نظام کے فعال ہوتے ہی دماغ میں ایک نیوروٹرانسمیٹر ڈوپامین (Dopamine) خارج ہوتا ہے جو آپ کو خوشی کا احساس دیتا ہے۔فرد اس خوشی کو حاصل کرنے کے لئے دوبارہ اسے استعمال کرتا ہے اور پھر یہ سلسلہ چل نکلتا ہے۔

یہ بتائیے کہ نشے کی لت کے کتنے مراحل ہیں؟
 اسے چار مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جب آپ کسی نشہ آور چیز کے ذریعے خوشی محسوس کرتے ہیں تو اسے دوبارہ حاصل کرنے کی طلب آپ کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اسے نشے کی لت کا پہلا مرحلہ (initial phase) کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کل ایک چیز یا سرگرمی کو صرف پسند کرتے تھے اور آج اسے نہ صرف عملی جامہ پہنا رہے ہیں بلکہ اسے دہرا بھی رہے ہیں توآپ بتدریج اس پر انحصارکرنے لگیں گے اور اس کے بغیر عجیب سی تشنگی محسوس کریںگے۔ یہ اس کا دوسرا مرحلہ ہے جسے ہم کنڈیشنگ فیز (conditioning phase) کہتے ہیں۔ تیسرے مرحلے میں آپ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ جس چیز یا کام سے آپ کو خوشی مل رہی ہے‘ وہ حقیقت میں کوئی اچھی چیز نہیں‘ اس لئے کہ اس کی عدم دستیابی کی صورت میں خاص قسم کی اداسی اور مایوسی آپ کو گھیر لیتی ہے ۔اس کیفیت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب نشے کی وجہ سے جسم میں ڈوپامین کی مقدار بڑھتی ہے تو ایک اور ہارمون کارٹیسول (cortisol) کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو مایوسی اور اداسی کا باعث بنتا ہے۔ اس مرحلے میں چونکہ اس نشے سے کسی حد تک بیزاری پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے‘ اس لئے اسے اثرکے ٹوٹنے کا مرحلہ (disenchantment phase) بھی کہا جاتا ہے۔ چوتھے اور آخری مرحلے میں آپ اس نشے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بیزاری اور ناپسندیدگی کے باوجود اس سے چھٹکارا پانا ناممکن ہوجاتاہے۔اسے تباہی کا مرحلہ (disaster phase) کہا جاتا ہے۔آپ اس راستے پر جتنا آگے چلتے جاتے ہیں‘ واپسی کا سفر اتنا ہی مشکل ہوتاجاتاہے۔ اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ جلد از جلد اس کے چکر سے نکلنے کی کوشش کریں۔

نشے کا عادی ہونے میں اوسطاً کتنا عرصہ لگتا ہے؟
اس کا تعلق اس سرگرمی یا چیز کی مقدار سے ہے ۔عموماً دوسے چھ ماہ تک اس کا مسلسل استعمال آپ کو اس کا عادی بنا دیتا ہے۔ مثلاً اگر میں نے تمباکو نوشی شروع کی ہے اور میں دن میں 8 سے10سگریٹ پی رہا ہوں تو کچھ ہی ہفتوں میں جسمانی اور نفسیاتی طور پر اس کا عادی ہو جاو¿ں گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا انحصار دو چیزوں پرہے۔ان میں سے پہلی اس کے استعمال سے حاصل شدہ خوشی کی سطح اور دوسری اس سرگرمی یا چیز کے استعمال کی مقدار۔

اگر کسی شخص کو نشہ چھوڑنے پر قائل کرنا ہوتو اس کے لئے آپ کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں؟
اس کے لئے تجویز پذیری (suggestibility) کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے جس میں ایک شخص کا ذہن دوسرے فرد کی تجاویز کو ماننے اور اس کے مطابق عمل کرنے لگتا ہے۔ ماہرین کے مطابق انسانی دماغ کے دو حصے ہیں۔ ان میں سے پہلا شعور (conscious mind) ہے جو کل دماغ کے 12فی صد حصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی کے ایک چھوٹے حصے کو تنقیدی دماغ (critical mind) کہتے ہیں۔ دوسرا حصہ لاشعور (subconscious mind) ہے جو دماغ کے88فی صد حصے پر مشتمل ہوتاہے۔ تنقیدی دماغ زندگی میں آنے والی ہر تبدیلی ‘ تجویز اوراور نصیحت پر سوال اٹھاتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ماہر نفسیات نشے کے عادی فرد کے دماغ کو ایسی کیفیت (hyper suggestible state) میں لے آتے ہیں جس میں تنقیدی دماغ اس موضوع پر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔جب آپ اسے بند کردیتے ہیں تو ماہرنفسیات کا اس کے لاشعور سے
براہ راست رابطہ قائم ہو جاتاہے جس کے بعد وہ نہ صرف موصول ہونے والے پیغام کوقبول کرلیتا ہے بلکہ اس کی ہدایات پر عمل کرنے کے لئے مثبت خیالات اور دلائل بھی فراہم کرنے لگتاہے۔ اس طرح مریض تجویز کی جانے والی تبدیلیوں پر عمل شروع کر دیتا ہے ۔

تنقیدی دماغ کو بند کیسے کیاجاتا ہے؟
تنقیدی دماغ کو’ میسج یونٹ ‘کے ذریعے بندکیا جاسکتاہے۔ایسا کرنے کے لئے مختلف تراکیب اختیار کی جاتی ہیں جن میں سے پہلی ‘دماغ پر سوالات یا پیغامات کی بھرمار کر دینا ہے۔ اس سے وہ ان کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتاہے۔ دوسرا میسج یونٹ یہ ہے کہ پیغام پہنچانے کے لئے آپ کیسا انداز،لہجہ اور الفاظ منتخب کرتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ وہ کس طرز میں پیغام وصول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں ماہرین نے مریضوں کو دواقسام میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی قسم میںجسمانی طور پر پیغام قبول کرنے والے (physical suggestible) افراد ہیں۔ ایسے لوگ براہ راست پیغام کو قبول کرلیتے ہیں‘ مثلاً اگر میں آپ سے کہوں کہ تمباکو نوشی چھوڑ دو توآپ اسے چھوڑ دو گے۔دوسری قسم کو جذباتی طور پر پیغام قبول کرنے والے (emotional suggestible) کہا جاتا ہے۔ ان سے بات منوانے کے لئے آپ کو جذباتی اپیل کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مثلاً تمباکو نوشی سے کسی پیارے کا انتقال ہوگیا ہو تو انہیں بتایا جائے کہ” جیسا ان کا انجام ہوا‘ ویسا آپ کا بھی ہو سکتا ہے اس لئے سگریٹ پیناچھوڑ دو۔ “ اس پر ان کا ردعمل مثبت ہوگا۔ میرے تجربے کے مطابق ہمارے ملک کی 70 فی صد آبادی جذباتی ہے‘اس لئے ان پر دوسرا طریقہ زیادہ کارگر ہوسکتا ہے۔

ان لوگوں کی اقسام کو جاننے کے لئے ماہرین نفسیات کیا کرتے ہیں؟
اس کو جاننے کے لئے تین قسم کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے پہلا ان کی لکھائی کا تجزیہ،دوسرا جسمانی خصوصیات کا تجزیہ اورتیسرا انگلی پھیلانے کی تکنیک (finger spreading technique) شامل ہیں۔

والدین اس بات کو کیسے جان سکتے ہیں کہ ان کا بچہ کسی نشے کا عادی ہوچکا ہے؟
٭٭ والدین کوچاہئے کہ بچے کے رویوںمیں آنے والی تبدیلیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیتے رہیں۔اگر وہ کھانا کھانے میں تاخیر کرتا ہے ، تنہائی پسند ہوگیاہے یا سکول سے دیر سے آنے لگا ہے تو اسے سنجیدہ لیں۔

ماہرین نفسیات نشے کی لت سے چھٹکارا کیسے دلاتے ہیں؟
 ایسے افراد کے لئے ہم اعصابی و لسانی پروگرامنگ (neuro linguistic programming) اور خواب مصنوعی (hypnosis) کو اکھٹا کرتے ہیں۔اسے سانس کی تھیراپی (breathe therapy) کہاجاتا ہے۔پسند سے ناپسند کی طرف لے جانے والی اس تکنیک میں سب سے پہلے مریض کو اس چیز کا تصور کروایا جاتا ہے جسے وہ نشہ کے طور پراستعمال کرتا ہے۔ اس عمل کے دوران یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ یہ نشہ آور چیز کھانے کی ہے ،سونگھنے کی یا صرف محسوس کرنے کی۔اس کے بعد مریض سے دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ نشہ آور چیز استعمال کرتے وقت وہ کیسا محسوس کرتا ہے ۔پھر مریض سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جسے وہ ناپسند کرتاہو۔اس کے بعد نشہ آور چیز کے ساتھ اس کی ناپسندیدہ چیزکا تصور ملا کر اسے اس کے ذہن میں راسخ کر دیا جاتا ہے۔یوں ناپسندیدہ چیزاس کی پسندیدہ چیز کی جگہ لے لیتی ہے اور وہ اس سے نفرت کرنے لگتا ہے ۔

کیا ہم خود بھی اپنے دماغ کو ہدایت دے سکتے ہیں؟
جی ہاں! آپ اپنے دماغ کو بھی ”hyper suggestible state“ میں لاسکتے ہیں۔ جب ہم سونے کے لئے بستر پر جاتے ہیں تو اس کے بعد سے نیند آنے تک عموماً  30منٹ لگ ہی جاتے ہیں۔ اس وقت آپ اس حالت میں ہوتے ہیں جس میں آپ اپنے دماغ کو جو بات کہیں‘ وہ اسے آسانی سے قبول کرتا ہے۔
یاد رہے کہ آپ پہلے سے یہ سوچ کر بستر پر نہ جائیں کہ آپ نے خود کو اس حالت میں لانا ہے۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ جب آپ اس کیفیت میں ہوتے ہیں تو آپ کوبہت سے مثبت خیالات آتے ہیں۔ لاشعور کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ وہ صرف مثبت خیالات اور مثبت توانائی پیدا کرتا ہے۔جب آپ پرسکون حالت میں ہوتے ہیں مثلاً غسل کرتے ہوئے یا عبادت میں مگن ہوں تو آپ کو اپنے مسائل کے مثبت حل ملنے لگتے ہیں۔اس دوران کوئی اہم کام جو آپ نے کرنا تھا یاکوئی کھوئی ہوئی چیز جسے آپ تلاش کر رہے تھے‘ اچانک یاد آ جاتی ہے ۔ اگر آپ اس حالت میں اپنے مقصد کو سامنے رکھیں تو اسے حاصل کرنے کے لئے آپ کا ذہن آپ کو مثبت رہنمائی فراہم کرے گاجسے کام میں لایا جا سکتا ہے۔

نشے کے عادی لوگوں کو اس سے نجات دلانا یقناً بڑا کام ہے۔ آپ پاکستان میں اس شعبے کامستقبل کیسے دیکھتے ہیں؟
یہ بہت اچھی فیلڈ ہے جسے فروغ دیا جانا چاہئے ۔ہمیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ سائیکالوجسٹ کی ضرورت صرف پاگل پن میں نہیں پڑتی۔ ہر وہ چیز جس میں آپ فیصلہ نہیں کرپاتے یا وہ آپ کے لئے پریشانی کا باعث ہے ‘اس بات کی متقاضی ہے کہ آپ نفسیات کے کسی ماہر سے ملیں۔ نجی شعبے کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں اور مراکز میں بھی اس شعبے کے ماہرین کی تعیناتی کی جائے تاکہ ان تک لوگوں کی رسائی زیادہ ہو۔ میڈیا معلومات کی فراہمی کا مو¿ثر ذریعہ ہے لہٰذا اسے بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا جائے۔

مردوں اور عورتوں کے نشوں میں کیا فرق ہے؟
مردوں میں تمباکو نوشی، گٹکا،پان سپاری کے علاوہ الکوحل کا نشہ بھی عام ہے جبکہ خواتین میں تمباکو نوشی،پان سپاری اور الکوحل کا نشہ زیادہ دیکھا گیا ہے۔

ان میں سے کون معالج کے ساتھ زیادہ تعاون کرتا ہے؟
خواتین نشے میں کم گو،محفوظ اورمعالج کے ساتھ تعاون کرنے والی ہوتی ہیں۔وہ بات کو سمجھتی ہیں‘ہدایات پر عمل کرتی ہیں‘ ہمت نہیں ہارتیں اور مستقل مزاجی سے نشے کی عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کے برعکس مرد حضرات معالج سے کم تعاون کرتے ہیں اوربہت جلدی ہار مان لیتے ہیں۔ وہ کچھ عرصے کے لئے نشہ چھوڑ دیتے ہیں اور پھر کسی بھی چیز کو جواز بنا کر دوبارہ شروع کردیتے ہیں۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نشہ ایسی چیز ہے جسے اگرآپ خود نہ چھوڑنا چاہیں تو کوئی بھی شخص آپ کو یہ نہیں چھڑا سکتا ۔95فی صد لوگ اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں لیکن ارادے کی کمزوری کی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتے۔

نشے کی طرف دوبارہ لوٹنے سے خود کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟
پہلی چیز یہ ہے کہ جن لوگوں کے اخلاقی ‘ نفسیاتی یا سماجی دباو¿ کی وجہ سے آپ نے نشہ کرنا چھوڑا ہے‘ ان کا یہ دباﺅ برقرار رہنا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مریض کی اس معاملے میں حتی الامکان حوصلہ افزائی ہوتی رہنی چاہئے تاکہ وہ اس بری عادت سے دور رہے۔ تیسری یہ کہ اسے اس سے متعلق کوئی ایسا مو¿ثر واقعہ یا کہانی سنائیں جو اس کے ذہن میں نقش ہوجائے اورجب کبھی وہ نشے کی طرف راغب ہو تو اسے وہ واقعہ یا کہانی یاد آجائے۔ نفسیات کی زبان میں اسے استعارہ (metaphor) کہا جاتا ہے۔ آخری بات یہ کہ مریض کے ساتھ گفتگو کے دوران معالج وہ الفاظ اور زبان بولے جو مریض عموماً استعمال کرتا ہے تاکہ ان دونوں کی گفتگو میں ہم آہنگی اور ہم رنگی پیدا ہو۔اس طرح مریض معالج کی صحبت میں اچھا محسوس کرے گا۔

نشے کی کن اقسام کے زیادہ لوگ عادی ہوتے ہیں؟
کچھ تو سنگین نوعیت کے نشے مثلاًباقاعدہ منشیات کا استعمال وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ عام نشے ہیں جنہیں لوگ نشہ نہیں سمجھتے مگر علم نفسیات کے مطابق ان کا شمار بھی باقاعدہ نشوں میں ہوتا ہے۔ جیسے نمک اور چینی کا زیادہ استعمال،شاپنگ،چاکلیٹ اور محبت کا نشہ وغیرہ۔ ایسی صورتوں میں بھی دماغ میں ڈوپامین کا اخراج ہوتا ہے اور یک گونہ خوشی کے احساس کی وجہ سے اسے دوبارہ یہ کام کرنے پر اکساتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی کارٹیسول ہارمون کا پیدا ہونا نشے کے عادی اس فرد کو مایوسی اور اداسی کا بھی شکار کر دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے دل اور معدے کے مسائل سے بھی واسطہ پڑسکتا ہے کیونکہ ذہنی دباو¿ کے عمل میں انسانی جسم اور اس کے مختلف نظام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

شخصیات کتنی قسم کی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کون سی قسم کے لوگ نشے کی عادت میں زیادہ گرفتار ہوسکتے ہیں؟
ماہر نفسیات لوگوں کو چار قسم کی شخصیات میں تقسیم کرتے ہیں۔ان میں سے پہلی ”اے“ کہلاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کی بازی لگا دیتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ بالعموم اپنی صحت کازیادہ خیال نہیں رکھتے لیکن نشے کی لت میں بھی نہیں پڑتے‘ اس لئے کہ ان کامقصد انہیں کسی اور طرف متوجہ ہی نہیں ہونے دیتا۔ دوسری قسم ”بی“ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مقاصد پرسکون رہ کرحاصل کرتے ہیں۔ یہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے اپنی صحت یا پسندیدہ مشغلوں کو قربان نہیں کرتے اور نشے کے شکار بھی کم ہی ہوتے ہیں۔تیسری قسم ”سی “ اور ”ڈی“ پر مشتمل ہے۔ یہ سست لوگ ہیں جن کے جینے کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔یہ تنہائی پسند ہوتے ہیں اور نشے کی طرف باآسانی راغب ہو سکتے ہیں۔ ان کے جسم میں ڈوپامین (dopamine) کی مقدار کم ہوتی ہے جس کی پیداوار بڑھانے کے لئے وہ نشے کا سہارا لے سکتے ہیں۔

آخر میں قارئین کے لئے کوئی پیغام جو آپ دینا چاہیں؟
قارئین کے لئے مخلصانہ پیغام یہ ہے کہ اگر نشے کا عادی کوئی فرد دوبارہ صحت مند زندگی گزارنے کا قصد کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں۔اپنی طنزیہ گفتگو سے اس کے دکھوں میں اضافہ کرنے کی بجائے اس کی برائیوں پر پردہ ڈالیں اور اس کے کردار کے مثبت پہلووں کو اجاگر کر کے بہتر انسان بننے میں اس کی مدد کریں تاکہ آپ کی طرح وہ بھی معاشرہ کا ایک مفید اور کارآمد فرد بن سکے۔ لوگوں کے نشہ کرنے کی ایک بڑی وجہ معاشرے میں موجود ظلم اور ناانصافی بھی ہے۔ لوگوں کو بروقت انصاف مہیا کیا جائے تاکہ انہیں اپنے یا معاشرے کے لئے ضر رساں طریقے اختیار کرنے سے روکا جاسکے۔

Vinkmag ad

Read Previous

خود کو صحت مند رکھنے کےلئے آپ کیا کرتے ہیں ؟

Read Next

بیماری میں صبر‘ صحت یابی پر شکر

Most Popular