Vinkmag ad

قدرت نہیں‘ ہم خود ذمہ دارہیں گلے کی سوزش

علی کے گلے میں کچھ دنوں سے بہت درد تھا۔اس کی وجہ کھانسی تھی جو اب شدت اختیار کر گئی تھی ۔اس کی ماں سعدیہ اسے لے کرکان‘ ناک اور گلے کے ڈاکٹر (ای این ٹی سپیشلسٹ) کے پاس آ گئی۔معالج نے بچے کا معائنہ کیا اورماں کو بتایا کہ اسے گلے کی سوزش کا مسئلہ ہے جسے طب کی زبان میںورم حلق یا گلے کی سوزش (Pharyngitis) کہا جاتا ہے۔
’’اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘ سعدیہ نے نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔
’’تکنیکی زبان میں گلے کو فیرنکس (pharynx) کہتے ہیں اور اگر اس میںسوزش ہو جائے تو اسے ’فیرنجائٹس‘کہا جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے وضاحت کی ۔

’’اچھا!تو اس کی علامات کیا ہیں۔‘‘سعدیہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’اس کی بڑی بڑی علامات گلے میں درد ،کوئی چیز کھاتے مثلاً نوالہ نگلتے ہوئے دقت ہونااور بخار ہو جانا ہیں۔چونکہ ہمارے کان کا تعلق گلے کے ساتھ بھی ہوتا ہے اس لیے اگر گلے کی سوزش بڑھ جائے تواکثراوقات کان بھی بند ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’یہ سوزش ہوتی کیوں ہے؟ ‘‘سعدیہ نے ایک اور سوال پوچھا۔
’’ہوا اور کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعے جراثیم ہمارے منہ سے معدے تک پہنچ جاتے ہیں۔وائرس کی وجہ سے گلے کی سوزش سردیوں میں زیادہ عام ہے جبکہ بیکٹریا سے سوزش کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔‘‘

’’کیا اس کا تعلق کھانے پینے سے بھی ہے؟‘‘
’’جی بالکل !کھانے پینے کی اشیاء میں اگراحتیاط سے کا م نہ لیا جائے تو گلے کا یہ مسئلہ لاحق ہو سکتا ہے۔ جو لوگ کھٹی اور ٹھنڈی چیزیں زیادہ کھاتے پیتے ہیں‘ وہ اس وائرس کاجلدی شکار ہو جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ٹھنڈا پانی پیا جاتا ہے یا کوئی ایسی خوراک کھائی جاتی ہے تو اس سے گلے کی اندرونی سطحکو نقصان پہنچتا ہے۔اس سے بیکٹریا کا راستہ صاف ہو جاتا ہے اور وہ گلے میں سوزش ،درد اور مختلف مسائل پیدا کر تے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب! مجھے کھٹی اور ٹھنڈی چیزیںبہت پسند ہیں اور میں انہیں بہت شوق سے کھاتی ہوں۔ اس کے باوجود مجھے عموماً یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔اس کی کیا وجہ ہے ؟‘‘ سعدیہ نے بے یقینی اور دلچسپی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پوچھا۔
’’یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر فرد ان سے متاثر ہو،البتہ کمزور قوت مدافعت کے حامل افراد کو اس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ بچے، بوڑھے اور ذیابیطس کے مریض اس کی کچھ مثالیں ہیں۔ ‘‘ڈاکٹر صاحب نے تفصیلاًبتایا۔
’’ کیا گلے کی گلٹیاں یعنی ٹانسلز(tonsils)اورگلے کی سوزش ایک ہی چیزہیں۔‘‘اس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
’’ جی نہیں! ان دونوں میں فرق ہے ۔ ٹانسلز زبان کے دونوں جانب چھوٹی چھوٹی گلٹیوں کو کہتے ہیں جنہیں قدرت کی طرف سے ہمیں بطورمحافظ عطا کیا گیا ہے ۔یہ خوراک میں موجود جراثیم کو اپنے اندر روک لیتی ہیں۔جب یہ ایسا نہیں کر پاتیں تو جراثیم ان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں جس کے باعث یہ سوج جاتی ہیں ۔‘‘

’’ گلے کی سوزش کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟‘‘
’’ اس کی تشخیص کے لیے کسی بلڈ ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ محض معائنے سے ہی اس کی تصدیق یا تردید ہوجاتی ہے۔اگر وائرل انفیکشن ہو توسوجن کی وجہ سے گلااندر سے بالکل سرخ ہو گا جبکہ بیکٹریل انفیکشن کی صورت میں گلے میں ریشہ نظر آئے گا۔‘‘
’’اس کاعلاج کیا ہے؟‘‘ سعدیہ نے جلدی سے پوچھا۔
’’ علاج کے لیے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی وجوہات وائرل ہیں یابیکٹریل ؟اگر سوزش وائرل وجوہات کی بنیاد پر ہو تو مریض کو کم بولنے کی تاکید کی جاتی ہے تاکہ اس سے گلے کی اندرونی سطح
کو آرام مل سکے۔علاوہ ازیںنیم گرم پانی میں نمک ڈال کر غرارے کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے تاکہ سوجن کم ہو سکے ۔ اس کے ساتھ ایسی غذا کا استعمال کرنے کو کہاجاتا ہے جس میں پروٹین وافر مقدار میں موجود ہو۔ یہ وائرس ایک یادوہفتوں میں ٹھیک ہو جاتاہے۔‘‘
’’اور اگر وہ بیکٹیریا کی وجہ سے ہو تو؟‘‘ سعدیہ نے تجسس بھرے لہجے میں سوال کیا۔
’’ایسے میں اس کا علاج اینٹی بائیوٹک ادویات سے کیا جاتا ہے۔معالج مریض کے گلے کی حالت کے مطابق دوا تجویز کرتا ہے۔‘‘
’’کیا ایسے میں دوا لینا ضروری ہوتا ہے؟‘‘
’’جی ہاں!اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے توکچھ پیچیدگیاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔ انفیکشن بعض اوقات پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے اور بعض صورتوں میں نمونیا بھی ہوسکتا ہے۔اس صورت حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اگرگلے میں کوئی غیرمعمولی علامت دیکھیں تو اسے نظر انداز مت کریں بلکہ فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ ‘‘
’’یہ بتائیں کہ گھریلو پیمانے پر ہم کون سی احتیاطیں کر سکتے ہیں؟‘‘
’’بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جن کا الزام ہم قدرت کو نہیں دے سکتے ‘ اس لئے کہ وہ ہماری اپنی غفلت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔لوگوں کو چاہئے کہ جب موسم بدل رہا ہو تو خاص احتیاط کریں۔ٹھنڈی اشیاء اور کھٹی چیزیں کھانے سے گلا خراب ہو سکتا ہے لہٰذا ان سے اجتناب کریں۔ جراثیم اور گردوغبار چونکہ ہوا میں ہروقت موجود ہوتے ہیں اس لیے باہر جاتے ہوئے منہ پر ماسک لگائیں۔ سردیوں میں منہ کو مفلر یا گرم کپڑے سے ڈھانپیں اور بچوں کو خاص طور پراس کی احتیاط کروائیں۔ اس کے علاوہ ڈھابوںاورکھلی جگہوں سے کھانے پینے کی اشیاء لینے سے اجتناب کریں کیونکہ ان میں سے اکثر میں صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ان احتیاطوں پر عمل کر کے آپ خود کو اس بیماری سے بڑی حد تک بچا سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے بات مکمل کی اور کہا:
’’اگر اور کوئی سوال نہیں تو اجازت دیجئے‘ اس لئے کہ اگلا مریض بڑی بیتابی سے اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے ۔‘‘

’’جی ڈاکٹرصاحب!اور کوئی سوال نہیں۔‘‘ سعدیہ نے اٹھتے ہوئے کہا :’’آج آپ نے بہت کام کی باتیں بتائی ہیں۔ میں ان شاء اللہ ان پر ضرور عمل کروں گی۔ ‘‘ اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور کلینک سے باہر آ گئی۔

Vinkmag ad

Read Previous

صاف دانت‘ مسکراہٹ دلکش

Read Next

دودھ کے دانت: مسائل اور ان کا حل

Leave a Reply

Most Popular