Vinkmag ad

سر اور دھڑ کی پیوندکاری

سر اور دھڑ کی پیوندکاری

انسانی جسم کوایک مشین سے تشبیہ دی جاتی ہے تاہم یہ انسان کی ایجاد کردہ تمام مشینوں کے مقابلے میں کئی گنازیادہ پیچیدہ ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگرمشین کا کوئی پرزہ خراب ہوجائے تونیا پرزہ ڈالا جا سکتا ہے جبکہ انسانی جسم میں ایسا ممکن نہیں۔ طبی سائنس میں ترقی کی بدولت دل‘ گردوں ‘جگر‘ پھیپھڑوں‘ آنکھوں‘ آنتوں اورلبلبے سمیت دیگراعضاء کی کامیاب پیوندکاری نے اس تاثرکومسترد کردیا ہے۔ ان اعضاء کی کامیاب پیوندکاری کے بعد اب سرجنوں کے دماغ میں سراورپورے دھڑ کی پیوندکاری کا سودا سمایا ہوا ہے ۔ موجود ہ حالات میں تویہ دیوانے کا خواب معلو م ہوتا ہے مگرتین یا چارعشرے قبل دل وغیرہ کی پیوندکاری کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا تھا۔

ابدی زندگی کی خواہش

 زمانہ قدیم کے مصرمیں فوت شدہ لوگوں کی ممی بنا کرانہیں ابدی زندگی دینے کی کوشش کی گئی۔ پھر 20 ویں صدی میں بعض لوگوں نے مرنے کے بعد اپنی نعشوں کو منجمد کرانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ایسے انجماد کےلئے دو طریقے استعمال ہوتے تھے۔ ایک میں پورا جسم منجمد کردیا جاتا۔ دوسرے میں سرکودھڑسے الگ کرکے صرف سرکوہی منجمد کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے یہ تصورکارفرما ہے کہ ایک وقت آئے گا جب طب ترقی کرتے کرتے سرکو زندہ کرنے اورصحت مند دھڑ کے ساتھ پیوند کرنے کے قابل ہوجائے گی۔

اٹلی کے ایک سرجن ڈاکٹرسرجیوکیناویرو دعوٰی کررہے ہیں کہ 2017 تک سراوردھڑ کی پیوندکاری کاعمل یقینی ہوجائے گا۔ انہوں نے اس منصوبے پرتحقیقات شروع کررکھی ہیں اور اپنے عملے اورنرسوں کو بھی اس پیوندکاری کی تربیت دے رہے ہیں۔ ان کے اندازے کے مطابق اس آپریشن پر 40 گھنٹے لگیں گے۔ اس کے لئے پہلے سراوردھڑ کو ٹھنڈا کرنا پڑے گا۔ اس سے جسم کے ان حصوں کو آکسیجن کی کم ضرورت پڑتی ہے لہٰذا آپریشن پرزیادہ وقت لگا تو بھی اعضاء اسے برداشت کرسکیں گے۔ ڈاکٹرسرجیو جس پیوندکاری کی بات کررہے ہیں‘ وہ تازہ سراورتازہ دھڑکی ہے۔ منجمد سراورتازہ دھڑکی پیوندکاری ابھی بہت دورکی کوڑی ہے۔

جانوروں میں پیوندکاری

 امریکی اورروسی ڈاکٹروں نے تجربے کے طور پربندروں‘ کتوں اورچوہوں میں ایسی پیوندکاریاں خاصی حد تک کامیابی کے ساتھ کی ہیں۔ مئی 1908 میں ایک امریکی سائنسدان چارلس گتھری نے کتے میں ایسے پیوندکاری کی تھی۔ 1950 میں ایک روسی ڈاکٹر ولادمیر ڈیمی خوف نے بھی ایسے تجربات کئے۔ کتے کا ایک سر 26 روزتک زندہ رہا۔ اس نے نہ صرف دودھ پیا بلکہ ایک شخص کی انگلی کاٹنے کی بھی کوشش کی۔ ایک امریکی نیوروسرجن ڈاکٹررابرٹ وائٹ نے 1970 میں ایک بندرکا سردوسرے بندر کے جسم کے ساتھ پیوند کیا۔ 2002 میں جاپان میں اسی طرح کا کامیاب تجربہ چوہوں پرکیا گیا۔ اس میں چوہے کے دھڑکونہیں ہٹایا گیا۔ اس طرح دو سروں والا چوہا بنا۔

 ابتدائی مسائل

انسانی جسم کے ساتھ اس قسم کے آپریشن میں جوابتدائی مسائل بیان کئے جا رہے ہیں‘ ان میں سرفہرست یہ ہے کہ آپریشن بہت پیچیدہ ہے۔ اس پر بہت زیادہ وقت لگے گا‘ زیادہ عملہ درکارہوگا اورتقریباً ایک کروڑڈالرخرچ آئے گا۔ اس کے لئے سراوردھڑکو ٹھنڈا کرنا ہو گا۔ پھرسانس اورخوراک کی نالیاں‘ خون کی شریانیں اوررگیں تو پیوند ہوجائیں گی لیکن اصل مسئلہ حرام مغزکی پیوندکاری ہوگا۔ یہجسم اوردماغ کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ جب ہم پاﺅں ہلانا چاہتے ہیں تو ہمارے دماغ سے ایک پیغام پاﺅں تک پہنچتا ہے جوحرام مغزسے ہوکرگزرتا ہے۔ اگرحرام مغزکٹ جائے توپیغام رسانی کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اگرپیوندکاری ہو جائے اوردھڑ کام نہ کرسکے تواصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ تاہم یہ مشکل بھی اب حل ہوتی نظرآرہی ہے کیونکہ کچھ دواﺅں کی مدد سے حرام مغز کی مرمت کی جا سکے گی۔

پیوندکاری کے لئے پیش کش

روس میں ایک مریض نے اس آپریشن کے لئے خود کوپیش کرنے کی حامی بھررکھی ہے۔ اس نے ڈاکٹرسرجیو سے رابطہ بھی کرلیا ہے۔ وہ ایک جوان آدمی ہے جس کے جسم کے پٹھے بیکارہوتے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حالت مزید خراب ہوتی جائے گی اوروہ مرجائے گا۔ اس کے لئے ایسے نوجوان کا دھڑتلاش کرنا ہوگا جوحادثے کا شکارہوا ہواوراس کا دماغ برائے نام زندہ ہو۔

ایسے پیوند شدہ سَروں کے لئے دھڑمکمل طورپراجنبی ہوگا۔ جب حرام مغز کا مواصلاتی نظام دوبارہ قائم ہوگا تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کنکشن 100 فی صد صحیح لگیں گے۔ اگر کنکشن غلط ہو توانسان اپنا پیرہلانا چاہے گا لیکن اس کا ہاتھ ہل رہا ہو گا۔ آپریشن کے بعد ایسے پیوندکاری والے فرد کو تقریباً ایک ماہ تک بیہوشی یعنی کوما کی حالت میں رکھا جائے گا تاکہ وہ زیادہ ہلے جلے نہیں اوراس کے زخم اچھی طرح سے مندمل ہوجائیں۔ ایسے افراد شروع میں سانس لینے کے قابل بھی نہیں ہوںگے اور انہیں مشینوں کی مدد سے سانس دین ہوگی۔ اس کے علاوہ ان  افراد کورضاکارانہ طورپرخود کو پیش کرنا ہو گا کیونکہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ایسے پیچیدہ آپریشن کے بعد وہ زندہ رہیں گے بھی یا نہیں۔ اگرزندہ رہے توکیا دھڑان کی توقعات پر پورا ترے گا یا نہیں۔ بظاہراس کی کامیابی کے امکانات کم ہیں لیکن ایک چینی کہاوت ہے کہ سفر اگر ہزاروں میل کا ہو توبھی اس کی ابتداء کیلئے پہلا قدم اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ کیا معلوم کہ آج کا یہ سپنا مستقبل قریب یا بعید میں ایک حقیقت بن جائے۔

Vladimir Demikhov, Charles Gutherie, Robert White, first head transplant

Vinkmag ad

Read Previous

سیرنتھیاگلی کی لیکن کھانے گھرکے

Read Next

صحت مند بالوں کے راز

Leave a Reply

Most Popular