Vinkmag ad

پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پروسیجر: شریانِ کبیر کا پھیلاﺅ

یہ2007کی بات ہے کہ ایک شام اسلام آباد کے رہائشی 80سالہ احمد (مریض کی درخواست پر فرضی نام )کے پیٹ میں شدید درد اٹھا۔یوں تو پیٹ میں درد کوئی غیرمعمولی بات نہیں لیکن یہ کچھ عجیب سا تھا۔انہوں نے کسی کے مشورے پر کوئی دوا کھا لی جس سے فوری طور پر تو آرام آگیا لیکن یہ کوئی مستقل حل نہ تھا ۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے امراض معدہ کے کئی ڈاکٹروں سے بھی چیک کراَپ کروایا لیکن مسئلہ حل نہ ہوا۔ بالآخر انہوں نے اپنی بیٹی نجمہ ڈاکٹر کو اس کی اطلاع کی جس نے انہیں پیٹ کے الٹراساﺅنڈ کا مشورہ دیا۔اس سے معلوم کہ انہیں جسم میں موجود سب سے بڑی شریان (aorta)کے پھیلاﺅ (aortic aneurysm) کا شکار تھے۔ شریانیں (arteries) وہ نالیاں ہیں جو دل سے جسم کے دوسرے حصوں میں خون پہنچاتی ہیں۔ اس کے برعکس وریدیں(veins) جسم کے دیگر اعضاءسے خون واپس دل میں لاتی ہیں۔
.

شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ویسکولر (خون کی رگوں سے متعلق ) سرجن اور احمد کے معالج ڈاکٹر عمر احسن نے شفانیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ یہ بیماری بالعموم 60 سال کے بعد ہوتی ہے۔عام حالات میںشریانِ کبیر (aorta) کے پھیلنے کی رفتار سست ہوتی ہے اور اگروہ تیز ہوجائے اورشریان ایک خاص حد سے زیادہ پھیل جائے تو وہ پھٹ جاتی ہے جس سے مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

شفاانٹرنیشنل ہسپتال کے ”انٹرونشنل ریڈیالوجسٹ“ڈاکٹر زاہد امین نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر شریانِ کبیر نہ پھٹے تو اس میں خون کے لوتھڑے جمنے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں جو جس حصے میں بھی موجود ہوں گے‘ اس کو نقصان پہنچا ئیں گے۔ ان کے بقول اس مرض کی کوئی خاص علامات نہیں ہوتیں لہٰذااس کی تشخیص آسان نہیں ہوتی اور بالعموم کسی اور مسئلے کی وجہ سے کئے گئے الٹراساﺅنڈ یا سکین سے اس کا پتا چلتا ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مرض خاموشی سے مریض کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ اس لئے 60سا ل یا اس سے زائد عمر کے مردوں اور خواتین کوشریانِ کبیر کی سکریننگ لازماً کروانی چاہئے۔اگر خاندان میں کسی خاتون کو یہ بیماری لاحق ہو تو دیگر افراد میں اس کے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر عمر احسن کا کہنا ہے کہ شریانِ کبیر کے پھیلنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں‘ جیسا کہ احمد کے کیس میں ہوا:
”ان کی بیماری 10سال پرانی تھی۔وہ ایک پڑھے لکھے اور باشعور گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کی بیماری کی بروقت تشخیص ہو گئی جس کی وجہ سے علاج ممکن ہو گیا ۔“
احمد کہتے ہیں کہ وہ گزشتہ 10 سال سے ہرتین سے پانچ ماہ بعد پیٹ کا الٹرساﺅنڈ اور سی ٹی انجیوگرافی وغیرہ کرواتے رہے لیکن اس کے علاج کے بارے میں کسی کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا۔“

ڈاکٹر زاہدامین کے مطابق پرانے طریقے میں اس کا علاج اوپن سرجری کے ذریعے کیا جاتا تھا۔اس طریقہ علاج میں مریض کو نہ صرف ہسپتال میں زیادہ عرصے کے لئے رکھا جاتا ہے اور اس کی بحالی میں وقت زیادہ لگتا ہے بلکہ اس کی زندگی کو خطرات بھی نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ شریان ِکبیر کا پھیلاﺅجب تک ایک خاص حد تک نہ پہنچ جائے‘ تب تک اس کا آپریشن ممکن نہیں ہوتا۔ یوں آغاز میں احمد کا آپریشن ممکن نہ تھا۔
جب 2015ءمیں ان کی شریان پانچ سینٹی میٹر سے زیادہ ہو گئی تو یہ ممکن تھا لیکن اس وقت مریض نے اپنی عمر‘دیگر بیماریوں اور اوپن سرجری کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے علاج سے انکار کر دیا۔ان کی صحت روز بروز گر نے لگی‘ اس لئے کہ وہ صرف شریانِ کبیرکے پھیلنے کی بیماری ہی میں نہیںبلکہ شوگر اور ہائی بلڈ پریشر میں بھی مبتلا تھے۔ان کی شریان پھیلتی جا رہی تھی جس سے ان کے گردے اور چھوٹی آنت بھی متاثرہونے لگے۔اب احمد کے لئے آپریشن بھی ممکن نہ رہا تھا۔

”ڈاکٹر! کیا میرے بابا کا کوئی اورعلاج ممکن ہے؟‘احمد کی ڈاکٹر بیٹی ایک دن ڈاکٹر احسن سے ملیں ۔
”جی ہاں!ترقی یافتہ ممالک میں اس مرض کے علاج کے لئے ایک جدید طریقہ استعمال کیا جا تاہے جو ہمارے ہسپتال میں بھی ممکن ہے ۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا:
”اس میں مریض کے پیٹ کو چاک کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ہم اس کی ران پر ایک چھوٹا سا کٹ لگائیں گے جس کے ذریعے شریانِ کبیر کے ناپ کا خصوصی سٹنٹ(stent) ان کے جسم میں منتقل کیا جائے گا اور وہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔“
چونکہ مریض کے گردے اور چھوٹی آنت بھی شریانی پھیلاﺅ سے متاثر تھے لہٰذا ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ سٹنٹ میں سوراخ کروا کر اسے جسم میں منتقل کیا جائے گا۔ یہ طریقہ بالکل محفوظ ہے جسے اینڈو ویسکولر سٹنٹنگ (endovascular stenting)کہا جاتا ہے۔

ہر مریض کے لیے سٹنٹ ان کی شریان کے سائز کے مطابق بنایا جاتا ہے۔ یوں یہ معمول کی بات تھی مگر اس مریض کے لیے سٹنٹ میں سوراخ بھی کرنا تھے۔جب اس کے لئے سٹنٹ بنانے والی کمپنی سے رابطہ کیا گیا تو وہ لوگ آغاز میں کچھ تذبذب کا شکار ہوئے‘ اس لیے کہ یہ ان کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ اگر سوراخ ذرا بڑا یا چھوٹا ہوجاتا تو پیچیدیگیاں پیدا ہو سکتی تھیں۔ کمپنی نے یہ خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا اور احمد کے لیے خصوصی سٹنٹ تیار کرنے کی حامی بھرلی۔ 27اکتوبر2017ءکو سٹنٹ کو اس نئے طریقہ علاج کے ذریعے مریض کے جسم میں نصب کر دیا گیا۔

یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پروسیجر تھا جس میں تقریباًپانچ سے چھ گھنٹے لگے۔ڈاکٹر عمر احسن اور ڈاکٹر زاہدامین نے سٹنٹ کے پرزوں کو جسم میں مختلف مشینوں کے ذریعے کامیابی سے کھولا‘جوڑا اور نصب کر کے مریض کی جان بچا لی۔
اب مریض کی حالت کو بغور جانچنے کا مرحلہ تھا جس کے لئے انہیں چند دن آئی سی یو میں گزارنے پڑے۔ان کی حالت رفتہ رفتہ سنبھل رہی تھی۔شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کی دواﺅں کے علاوہ انہیں خون پتلا کرنے والی دوا بھی لکھ کر دے دی گئی۔ احمد نے ڈاکٹروں کی ہر ہدایت پر عمل کیا۔ آج اس کیس کو دو ماہ ہو چکے ہیں اوراحمد اپنی10 سالہ بیماری سے نجات پا چکے ہیں۔ اب وہ بہتراور اپنے علاج سے مطمئن ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

”شروع میں میری دائیں ٹانگ میں کچھ درد تھامگر اب وہ ٹھیک ہے۔فیزیوتھیراپی کی مدد سے اب میں گھر میںبغیر لاٹھی کے چل لیتا ہوںاور بالکل مطمئن ہوں۔میں شفا اور ڈاکٹروں کی ٹیم کا شکرگزار ہوں جنہوں نے میری صحت کے لیے نیا طریقہ علاج اپنایااوراسے کامیابی سے استعمال کیا۔“
شفانیوز کے قارئین کے نام اپنے پیغام میں احمد کہتے ہیں:

”میں چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں صحت اور بیماریوں کے متعلق آگہی پھیلے تاکہ جس طرح میں نے اپنی بیماری پکڑ لی تھی‘ ویسے ہر فرد پکڑ سکے اور بروقت تشخیص کی وجہ سے ان کا کامیاب علاج ہو سکے۔“
بلاشبہ احمد درست کہتے ہیں‘ اس لئے کہ صحت کا کوئی نعم البدل نہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی بیماری ہو جائے تو امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اوراپنا علاج کروائیں ۔

Vinkmag ad

Read Previous

حقیقت کیا فسانہ کیا

Read Next

بھولنے کی بیماری کو مت بھولیں

Most Popular