Vinkmag ad

سائبر بولنگ

سائبر بولنگ

موجودہ دوربلاشبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اورنوجوان‘ بچے اوربزرگ سبھی انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، موبائل فون اورتھری جی، فور جی کے دیوانے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام چیزیں تفریح کا اچھا ذریعہ ہیں لیکن انہیں صحت سمیت دیگرتعمیری مقاصد کے لئے بھی استعمال کرنا چاہئے۔ آن لائن دنیا میں سائبربولِنگ کے اثرات بہت سے افراد کونفسیاتی و سماجی طورپرمتاثر کرتے ہیں۔  زیرِنظرکالم میں برطانیہ کے چائلڈ انٹرنیٹ سیفٹی کاؤنسل سے وابستہ ماہرِ نفسیات وکی شاٹ بولٹ سے لئے گئے انٹرویو کی روشنی میں لکھا گیا ہے۔

 ٹرولنگ اورسائبربولنگ میں فرق

ہیلو! کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کا سارا ڈیٹا لے لیا ہے۔ اگر آپ نے میری بات نہ مانی تومیں اسے کہیں بھی استعمال کر سکتا ہوں۔ اگر آپ میری بات نہیں مانیں گے تو میں آپ کو باربار میسج کرکے تنگ کروں گا۔ ہا ہاہا…مجھ سے بچ کرکہاں جاﺅ گے۔ میں نے توآپ کے پروفائل سے تمام تصویریں اورویڈیوز چوری کرلی ہیں۔

ممکن ہے کہ اس طرح کے پریشان کن کمنٹس‘ میسجزیا کالز کبھی آپ کوبھی آئی ہوں۔ اگرایسا نہیں تو آپ نے اس کے بارے میں سنا ضرورہوگا۔ اس طرح کی غنڈہ گردی اورہراساں کئے جانے کا عمل اگرانٹرنیٹ‘موبائل فون‘ ٹیبلٹ یا کسی اورڈیجیٹل آلے کے ذریعے ہوتو اس کے لئے سائبربولِنگ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اس طرح کے زیادہ ترواقعات سوشل میڈیا اورمیسج ایپس پردیکھے گئے ہیں۔ ان میں لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے‘ انہیں گالیاں اوردھمکیاں دی جاتی ہیں‘ برے القاب سے نوازا جاتا ہے اوران کے بارے میں منفی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ اگرایسا ایک آدھ بارہوتو اسے ٹرولنگ کہتے ہیں جبکہ لمبے عرصے تک اورمسلسل تنگ کیا جانا ”سائبر بولِنگ “ شمار ہوتا ہے۔

سال 2012  میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں 47 فی صد مرد اور62 فی صد خواتین سائبربولِنگ کی شکار ہوتی ہیں جن کی زیادہ تعداد نوجوان بچوں یا بچیوں پرمشتمل ہوتی ہے۔ اس طرح کا ہراساں کیا جانا اگرمسلسل جاری رہے تو اس کا نتیجہ متعلقہ فرد کی خود کشی‘جرائم (مثلاً چوری وغیرہ) پرمجبور ہونا‘ اغوا اورجنسی زیادتی وغیرہ کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے۔

بچیں کیسے

٭ماں باپ بچوں سے اس موضوع پربات کریں۔ ضروری نہیں کہ انہیں ہراساں کیا جا رہا ہو بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی اورکو (ہراساں کررہے ہوں۔ لوگوں کوآن لائن شرارت کرنا آسان لگتا ہے کیونکہ اس میں فرد اپنی شناخت چھپا کرکسی بھی فرضی نام سے کسی کو تنگ کرسکتا ہے۔

٭بچوں کو بتائیں کہ جس طرح عام زندگی میں چوری کرنا اورکسی کو دھمکانا بری بات ہے‘ اسی طرح آن لائن چیزیں چوری کرنا بھی اچھا نہیں ہے۔ انٹرنیٹ پرچوری یا فراڈ پکڑنا اگرچہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ مذہبی تناظرمیں سمجھایا جا سکتا ہے کہ خدا ہرجگہ موجود ہے لہٰذا کوئی اوردیکھے نہ دیکھے‘ وہ تو بہرحال دیکھ رہا ہے۔ کچھ بھی پوسٹ کرنے سے پہلے سوچیں کہ کہیں اس سے کسی کی دل آزاری تو نہیں ہو گی۔

٭کوشش کریں کہ بچوں کو بھی اپنے ساتھ سوشل میڈیا وغیرہ پرایڈ کریں۔ ان پر بلا وجہ پابندیاں مت لگائیں تاہم کبھی کبھاران کی سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ لیتے رہیں۔

٭بچوں کوسمجھائیں کہ انٹرنیٹ پراپنی ’پرائیویسی‘ کو یقینی بنائیں۔ غیرمتعلقہ لوگوں کو فرینڈ لسٹ میں شامل نہ کریں۔غیر متعلقہ میسج‘ ای میلز وغیرہ بھیجنے والے کو بلاک کریں۔  موبائل پرکوئی تنگ کرے توموبائل سروس کمپنی کو اطلاع کریں۔ ایسے شخص کو کبھی جواب مت دیں۔

٭اگرکوئی تنگ کررہا ہوں تو کسی قابلِ بھروسہ شخص کوآگاہ کریں اورتنگ کرنے والی کی دھمکی کی بالکل پرواہ نہ کریں۔ یار رکھئے‘ ایسے لوگ آپ کے ڈرسے فائدہ اٹھاتے ہیں اس لئے انہیں یہ معلوم نہیں ہونا چاہئے کہ آپ ان سے ڈررہے ہیں۔ اس کی شکایت سائبرپولیس کو بھی کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ پولیس بہت متحرک ہے اورمنٹوں میں رسپانس دیتی ہے ۔اس کا فون نمبر92519106384 ہے۔

cyber bullying, difference between cyber bullying and trolling, cyber bullying protection, cyber police

Vinkmag ad

Read Previous

آلو پوستو Aloo Posto

Read Next

کوکونٹ براﺅنیز Coconut Brownies

Most Popular