Vinkmag ad

فیڈر کا استعمال اور ضروری احتیاطیں

آج کل زمانہ کچھ ایسا آگیا ہے کہ چیزوں سے زیادہ اہمیت ان کی پریزنٹیشن اختیار کر گئی ہے۔ دکانوں میں سجے فیڈرز ہی کو دیکھ لیں۔ وہ اتنے خوشنما اور سٹائلش ہوتے ہیں کہ ماﺅں کا دل خواہ مخواہ ہی انہیں خریدنے کو چاہتا ہے۔ پھر ہمارے ذہنوں پر میڈیا کے اثرات اتنے زیادہ ہیں کہ ہم انجانے میں ہر وہ کام کرنے لگتے ہیں جس کے بارے میں میڈیا پر بتایا جائے کہ یہ اچھا ہے۔

نوزائیدہ بچوں کے لیے ڈبے کے دودھ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان کے اشتہارات میں مصنوعی دودھ کی خوبیوں کو کچھ اس طرح سے اجاگر کیا جاتا ہے کہ ماں کے دودھ اور بوتل کے دودھ میں فرق دھندلا جاتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو یہ دودھ ماں کے دودھ سے زیادہ فائدہ مند معلوم ہوتا ہے۔

ماہرِ امراض بچگان ڈاکٹر ریحانہ سعید کا کہنا ہے کہ اشتہاری کمپنیاں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ڈبے کے دودھ میں وہ تمام اجزاء شامل ہوتے ہیں جو بچہ ماں کے دودھ سے حاصل کرتا ہے حالانکہ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا مقابلہ کسی صورت بھی ماں کے دودھ کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔

 ماں کے دودھ میں قدرتی طور پر ایسی اینٹی باڈیز(بیماریوں کے خلاف جسم کی حفاظت کرنے والے خلیے) پائی جاتی ہیں جو بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچاتی ہیں۔ یہ اینٹی باڈیز کمپنیوں کی طرف سے تیار کردہ دودھ میں کسی طور موجود نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈبے کے دودھ پر انحصار کرنے والے بچوں میں انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا استعمال کرنے والے بچوں کو اکثر ڈائریا کی شکایت رہتی ہے۔

اس حقیقت کے باوجود ڈبے کے دودھ پر پابندی عائد کرنا ٹھیک نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض صورتوں میں یہ دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ ان کے بقول ماں اگر آئی سی یو (انتہائی نگہداشت کے یونٹ) میں ہو یا بچہ اگر بیمار ہو تو بعض صورتوں میں وہ ماں کا دودھ حاصل نہیں کرسکتا۔ ایسے میں اس دودھ کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ کوئی بھی ڈاکٹر ڈبے کے دودھ کا مشورہ نہیں دیتا ۔

دودھ بنانے کا طریقہ

جن بچوں کو بوتل کا دودھ تجویز کیاجاتا ہے‘ ماﺅں کو چاہئے کہ وہ اسے بنانے میں پوری احتیاط سے کام لیں۔ مائیں یا گھر کے دیگر لوگ ڈبے پر موجود ہدایات کو پڑھے بغیر دودھ بناتے ہیں۔ ایسے میں فائدے کے بجائے نقصان ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر ریحانہ کہتی ہیں کہ اگر آپ فارمولا ملک بنا رہے ہیں تو اس کی مقدار کا خاص خیال رکھیں:

جب ہم پانی میں اس کی کم مقدار ڈالتے ہیں تو اس سے مقررہ مقدار سے کم کیلوریز بچے کو ملتی ہیں اور اگر زیادہ ڈالیں تو اس کی زیادہ مقدار ملے گی۔ دونوں صورتوں میں بنایا گیا دودھ بچے کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ دودھ میں غذائیت کی یہ کمی انفیکشن کا سبب بنتی ہے اور انفیکشن بچے میں غذائیت کی کمی کا باعث بنتا ہے۔

بچے کو دودھ کے ساتھ پانی دینا ٹھیک نہیں؟

اکثر اوقات گرمیوں میں مائیں بچے کو دودھ کے ساتھ پانی دینا شروع کر دیتی ہیں۔ ان کے مطابق موسم چونکہ گرم ہوتا ہے‘ اس لیے بچے کو پانی کی کمی سے بچانے کے لیے اضافی پانی پلانا ضروری ہے۔ ڈاکٹر ریحانہ کہتیہیں کہ ماں کے دودھ کا 75 فی صد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے اور بچے کو اتنی ہی مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے:

ہمارے ہاں پینے کا پانی صاف نہیں ہوتا اور کئی بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔ اگر بچہ ماں کا دودھ پی رہا ہے تو اسے پانی کی اس وقت تک ضرورت نہیں جب تک کہ وہ بچہ ٹھوس غذا لینا نہ شروع کردے۔ ماﺅں کو چاہیے کہ اس دوران خود زیادہ پانی،دودھ اور تازہ پھلوں کاجوس پیئیں۔ اس سے دودھ بھی زیادہ آئے گا تو بچے کی پیاس بھی ختم ہو جائے گی۔

ماﺅں کو چاہئے کہ اگر وہ بچے کو بوتل کے ذریعے دودھ پلا رہی ہیں تو اس کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ بوتل کو استعمال کے بعد گرم پانی میں اچھی طرح سے دھوئیں اور اسے صاف جگہ پر رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق دیگر ساز و سامان کی دیکھ بھال میں بھی احتیاط کریں۔

بوتل کی صفائی کا خیال رکھا جائے تو بھی انہیں بیماری پیدا کرنے والے بیکٹیریا اور دوسرے جراثیم کی پناہ گاہ بننے سے روکنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں یونیسف کی طرف سے اس رائے کوذہن میں رکھنا چاہئے:

بچوں کو ماں کا دودھ پلانے میں کمی کے رجحان کو واپس پلٹا لیا جائے تو ہر سال 15 لاکھ بچوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

آپ ٹھنڈا پانی پیتے ہیں یانیم گرم ؟

Read Next

ہتھیلی, انگوٹھے اور درمیانی انگلی میں درد

Most Popular