Vinkmag ad

 خون کی بیماریاں

 خون کی بیماریاں

خون جسم کے تمام خلیوں تک آکسیجن اوراہم غذائی اجزاء پہنچانے اوربیماریوں کے خلاف لڑنے کے علاوہ بھی بہت سے اہم افعال سرانجام دیتا ہے۔ دیگر اعضاء کی طرح یہ بھی ایک عضو ہے جو بیمار ہوسکتا ہے۔ خون کی نوعیت‘ افعال ‘ بیماریوں اورعلاج کے امکانات پر شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے ماہر امراض خون( کلینیکل ہیماٹالوجسٹ) ڈاکٹرایاز یونس سے انٹریو

خون ہے کیا‘ اس کا رنگ سرخ کیوں ہوتا ہے اورجسم میں اس کا کیا کردار ہے؟

خون دیگراعضاء مثلاً جگر‘ پھیپھڑوں اورگردوں وغیرہ کی طرح ایک عضو ہے۔ یہ کسی ایک جگہ نہیں رہتا بلکہ پورے جسم میں گردش کرتا ہے۔ یہ ایک ٹشو ہے جومائع شکل میں ہوتا ہے۔اگرچہ اکثرجانوروں کے خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے لیکن کچھ جانورمثلاً کیکڑے وغیرہ میں یہ نیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ انسانوں میں اس کی رنگت سرخ ہونے کا سبب خون میں موجود ایک پروٹین یعنی ہیموگلوبن ہے۔ یہ جسم کے مختلف خلیوں تک آکسیجن پہنچاتی ہے۔ قدرتی نظام کے تحت ہیموگلوبن پہلے پھیپھڑوں میں جاتی ہے۔ وہاں سے وہ آکسیجن کو لے کردل کے بائیں حصے میں آتی ہے۔ دل جب دھڑکتا ہے توآکسیجن کا حامل خون جسم کے تمام حصوں تک پہنچ جاتا ہے۔ جب خون آکسیجن سے خالی ہوجاتا ہے تو اسے جسم کے تمام حصوں سے جمع کرکے دل کے دائیں حصے میں پہنچایا جاتا ہے‘ اور پھریہ چکراسی طرح چلتا رہتا ہے۔

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ خون کا بڑا کام جسم کے مختلف حصوں تک آکسیجن پہنچانا ہے؟

یہ اس کے بہت سے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ خون کے چاربڑے اجزاء ہیں جن میں سے تین مختلف قسم کے خلئے مختلف طرح کے کام سرانجام دیتے ہیں۔ مثلاً سرخ خلئے آکسیجن کو جسم کے تمام حصوں تک لے کرجاتے ہیں۔ سفید خلئےانفیکشن کے خلاف لڑتے اور ہمیں بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ پلیٹ لیٹس بہتے خون کو روکنے کا کام کرتے ہیں۔ ان خلیوں کے علاوہ خون کا ایک مائع حصہ بھی ہوتا ہے جسے ’’پلازما‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں بہت سی پروٹینز ہوتی ہیں جن کے ذمے مختلف طرح کے کام ہیں۔ اگر اس کی مقدار کم ہوجائے تو چکرآنے یا جسمانی کمزوری کی علامات ظاہرہوتی ہیں۔

خون کی کمی کیوں ہوتی ہے؟

خون کی کمی کو تکنیکی زبان میں انیمیا کہتے ہیں۔ خصوصاً خواتین اس کی بڑے پیمانے پرشکار ہیں۔ ہیم آئرن کوکہتے ہیں جوہیموگلوبن کا لازمی جزو ہے۔ جن لوگوں کی غذا میں آئرن کی مقدارکم ہو‘ ان میں خون کی کمی زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔ یہ مسئلہ ٹین ایج گروپ میں بھی زیادہ ہے۔ یہ نشوونما کی عمر ہے جس میں پروٹین کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے لیکن ان کی خوراک میں اس کی حامل چیزیں مثلاً گوشت ‘ پالک اورسیب وغیرہ بہت کم شامل ہوتے ہیں۔ دوسرا گروپ خواتین کا ہے جن میں خون کی کمی کا سبب ان کے ماہانہ ایام اور زچگیوں میں خون ضائع ہونا ہے۔ اگر وہ آئرن کی اس کمی کو پورا نہیں کرتیں تو انہیں انیمیا ہوجاتا ہے۔ تیسرا گروپ بزرگوں کا ہے جن میں اس کی بڑی وجہ پاخانے میں خون کا اخراج ہے۔

خون کی بیماریوں کے ڈاکٹر کوکیا کہتے ہیں؟

اس کے ڈاکٹر ہیماٹالوجسٹ کہلاتے ہیں جو د وطرح کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک پتھالوجیکل ہیماٹالوجسٹ ہیں جولیبارٹری میں کام کرتے ہیں اورتشخیصی نمونوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ دوسرے کلینکل ہیماٹالوجسٹ ہیں جن کا تعلق علاج سے ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ہیماٹالوجسٹ پتھالوجیکل ہیں جبکہ کلینیکل ہیماٹالوجسٹ کم ہیں ۔اگر وہ دستیاب ہوں تو خون کی بیماریوں کی صورت میں انہی کے پاس جانا چاہئے۔

یہ بتائیے کہ خون کی بڑی بڑی بیماریاں کون سی ہیں؟

 خون میں تین طرح کے خلئے ہوتے ہیں لہٰذا خون کی بیماریاں بھی ان کے مطابق مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً سرخ خلیوں کی بیماریوں میں انیمیا کےعلاوہ تھیلیسیمیا میجرنمایاں ہے۔ سفید خلیوں کے امراض میں تین قسم کے کینسر لیوکیمیا‘ لمفوما اورمائیلوما نمایاں ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ کینسررجسٹریاں بہت محدودپیمانے پرکام کررہی ہیں لہٰذا اس مرض پر مصدقہ اعدادوشمارموجود نہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق یہاں خون کے کینسرز، تمام طرح کے کینسرز کا 15 سے 20 فی صد ہیں۔ خون کے کینسرز کی زیادہ شرح بزرگوں میں پائی جاتی تھی لیکن اب یہ 30 سے 40 سال کی عمر کے لوگوں میں بھی عام دیکھنے میں آرہا ہے۔

کیا یہ مرض قابل علاج ہے ؟

سی ایم ایل خون کا ایک کینسر ہے جس کے کامیاب علاج کی شرح 90 فی صد ہے۔ آج سے 20 سال پہلے اس کے مریضوں کے پاس کیموتھیراپی کے علاوہ کوئی حل نہیں ہوتا تھا۔ اس سے انہیں شدید تکلیف ہوتی‘ بال گرجاتے اورمعمولاتِ زندگی بھی بری طرح سے متاثر ہوتے تھے۔ اب مریض ایک گولی کھا لیتا ہے اوراپنا کام کرتا رہتا ہے۔ اسے نہ تو کیموتھیراپی کی ضرورت پڑتی ہے اورنہ ہسپتال داخل ہونا پڑتا ہے۔ جولوگ یہ دوا کھا رہے ہوتے ہیں‘ انہیں دیکھ کرپتا بھی نہیں چلتا کہ وہ خون کے کینسرکا شکار ہیں۔ اے ایم ایل میں علاج کی کامیابی کی شرح 40 سے 45 فی صد جبکہ اے ایل ایل میں 60 سے 70 فی صد ہے۔

خون کے تمام طرح کے کینسرزکا ایک علاج بون میروٹرانسپلانٹ ہے۔ لہٰذا اگرکوئی ڈاکٹرمریض کوبتائے کہ اس کے مرض کا کوئی علاج نہیں تو اس سے بون میرو ٹرانسپلانٹ پر رائے ضرور لے لینی چاہئے۔ پاکستان میں اس کی سہولت تین یا چار جگہوں پردستیاب ہے جن میں شفاانٹرنیشنل ہسپتال بھی شامل ہے۔

یہ کیسے پتا چلے گا کہ خون کا کینسرہو گیا ہے؟

بلڈ کینسرکی 100 سے زیادہ قسمیں ہیں جن میں سے نمایاں وہی ہیں جن کا اوپرذکرہوا ہے۔ لیوکیمیا کی صورت میں تھکاوٹ اوربخارہوتا ہے اوراگرخون کا مکمل ٹیسٹ کروایا جائے تواس میں سفید خلیوں کی تعداد زیادہ نظرآتی ہے۔ لمفوما کی صورت میں گردن‘ بغل اورجانگھ وغیرہ پرگلٹیاں بن جاتی ہیں۔ ان گلٹیوں میں چونکہ درد نہیں ہوتا لہٰذا لوگ سوچتے ہیں کہ جب یہ تکلیف نہیں دے رہی تو پھراسے چیک کرانے کی کیا ضرورت ہے۔ اگرگلٹیوں میں درد ہو تو اس کا سبب کوئی انفیکشن ہوسکتا ہے جوزیادہ تشویشناک بات نہیں جبکہ ان میں درد نہ ہونا زیادہ خطرناک علامت ہے۔ اس کی بھی بہت سی قسمیں قابل علاج ہیں۔

مائیلوما خون کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جس کی وجہ سے ہڈیوں میں درد ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ کئی کئی سال تک ہڈیوں کے ڈاکٹرسے علاج کرواتے رہتے ہیں حالانکہ اس کا سبب خون کا کینسرہوتا ہے۔ اس لئے اگر یہ درد دو ماہ تک ٹھیک نہ ہو توبلڈ کینسرکے حوالے سے بھی تسلی کرلینی چاہئے۔ اگر آپ کی عمر50سال سے زیادہ ہے اورآپ کوتھکن رہتی ہے تو ہرسال یا دوسال کے بعد’’ سی بی سی‘‘ ٹیسٹ کروا لینا چاہئے۔ خون کی 90 فی صد بیماریاں اس میں ظاہرہو جاتی ہیں۔

مائیلوما کے مریض کو کیسے معلوم ہوگا کہ شعبہ ہڈی و جوڑ کے بجائے کینسر کے شعبے میں جانا ہے؟

آرتھوپیڈکس میں جب ایکسرے یا ایم آرآئی کیا جاتا ہے تواس میں ’’مائیلوما‘‘ ظاہرہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب ڈاکٹر ایکسرے تجویزکرتا ہے تو بہت سے لوگ یہ نہیں کرواتے جس کی وجہ سے مرض بڑھتا جاتا ہے۔ اگرمعاملہ سنجیدہ اوربات جان کو خطرے والی ہوتوچھوٹی موٹی لیبارٹریز کے بجائے بڑی لیبارٹریز میں آئیں تاکہ مرض کی تشخیص میں تاخیرنہ ہو۔

کینسر کے علاوہ خون کی کون سی بیماریاں ہیں؟

خون کی ایک اہم بیماری ہیموفیلیا ہے جس میں خون جمتا نہیں۔ اگرشیو کرتے وقت کَٹ لگ جائے تووہ بہنا شروع ہو جاتا ہے اورچھ سات دن تک بند نہیں ہوتا۔ یہ بہت خطرناک صورت حال ہوتی ہے اوراس مرض کی دوائیں بھی بہت مہنگی ہیں۔ پلیٹ لیٹس خون کے جمنے میں اہم کردارادا کرتے ہیں لیکن پلازما میں بھی کچھ ایسی پروٹینزہوتی ہیں جو اسے جمنے میں مدد دیتی ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ اگرپلیٹ لیٹس اینٹیں ہیں توان پروٹینز کا کردارسیمنٹ کا ہے اوریہ دونوں مل کرایسی دیواربناتے ہیں جس سے خون بہنا رک جاتا ہے۔ یہ مرض قابل علاج ہے۔

کیا ہیپاٹائٹس بی اورسی خون سے لگنے والی بیماریاں ہیں؟

ہیپاٹائٹس بی اور سی خون سے لگنے والی وہ بیماریاں ہیں جو پاکستان میں اتنی عام ہیں کہ شایدہی کسی اورخطے میں اتنی زیادہ ہوں گی۔ اس کے بڑے اسباب میں فٹ پاتھوں پربیٹھے حجام جو شیو کے لئے بلیڈ تبدیل نہیں کرتے‘ کلینکس جہاں انجیکشن کی سوئیاں دوبارہ استعمال ہوتی ہیں‘ نشہ بذریعہ انجیکشن اورچھوٹے بلڈ بینک ہیں۔ یہ محفوظ انتقال خون کا خیال نہیں رکھتے۔ بعض جگہوں پرسرجیکل اورڈینٹل آلات بھی آلودگی سے پاک نہیں ہوتے اوران امراض کا سبب بنتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس سی کی سکریننگ کے لئے بالعموم اینٹی باڈیزٹیسٹ ہوتا ہے لیکن یہ زیادہ قابل اعتماد نہیں۔ نیوکلیئرایسڈ ٹیسٹ اس کے لئے عالمی معیارکا ٹیسٹ ہے جس سے حتمی طورپرتصدیق ہوجاتی ہے۔ یہ ٹیسٹ پاکستان کے صرف تین ہسپتالوں (آغاخان، شوکت خانم اورشفا انٹرنیشل) میں ہوتا ہے۔ اکثرہسپتالوں میں چونکہ اینٹی باڈیزٹیسٹ کیا جاتا ہے لہٰذا یہ مرض بروقت سامنے نہیں آتا۔ یوں تشخیص اورعلاج میں تاخیرکے سبب یہ مرض خاموشی سے پھیلتا رہتا ہے۔ اب ہیپاٹائٹس سی کی نئی دوا بھی آگئی ہے جسے کھانے سے 90 سے 95 فی صد صورتوں میں مریض تین مہینوں میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔ یہ دوا پاکستان میں بھی دستیاب ہے۔

ہم خون کو کیسے صحت مند رکھ سکتے ہیں؟

آپ کو چاہئے کہ متوازن غذا کھائیں جس میں گوشت‘ سبزیاں‘ پھل ‘ دالیں اوردودھ وغیرہ‘ سبھی شامل ہوں۔ بد قسمتی سے ہم ’’چکن نیشن‘‘ بنتے جا رہے ہیں اورسبزیوں اورپھلوں کے قریب بھی نہیں جاتے حالانکہ ان میں ایسے منرلزاوروٹامنزہوتے ہیں جوعمومی صحت کے علاوہ خون کی صحت کو بھی بہتررکھتے ہیں۔

کچھ دیسی ادویات کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ خون صاف کرتی ہیں۔ کیا وہ واقعتاً یہ کام کرتی ہیں؟

جدید سائنس اس تصورکونہیں مانتی لہٰذا ان کے پیچھے بھاگنے کے بجائے ایسی غذائیں کھانی چاہئیں جن میں فولک ایسڈ (سبز پتوں والی سبزیاں)‘ وٹامن بی 12 (بیف‘ گوشت اوراس طرح کی دیگرچیزیں)‘آئرن (سیب‘ گوشت پالک اورکلیجی) شامل ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا لائف سٹائل کچھ ایسا ہوگیا ہے جس میں حرکت‘ جسمانی سرگرمیاں اورورزش بہت کم ہیں۔ ان سے نہ صرف صحت اچھی رہتی ہے بلکہ بیماریوں کا بھی جلد پتا چلتا رہتا ہے۔ مثلاً اگرایک شخص روزانہ دومیل واک کرتا ہے اوراب آدھا میل چلنے پرہی تھکاوٹ ہونے لگے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔ اس کے برعکس ہروقت کمپیوٹرپربیٹھے رہنے والے افراد کو اس کا علم تب ہوگا جب پانی سر سے گزر جائے گا۔ اچھی صحت کے لئے متوازن خوراک‘ جسمانی طورپرمتحرک رہنا اورضرورت پڑنے پراچھی لیبارٹری سے چیک اَپ ضروری ہیں۔

کیا خون کا عطیہ بھی خون کو صحت مند بناتا ہے؟

ہمارے ہاں لوگوں میں یہ تاثرپایا ہے کہ خون دینے سے کمزوری ہو جائے گی جو بالکل غلط ہے۔ خون کے خلیوں کی اوسط عمر 120 دن ہوتی ہے۔ یعنی ہرچوتھے ماہ بعد خون بدل جاتا ہے اورہم سال میں تین سے چار دفعہ باآسانی خون دے سکتے ہیں۔ اکثرآپریشنزاورزچگیوں میں خون کی ضرورت پڑتی ہے اوراگرلوگ خون نہیں دیں گے توکینسر‘ امراض خون اورٹرانسپلانٹ کے مریضوں کا علاج ممکن نہیں رہے گا۔خون دینا بہت بڑا صدقہ ہے لہٰذا ہمیں خون دینا چاہئے اوراس کلچرکو فروغ دینا چاہئے۔

Common blood diseases, blood donation causes weakness

Vinkmag ad

Read Previous

دانتوں کی 10عام بیماریاں

Read Next

گردوں کو صحت مند کیسے رکھیں

Leave a Reply

Most Popular