Vinkmag ad

نونہال کا پہلا سال

نونہال کا پہلا سال

وقت اپنی ڈگرپررواں ہے اورمیرا ”موَحد“ بڑھتی عمرکے ساتھ نت نئی حرکتیں کرتا میرے تجربے میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ اس کی ہرعام اورخاص حرکت میرے لئے مسرت کا باعث بنتی ہے۔ وہ اپنی عمرکے ساتویں ماہ میں ہے اورپہلے سے زیادہ متحرک اورسیانا ہوچکا ہے۔ وہ مجھے اوراپنے بابا کو پہچاننے لگا ہے۔ ہمیں دیکھ کر جب وہ ایک مخصوص مسکراہٹ اور لگاؤ کا اظہارکرتا ہے تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوتا۔ اگرچہ وہ بولتا نہیں لیکن اپنے موڈ سے پسندیدگی ناپسندیدگی کا اظہارکردیتا ہے۔ اورہاں! اس نے بولنے کی شروعات تو کرہی دی ہے۔ مجھے اس لمحے کا انتظار ہے جب وہ توتلی زبان میں مجھ سے ڈھیروں باتیں کیا کرے گا۔

کچھ دن پہلے میں ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ مجھے لگا جیسے موَحد نے بابا بولا لیکن میرے دیکھنے پروہ خاموش ہو گیا۔ دو تین دن بعد اس نے دوبارہ یہ لفظ بولا تو میں نے اس کی آوازریکارڈ کرلی اوراپنے شوہرکو سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ امی کہتی ہیں کہ بچے یوں ہی چھے ماہ کی عمرکے بعد مختلف آوازیں نکالتے ہیں۔ کوئی بابابا کہتا ہے اورکوئی دادا بولتا ہے۔

بولنے کا عمل

طاہر میڈیکل سنٹرکراچی کے ماہرامراض بچگان ڈاکٹرابراہیم یوسف کہتے ہیں

 بچے کے بولنے کا عمل موروثیت اوروالدین کے بولنے‘ دونوں پرانحصار کرتا ہے۔ عموماً12 مہینے کی عمرمیں وہ ماما اوردادا وغیرہ بولنا شروع کردیتا ہے۔ ڈیڑھ سال تک وہ دو لفظ بولنا شروع کرتا ہے۔ دو سال کی عمرمیں وہ مکمل جملے تو نہیں بولتا البتہ اپنی بات سمجھا لیتا ہے۔اسی طرح اڑھائی سے تین برس کی عمرتک وہ مکمل طورپربولنا شروع کردیتا ہے۔ جن بچوں کے پہلے سے بہن بھائی موجود ہوں‘ وہ عموماً اکلوتے بچوں کی نسبت جلدی بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ جن گھرانوں میں دادی اورنانی مادری زبان جبکہ والدین اردو یا انگلش بولتے ہیں‘ وہاں بچے دیرسے بولنا شروع کرتے ہیں۔ اس لئے کہ بچے بیک وقت جب اتنی زبانیں سنتے ہیں تو کنفیوژن کا شکارہو جاتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ کم از کم بچے سے ایک ہی زبان میں بات کریں تاکہ اسے سمجھنے اورپھربولنے میں آسانی ہو۔

ویسے توبچے کا توتلا بولنا نارمل بات ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ تاہم اگربعد میں بھی اس کی زبان صاف نہ ہوتو سپیچ تھیراپی کے ذریعے اسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ والدین اورگھر کے دیگر افراد کو چاہئے کہ وہ بچوں کے ساتھ توتلا نہ بولیں کیونکہ بچے جو سنتے ہیں وہی بولتے ہیں۔

اگر بچہ دو سال کی عمر تک بولنا شروع نہ کرے تو اسے ڈاکٹر کو چیک کرانا چاہئے‘ اس لئے کہ بعض اوقات بچے کی زبان میں کوئی مسئلہ اس کا سبب ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات اسے سپیچ تھیراپسٹ کی طرف ریفرکردیا جاتا ہے جواسے بولنا سکھانے میں مدد دیتا ہے۔ ڈاکٹرابراہیم والدین کو سپیچ تھیراپی کے ساتھ ساتھ قاعدہ پڑھانے کا بھی مشورہ دیتے ہیں کیونکہ اس میں ہرقسم کے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔

واکر‘ چلنے میں مددگار؟

بچے نو ماہ کی عمرتک گھٹنوں کے بل چلنا شروع کردیتے ہیں۔ 12 ماہ کی عمرتک وہ کھڑا ہونے کے قابل ہوجاتے ہیں اورمیزیابیڈ وغیرہ کوپکڑکرچکرکاٹتے ہیں۔ ایک سال سے 18 ماہ کی عمرتک بچہ آگے پیچھے چلتا ہے اور18 ماہ سے دوسال کی عمرتک چلنا شروع کردیتا ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم یوسف کہتے ہیں کہ بچے کے بیٹھنے، چلنے اوربولنے کی خاص عمرکی کوئی گارنٹی نہیں‘ اس لئے کہ بچوں میں اس کے اوقات اوپرنیچے ہوتے رہتے ہیں

عموماًوالدین بچے کو واکرمیں ڈال دیتے ہیں تاکہ وہ جلدی چلنا شروع کرے‘ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ واکروالا بچہ چلنے کے لئے اس پرانحصار کرنے لگتا ہے اورپھردیرسے چلتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اگربچے کو سائیکل چلانا سکھانے کے لئے اس کے اطراف میں اضافی ٹائرلگا دیئے جائیں تو وہ سائیکل چلانا جلدی نہیں سیکھتا بلکہ اس میں مزید تاخیرہو جاتی ہے۔ لہٰذا واکربچوں کے لئے فائدہ مند نہیں۔

بعض بچوں کے دیرسے چلنے کی ایک وجہ ان میں وٹامن ڈی کی کمی بھی ہوسکتی ہے جس کے سبب ان کی ہڈیاں مضبوط نہیں ہوپاتیں۔ اس کے علاوہ کچھ بیماریاں بھی بچے کے دیرسے چلنے کا سبب ہوسکتی ہیں۔ تین برس کی عمرتک بچہ نہ چلے تو یہ تشویش کی بات ہے۔

میرا بیٹا موَحد پانچ ماہ کی عمر سے ہی کوشش کرتا تھا کہ جب بھی اسے کوئی اٹھائے تو اسے اس کے پاؤں کے بل کھڑا کیا جائے۔ اس کی اس حرکت پرسب ہی خوش ہوتے تھے کہ اسے ابھی سے کھڑا ہونے کو دل چاہتا ہے۔ میرے بھائی کے سامنے جب موَحد نے یہ حرکت کی اور میں نے اسے پاؤں کے بل اپنی گود میں کھڑا کردیا تووہ بولے کہ بچے کی ہڈیاں اورجوڑکمزورہوتے ہیں‘ اس لئے وقت سے پہلے انہیں کھڑا نہیں کرنا چاہئے۔ ان کی بات میرے دل کو لگی اورمیں نے نہ صرف خود ایسا کرنا چھوڑ دیا بلکہ سب کو بھی منع کردیا۔ اس بات کی تصدیق کے لئے جب میں نے ڈاکٹرابراہیم سے پوچھا توان کا جواب بھی یہی تھا کہ بچے کو وقت سے پہلے کھڑا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ عمر کے ساتھ ساتھ خود ہی یہ سیکھ لیتا ہے۔

وزن اور قد لازمی چیک کرائیں

کچھ بچے دیکھنے میں صحت مند ہوتے ہیں پھربھی مائیں ان کے بارے میں فکرمند ہی نظرآتی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ عمربڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے وزن کا بڑھنا بھی اہم ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کے قد کے لحاظ سے وزن کا ایک چارٹ موجود ہے جواکثراوقات بچوں کے ڈاکٹرکے کمرے میں لگا ہوتا ہے۔

 بچے کا وزن پیدائش کے وقت تقریباً سوا تین کلوگرام ہوتا ہے جوتین ماہ بعد دوگنا ہوجاتا ہے۔ ایک سال کی عمرمیں بچے کا وزن تقریباً10 کلوگرام ہوتا ہے جو دوکلوگرام زیادہ یا کم بھی ہوسکتا ہے۔ ایک سال کے بعد ہرسال بچے کا وزن دوکلوگرام بڑھنا چاہئے۔ اس کے علاوہ وزن کا انحصارموروثیت پربھی ہے۔ یعنی والدین اگرکمزور ہیں توبچہ بھی کمزورہوسکتا ہے اورجن خاندانوں میں موٹاپا عام ہے‘ ان کے بچے موٹے ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح وزن کا انحصارپیدائشی وزن اورخوراک پربھی ہوتا ہے۔ اگر بچہ دوکلوگرام کا پید اہوا ہے توہم یہ امید نہیں کر سکتے کے سال بعد اس کا وزن 10 کلوگرام ہو گا۔ بچے کا وزن اورقد ہرماہ ہی چیک کرانا چاہئے۔

 میں نے محسوس کیا کہ موَحد کافی دنوں سے چڑچڑا اوربیمارہوگیا تھا۔ پہلے تو کچھ سمجھ نہ آئی لیکن جب اس کے نیچے کے نئے نئے دودانت محسوس ہوئے توبات کچھ کچھ پلے پڑنے لگی۔ میں نے سنا توتھا لیکن اب کچھ یقین سا ہوگیا ہے کہ بچے کے لئے دانت نکالنے کا مرحلہ تکلیف دہ اورسخت ہوتا ہے۔ بچوں کی باتیں اتنی ہیں کہ جتنی کی جائیں‘ کم ہی لگتی ہیں۔ اللہ انہیں ہمیشہ اپنی امان میں رکھے۔(آمین)

Newborn’s first year, weight and height measurement, walker, speaking

Vinkmag ad

Read Previous

مائیگرین کے لئے مفید غذائیں اور احتیاطیں

Read Next

ناک سے خون کی بہتی دھار

Leave a Reply

Most Popular