Vinkmag ad

یک جان دو قالب

نسل انسانی کی بقا کے لئے قدرت نے جو نظام تشکیل دیا ہے، اس کے تحت بالغ خواتین کی بیضہ دانیوں(ovaries) میں ہر ماہ صرف ایک بیضہ تیار ہوتا ہے ۔ عام طور پر ایک بیضے سے ایک ہی بچہ تشکیل پاتا ہے تاکہ ماں پوری توجہ سے اس کی پرورش کرسکے۔ اس کی چھاتیوں میں دودھ بھی اتنا ہی اترتا ہے جو ایک بچے کیلئے کافی ہو۔ تاہم کبھی کبھی قدرت معمول سے ہٹ کر بھی کام کرتی ہے اور ماﺅں کے ہاں ایک سے زائد بچے جنم لے لیتے ہیں۔ دنیا میں ایک ہی وقت میں سب سے زیادہ بچوں کی پیدائش کا ریکارڈ نو(9)ہے۔ چونکہ ماں کے رحم میں اتنے زیادہ بچے نہیں سما سکتے‘ اس لئے وہ عموماًقبل ازوقت پیدا ہو جاتے ہیں‘ ان میں پیدائشی نقائص زیادہ ہوتے ہیں اورپیدائش کے وقت ان کا وزن بھی خطرناک حد تک کم ہوتا ہے۔ایسے میں ان کے زندہ رہنے کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ اب ایسے جڑواں بچے بھی جنم لینے لگے ہیں جن کے جسم کا کوئی حصہ دوسرے بچے کے جسم سے جڑا ہوتا ہے۔اکثر یہ جڑاﺅ معمولی نوعیت کاہوتا ہے جسے آپریشن کے ذریعے الگ کیا جا سکتا ہے ۔تاہم بعض اوقات وہ آپس میںایسے جڑے ہوتے ہیں کہ انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا اور اگر یہ زبردستی کی جائے تو ان کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ایسے جڑواں جڑے (conjoined twins )بچے پیدائش کے چند ہی گھنٹوں یا دنوں میں مر جاتے ہیں اور اگر بچ جائیں توانہیں ساری زندگی ایک ساتھ جینا اور مرنا پڑتا ہے۔
دنیا میں جن جڑے جڑواں بچوں نے سب سے زیادہ شہرت پائی، وہ مئی1811ءمیں سیام (جسے آج کل تھائی لینڈ کہتے ہیں) میں پیدا ہوئے۔وہ ایک دوسرے سے سینے اور پیٹ کے اوپری حصے سے جڑے ہوئے تھے اور ان کے جگر بھی کسی حد تک ملے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام چینگ (Chang)اور دوسرے کا اینگ(Eng) تھا۔ وہ کم عمری میں ہی امریکہ چلے گئے اور ایک سرکس میں بطور عجوبہ کام کرنے کو ذریعہ معاش بنا لیا۔ لوگ دور دراز سے انہیںدیکھنے آتے۔ اس طرح ان کے پاس اتنا پیسہ جمع ہو گیا کہ وہ امریکہ کی ریاست شمالی کیرولینا میں ایک مکان خرید کر وہیں رہائش پذیر ہو گئے۔ ان کی بہت زیادہ شہرت کی وجہ سے اس طرح جڑے جڑواں بچوں کو سیامی جڑواں (siamese twins )کا نام دیا جانے لگا۔ بعد میں انہوں نے دو بہنوں سے شادی کر لی جن سے چینگ کے ہاں 11 اور اینگ کے ہاں 10بچے پیداہوئے۔
بدقسمتی سے چینگ کو شراب کی لَت لگ گئی۔ اگرچہ دونوں بھائیوں کے جگر آپس میں جڑے ہوئے تھے لیکن خوش قسمتی سے چینگ کی اس بری عادت کااثر اس کے بھائی پر نہ پڑا۔ اس کا سبب دونوں کے خونی نظام کا الگ ہونا تھا۔ایک دفعہ چینگ کو پھیپھڑوں میں سخت قسم کا انفیکشن ہوگیاجس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کو کئی دن ہسپتال میں گزارنا پڑے۔ایک اور موقع پر چینگ گاڑی سے گر گیا جس سے اسے شدید چوٹیں آئیں۔ کچھ عرصے بعد اسے فالج ہو گیا اور ایک رات نیندکی حالت میں ہی وہ جاں بحق ہو گیا۔ اگلے دن جب اینگ نے اپنے بھائی کو مردہ پایا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ اس نے ڈاکٹر کو پیغام بھیجا کہ اسے فوراً الگ کرے ورنہ وہ بھی مر جائے گا۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانا ممکن نہ تھا لہٰذا اگلے تین گھنٹوں کے دوران اس کا دم بھی نکل گیا۔ اس وقت ڈاکٹروں کی رائے یہ تھی کہ اینگ کی موت خوف کی وجہ سے ہوئی جبکہ آج کے ماہرین کے مطابق چینگ کے مرتے ہی اس کے جسم میں کچھ ایسے زہریلے مادے پیدا ہوئے (جو ایک قدرتی عمل ہے) جو تھوڑی مقدار میں ہونے کے باوجود اینگ کے لئے بھی جان لیوا ثابت ہوئے۔ اس طرح دونوں بھائیوں کا چند ہی گھنٹوں میں انتقال ہوگیا۔ ان بھائیوںکی نسل کے تقریباً 1500 افراداس وقت بھی امریکہ میں رہ رہے ہیں۔
امریکہ میں ایسے دو جڑواں بھائی بھی موجود ہیں جنہیں چینگ اور اینگ سے زیادہ طویل عمرپانے کا اعزاز حاصل ہے اور وہ اب بھی زندہ اور صحت مند ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام ڈینی( Dannie )اوردوسرے کا رونی(Ronnie) ہے۔ ان کی عمریں 63 سال سے تجاوز کر گئی ہےں اور وہ امریکی ریاست ’او ہایو‘ کے باسی ہیں۔ ان کے جسم درمیانی دھڑ یعنی پیٹ کے اردگرد سے جڑے ہوئے ہیں۔ کئی اندرونی اعضاءمشترک ہونے کی وجہ سے انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک خاص قسم کی ویل چیئر کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ آجا سکتے ہیں۔انہوں نے بھی جسم کی نمائش کو اپناذریعہ معاش بنا رکھا ہے۔
اور پھر دو بہت ہی پیاری سی بچیاں ایبی ہینسل(Abby Hensel) اور برٹنی ہینسل(Brittany Hensel) مارچ 1990ءمیں پیدا ہوئیں جن کی عمر اس وقت 25 سال ہے ۔ ان کے دو سرہیں جبکہ باقی دھڑ آپس میں ملا ہوا ہے۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی‘ دل‘ پھیپھڑے اور نظام انہضام الگ الگ ہیں۔ ان کے دو ہاتھ ‘ دو ٹانگیں اور جنسی اعضاءمشترک ہیں۔ سر چونکہ دو ہیں، لہٰذادماغ بھی دو ہیں۔ ان کے خیالات اور سوچیں الگ الگ ہیں اور وہ کھانا بھی اپنی اپنی پسند کا کھاتی ہیں۔ دونوں نے سکول اور کالج کے امتحانات کے علاوہ ڈرائیونگ ٹیسٹ بھی الگ الگ پاس کئے۔ چونکہ ان کے ہاتھ پاﺅں مشترک ہیں، لہٰذاوہ کار اکٹھی چلاتی ہیں۔ وہ فارسی کے ایک محاورے ’یک جان دو قالب‘ کی عملی مثال ہیں۔ان میں خود اعتمادی کمال کی ہے اور وہ کسی انٹرویو سے گھبراتی یا شرماتی نہیں۔ ان سے متعلق کئی سوال لوگوں کے ذہنوں میں آتے ہیں۔ مثلاً اگر ان کی شادی ہو جائے تو ان کے بچے کس ماں کے تصور ہوں گے؟ کون سا بچہ کون لے گا؟ کیا یہ جائز ہے کہ دو سگی بہنیںایک ہی لڑکے سے شادی کر لیں؟ اور یہ کہ ازدواجی تعلق کے دوران ان کی پرائیویسی کا کیا بنے گا وغیرہ وغیرہ۔ آج کل دونوں بہنیں ایک سکول میں استانیاں ہیں۔ ستمبر2014ءمیں کراچی میں بھی ایک ایسا ہی لڑکا پیدا ہوا جس کے سر دو جبکہ دھڑایک تھا۔ اس کی سانس کی نالی بھی ایک ہی تھی اور دیگر کئی اعضاءبھی پیدائشی طور پر ناقص تھے لہٰذا اگلے ہی دن اس کا انتقال ہو گیا۔
جڑواںبچوں کی پیدائش کا ایک سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا ایمبریوکسی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ اس سے ایک ایک مکمل بچہ بن جاتا ہے۔ ایسے بچوں کی شکل ایک دوسرے سے بہت ملتی جلتی ہوتی ہے اور جنس بھی یکساں ہوتی ہے۔اگر کسی وجہ سے دو بیضے یکجا ہو جائیں تو پیداشدہ بچوں کی شکل و صورت‘ خون کا گروپ اور جنس وغیرہ ضروری نہیں کہ ایک ہی ہوں۔ اس کے برعکس جڑے جڑواں بچوں کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ شاید یہ ایمبریو کی تقسیم کے بعد ایک دوسرے سے مکمل طور پرالگ نہیں ہوپاتے اورزچگی تک ایسے ہی رہتے ہیں۔ یہ قیاسی آرائی بھی کی جاتی ہے کہ ان کے ایمبریوز آغاز میں تو الگ ہوتے ہیں لیکن ان میں خاص خلئے سٹیم سیلز(stem cells) دوسرے ایمبریو کی کشش کی وجہ سے اس کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور نتیجہ جڑواں جڑے بچوں کی صورت میں نکلتاہے۔ یہ بچے قدرت کا کرشمہ ہیں، اور قدرت کی قدرت جانے!

Vinkmag ad

Read Previous

دفتروں میں سازشی کھیل کیسے نپٹیں

Read Next

ذہنی دباو‘ کیسے بچیں

Leave a Reply

Most Popular