Vinkmag ad

چُلو بھر پانی

اس نے جہاں اپنا پِک اب ٹرک روکا‘ وہاں تقریباً چار انچ گہرا پانی کا گڑھاتھا۔جب وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا تو کیچڑ کی وجہ سے اس کا پاو¿ں پھسلا اور وہ اوندھے منہ گڑھے میں گرپڑا۔ نشے کی حالت میں ایسے افراد کے پٹھے ٹھیک طرح سے کام نہیں کر پاتے ۔اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور اس کا منہ ‘ ناک اور چہرہ اس گڑھے میں ڈوب گیا۔ اس کی ہر سانس کے ساتھ کیچڑ والا پانی اس کے پھیپھڑوں میں جاتا رہا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ ریٹائرڈ سرجن ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہکی یادداشتیں
masons-falls-kinglake-victoria-winter-2013-L-RR93vl
جوزف(فرضی نام) نامی 35سالہ جوان پہلی دفعہ اس وقت میرامریض بنا جب اس کا باپ کینسر کا شکار ہو کر ہسپتال میں داخل ہوا ۔ اس کے ابو کو میں ایک اور فرضی نام” جِم“سے مخاطب کروں گا۔
جم کی عمر65سال کے لگ بھگ تھی اور تقریباًتین ماہ قبل میںنے پیٹ میںدرد کی شکایت پراس کا آپریشن کیا تھا۔ اُس وقت میراخیال تھا کہ مریض کو اپنڈی سائٹس(appendicitis)ہے لیکن آپریشن کے وقت پتہ چلا کہ اس کا سبب بڑی آنت (colon) کا کینسر ہے ۔ اگرچہ میںنے آنت کا وہ حصہ کاٹ دیا تھا جہاں پر کینسر زدہ رسولی تھی لیکن مریض نے چونکہ علاج کرانے میں کافی دیر کر دی تھی لہٰذا کینسر اس کے پیٹ اور جگر میں پھیل چکا تھا۔اب موثر علاج کا موقع ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ایسے مریض زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ پاتے۔
میں نے مریض کو اس کے بارے میں بہت کم بتایا ‘البتہ اس کی اہلیہ اور بیٹے جوزف کو پوری بات تفصیل سے بتادی۔میں نے انہیں بتایا کہ کسی معالج کے لئے مناسب نہیں کہ اپنے مریض کی موت کی
پیشین گوئی کرے تاہم بعض اوقات ایسا کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔میں نے ان سے کہا کہ بحیثیت معالج میرا اندازہ ہے کہ وہ چند ماہ سے زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے گا لہٰذا مریض کو یہ بات نہ بتائیں‘ اس کے باقی ماندہ ایام میں اس کابھرپور خیال رکھیں اور میری ہدایات پر عمل کریں۔
مریض کی جسمانی کمزوری بڑھتی جاری تھی ‘اس کی حالت خراب ہو رہی تھی اور خوراک بھی ہضم نہیں ہورہی تھی۔ میں نے اسے ڈرِپ لگانے اور درد سے نجات دلانے کے لئے ہسپتال میں داخل کرلیا تھا۔ جوزف اپنے ابو کی صحت کے حوالے سے بہت فکرمند تھا۔وہ دن کو کام پر جاتا‘ رات کو اپنے ابو کی خدمت کرتااور ہر تیسرے یا چوتھے دن نیند پوری کرنے کے لئے گھر چلا جاتا تھا۔ اس کی خالہ اسی ہسپتال میں نرس تھی اور جب اس کی ڈیوٹی ہوتی تو وہ اپنے بہنوئی کا خاص خیال رکھتی۔
اُن دنوں ایک خواب آور دوا قویلوڈ (quaalude)خاصی مقبول تھی۔دو ہندوستانی سائنسدان ملیریا کے علاج کے لئے ادویات پر تحقیقات کررہے تھے کہ اتفاقاً یہ دوااُن کے ہاتھ لگ گئی۔ 1950ءکی دہائی میں باربی چوریٹس(barbiturates)کو نیندآور دوا کے طور پر استعمال کیاجاتاتھا۔ ڈاکٹروں کو اس کے خراب نتائج کا اندازہ ہوگیاتھااور وہ قویلوڈ کو اس کا محفوظ نعم البدل خیال کر رہے تھے۔ نتیجتاًقویلوڈ کی دریافت (1955ءمیں) کے 10 سال بعد اس کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ‘ تاہم ماہرین کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ دوا بھی نشہ آور اثرات کی حامل ہے اور اسے استعمال کرنے والے افراد اس کی لت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
جوزف نے مجھ سے کہا کہ اس کی نیند پوری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ تھکاوٹ محسوس کرتا ہے‘اُس پر سستی چھائی رہتی ہے اوروہ دن بھرجماہیاںلیتارہتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کے چند دوستوں نے قویلوڈ استعمال کی ہے جس کے بعد انہیںاچھی نیند آتی ہے۔ اس نے کہا کہ اگر میں اسے ان گولیوں کا نسخہ دے دوں تو وہ بھی چین کی نیند سوسکے گا۔
مجھے اس کی درخواست پر عمل میںکوئی مضائقہ محسوس نہ ہوا۔ اُن دنوں قویلوڈکو محفوظ گولیاں سمجھاجاتاتھا تاہم میں نہیں چاہتا تھاکہ کوئی نوجوان خواب آور گولیاں روزانہ استعمال کرنا شروع کردے۔ اس لئے میں نے جوزف سے کہا کہ وہ یہ گولیاں روزانہ استعمال کرنے کی بجائے دو دن کے ناغے کے بعد کھایا کرے۔اس طرح اُسے ان گولیوں کی لَت نہیں لگے گی۔ یوں اُسے مہینے میں 10گولیوں کی ضرورت پڑنا تھی۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ اگر اس کا ابواس دنیا سے رخصت ہو گیا تو اسے مزید گولیوں کا نسخہ نہیں ملے گا۔ اس نے میری بات مان لی اور یوں وہ معاہدے کے مطابق مجھ سے نسخے لیتا رہا۔ امریکہ میں یہ دوا ڈاکٹری نسخے کے بغیر میڈیکل سٹور سے نہیں لی جاسکتی۔
جوزف بڑی محبت اور محنت سے اپنے ابو کی خدمت کرتا اوراپنے کام پر بھی باقاعدگی سے جاتا۔ اس دوران وہ مجھ سے معاہدے کے مطابق قویلوڈ کے نسخے باقاعدگی سے لیتا رہا۔وہ کبھی کبھار مجھ سے کہتا کہ اگر یہ گولیاں نہ ہوتیں تو وہ خود بھی کب کا بیمار ہوچکاہوتا۔ اس نے ایک ماہ مجھ سے دونسخے یہ کہہ کر لئے کہ وہ کہیں گم ہوگئے ہیں۔جوزف جس جانفشانی سے اپنے والد کی خدمت کر رہا تھا میں اس سے بہت متاثر تھا اور مجھے اس کے کردار پر بھی کوئی شبہ نہ تھا۔اس کے باوجود میں نے اُسے تنبیہ کی کہ وہ آئندہ نسخہ گم نہ کرے۔
اور پھراس کا والد جم انتقال کرگیا۔اس وقت تک ساڑھے پانچ ماہ بیت چکے تھے۔ مرتے وقت اس کا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا ۔میں نے اس کی تدفین میں شرکت کی اور اس کی اہلیہ اورجوزف کے علاوہ اس کے دیگر رشتہ داروں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ جنازے کے دوران ہی جوزف نے مجھے قویلوڈ کا نسخہ دینے کی درخواست کی۔ اب اُس کا ابو وفات پاچکاتھالیکن غم کے مارے جوزف کو نیند نہیں آرہی تھی۔ میں نے اسے پانچ گولیوں کا ایک اور نسخہ دے دیا اور نصیحت کی کہ وہ اب ان کااستعمال چھوڑدے ۔اس نے مجھے یقین دہانی کرائی کہ وہ چند ہی دنوں کے بعد ان کا استعمال ترک کردے گا۔
جنازے کے ایک ہی ہفتے کے اندر میں نے جیسپر کے مقامی اخبار” ڈیلی ماونٹین ایگل“ میں” انتقال پُر ملال“ والے کالم میں جوزف کا نام دیکھا تو مجھے حیرت اور صدمہ ہوا۔ اس کی خالہ(نرس) سے فون کر کے جوزف کے انتقال کا سبب پوچھا تو اُس نے بتایا کہ وہ پانی کے ایک گڑھے میں ڈوب گیاتھا۔میں جوزف کی رسم تدفین میں بھی شریک ہوا لیکن اس وقت تک پولیس رپورٹ تیار نہ ہوئی تھی۔
تقریباً دوہفتے بعد مجھے اس کی خالہ نے فون کر کے بتایا کہ پولیس تحقیقات کے مطابق جوزف نشہ آور ادویات کا استعمال کرنے لگا تھا۔مجھے بعد میں پتہ چلاکہ وہ مجھ سے مہینے بھر کی 10گولیاں لینے کے علاوہ دواورڈاکٹروں سے بھی نسخے حاصل کرتا رہاتھا۔ایسے افراد اکثر قویلوڈکے ساتھ شراب کا استعمال بھی کرتے ہیں جس سے ان کا جسم سُن ہوجاتاہے اور انہیں زیادہ لطف آتا ہے۔
پولیس رپورٹ کے مطابق جس رات جوزف کی جان گئی‘ اس رات وہ قویلوڈ کے نشے میں تھا اور شایداس نے شراب بھی پی رکھی تھی۔ اس رات خاصی بارش ہوئی جس کی وجہ سے مختلف جگہوں پرپانی کے گڑھے بن گئے۔ جوزف نے جہاں اپنا پک اپ ٹرک روکا‘ وہاں تقریباً چار انچ گہرا پانی کا گڑھاتھا۔جب وہ ٹرک کا دروازہ کھول کر باہر نکلا توکیچڑ کی وجہ سے اس کا پاﺅں پھسلا اور وہ اوندھے منہ اس گڑھے میں گرپڑا۔ نشے کی حالت میں ایسے افراد کے پٹھے ٹھیک طرح سے کام نہیں کر پاتے۔ جوزف کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور اس کا منہ ‘ ناک اور چہرہ اس گڑھے میں ڈوب گیا۔ اس کی ہر سانس کے ساتھ کیچڑ والا پانی اس کے پھیپھڑوں میں جاتا رہا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ یعنی وہ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر گیا۔
مغربی ممالک اور امریکہ میں قویلوڈکا بطور نشہ آور دوا استعمال بڑھا تو اس کے بنانے اور استعمال کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ منشیات کا استعمال بہت خطرناک ہے جو فرد کی صحت اور جان کو خطرے میں ڈال دیتاہے۔ نہ جانے کتنے خوبصورت نوجوان اس کے ہاتھوں اپنی زندگی اور صحت برباد کر بیٹھتے ہیں۔منشیات کے استعمال سے نہ صرف خود بچنا چاہئے بلکہ اپنے بچوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے تاکہ وہ نادانی میں اس کے چنگل میں نہ پھنس جائیں۔کبھی اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ آپ کا بچہ ایسا نہیں کر سکتا۔
اتنے چھوٹے گڑھے میں ڈوب کر مرنے کے واقعات کم ہی دیکھنے یا سننے میں آتے ہیں تاہم گھروں میں پانی کے ٹبوں میں ننھے بچوں کے ڈوبنے کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔مائیں بچوں کو ربڑ کے کھلونے دے کر پانی میں ہاتھ مارنے کے لئے چھوڑ دیتی ہیں ۔ چھوٹے بچے بعض اوقات اپنا توازن کھو کر اوندھے منہ ٹب میں گر جاتے ہیں۔ اگرچہ ٹب میں پانی کم ہوتاہے لیکن بہت چھوٹے بچے چونکہ خود نہیں اُٹھ سکتے لہٰذا ان کے ڈوبنے کے لئے یہ کافی ہوتا ہے۔ اس لئے ننھے بچوں کوکبھی نگرانی کے بغیر ٹب کے پاس اکیلا نہ رہنے دیں۔بعض دفعہ بڑے بچے اپنے چھوٹے بہن یابھائی کو پانی میں دھکیل کر ڈبو سکتے ہیں۔لہٰذا اس معاملے میںبہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

ذہنی دباﺅ‘ کیسے نمٹیں

Read Next

سرد یاں اور صحت…احتیاط کریں‘ لطف اٹھائیں

Most Popular