سرد یاں اور صحت…احتیاط کریں‘ لطف اٹھائیں

سردیوں کی آمد آمد ہے اوریہ وہ موسم ہے جو بہت سے لوگوں کو بہار سے بھی زیادہ پسند ہوتا ہے۔یہ خوبصورت موسم اپنے ساتھ صحت کے کچھ مسائل بھی لاتا ہے۔ تاہم تھوڑی سی احتیاط کر لی جائے تو ان مسائل سے نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ موسم سرما سے بھرپور طور پر لطف اندوز بھی ہوا جاسکتا ہے۔ ماہرین سے آراءکی روشنی میں فریحہ فضل کی معلوماتی تحریر

دھند میں ڈوبی صبحیں ‘اداس شامیں‘ ٹھٹھرتی راتیں‘ گرم اونی کپڑے‘ انگیٹھی میں سلگتے کوئلے اور کافی کا مگ…‘ سب کچھ بہت طلسماتی سا لگتا ہے‘ مگر صرف اس وقت تک جب تک آپ کا بچہ اپنی بہتی ناک کے ساتھ آپ تک نہ پہنچے اور آتے ہی روتی آواز میں نہ کہے: ”ماما!نوزی آرہی ہے۔“ایسے میں یہ طلسم،”طلسم ِہوشربا“ بن جاتا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ سردیوں کا موسم اپنے ساتھ صرف کافی اور ڈرائی فروٹس جیسے مزے ہی نہیں‘ بیماریوں کا دعوت نامہ بھی لاتا ہے۔ خصوصاً بچوں کو ان کے حملے سے بچانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کم از کم ہمارے گھر میں توایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک بچہ بیماری سے پوری طرح نکلتا نہیں کہ دوسرا اس میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ یوں سردیاں ختم ہوجاتی ہیں لیکن یہ چکر ختم ہونے میں نہیں آتا۔ اپنے بچوں کی بیماریوں کے چکر کے ساتھ میں توخود چکرا کر رہ جاتی ہوں۔

اس دفعہ سوچا کہ سردموسم شروع ہونے سے پہلے ہی کسی معالج سے ملاقات کی جائے ۔میں ماہرامراض ِاطفال ڈاکٹر عبدالواحد مرزا سے ملی جو اسلام آباد میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ میں نے ان سے سرد موسم اور بیماریوں کے ساتھ ان کے تعلق پر سوال کیا تو وہ کہنے لگے:
”سردیوں میں بیرونی درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے جس کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں ہمارے جسم کو وقت لگتا ہے۔ اس عرصے میں کچھ خاص وائرس زیادہ فعال ہوجاتے ہیں ۔بیماریوں کے خلاف بچوں کا مدافعتی نظام چونکہ ابھی زیر تکمیل ہوتا ہے لہٰذا وہ طاقتور نہیں ہوتا۔ایسے میں بچے ان جراثیم کا باآسانی شکار ہو کر کسی نہ کسی انفیکشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ “

عام زکام اور وبائی زکام
ڈاکٹر مرزا کہتے ہیں کہ بچوں کو سردیوں میں جو مسائل زیادہ پیش آتے ہیں‘ ان میں عام زکام (common cold) سرفہرست ہے۔اس کی علامات میں معمولی بخار‘ گلے کی خرابی اور چھینکیں وغیرہ شامل ہیں۔ تھوڑی سی احتیاط اورپانی زیادہ پینے سے یہ تکلیف7 سے 10 دنوں میں دوا لئے بغیر ہی دورہو جاتی ہے۔ اس موسم میں سیلائن کے قطرے (saline drops) گھر میں رکھیں اوربوقت ضرورت بچوں کو استعمال کرائیں۔
ننھے بچے ناک صاف کرواتے وقت بہت زیادہ روتے ہیں۔ ایسے میںروئی پر تھوڑی سی گلیسرین لگا کر اس سے ناک صاف کیا جائے تو درد نہیں ہوتا۔ یہ ٹوٹکا ہماری اماں ہم پر آزمایا کرتی تھیں جو کافی کارآمد ثابت ہوتا تھا اوراب میںاسے بچوں پر استعمال کرتی ہوں۔
ڈاکٹرمرزا کے بقول دوسری اہم بیماری وبائی زکام یا انفلوئنزا (Influenza) ہے۔ اس کی علامات کم و بیش عام زکام جیسی ہی ہوتی ہیں مگرقدرے شدت سے نمودار ہوتی ہیں۔ اس میں کھانسی‘ گلا خراب‘ تیز بخار‘ سر درد‘ اعصابی کھچاﺅ اور جسمانی درد کم از کم پانچ دن تک رہ سکتا ہے۔ اس کا باقاعدہ علاج ضروری ہے‘ ورنہ یہ بگڑ کر نمونیاکی راہ ہموار کر سکتا ہے ۔
جب ہم چھوٹے تھے تو نانی جان ہماری چھوٹی موٹی تکالیف کا علاج گھر پر ہی اپنے ٹوٹکوں سے کر دیتی تھیں ۔کھانسی کی صورت میں وہ بڑے مزے کا ایک آمیزہ بناتیں۔ وہ اس کے لئے بادام‘ شہد‘ تھوڑی سی کالی مرچ اور ملٹھی استعمال کرتیں۔اس کے لئے وہ بادام اور ملٹھی کو پیس کر چٹکی بھر کالی مرچ اور شہد میں ملا دیتیں ۔ کھانسی کی صورت میں اس طرح تیار کردہ دوا دن میں پانچ سے چھ بار چٹاتیںاور مسئلہ حل ہوجاتا۔کھانسی کی صورت میںیہ آمیزہ اپنے بچوں کو بھی دیتی ہوں ۔

دمہ‘ ٹوٹکا اچھا مگر
دمہ (asthma) ایک اور ایسی بیماری ہے جو سردیوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اگر اپنے گھر کی بات کروں تو خود میں اور میری بڑی بیٹی عروہ موسم بہار میں اور سردیوں کے آغاز پر اس کا اکثر شکار ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرا دمہ بہت دیر سے تشخیص ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری اماں اسے موسمی زکام سمجھتیں اورجب بھی سانس میں دقت ہوتی‘ وہ تیز گرم پانی میں دو چمچ شہد ڈال کر پلادیتیں۔ اس سے وقتی طور پر افاقہ ہو جاتا مگریہ باقاعدہ علاج کا متبادل نہ تھا۔ اس لئے اگر کسی گھریلو نسخے سے آرام نہ آ رہاہوتو وقت ضائع کرنے کی بجائے فوراً باقاعدہ معالج سے علاج کروانا چاہئے ۔
علاج کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے ماحول اور اشیاء( مثلاً دھول مٹی‘ دھواں‘ پرفیومز‘ فلو اور انفیکشن وغیرہ) سے بچنے کی کوشش کی جائے جواس تکلیف دہ کیفیت کو بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتی ہیں ۔ہر بچے میں اس کی علامات اور شدت مختلف ہوتی ہے۔

گال پر تھپڑ
گال پر تھپڑ(slapped cheek syndrome)
وائرس سے لگنے والی ایسی بیماری ہے جو4 سے 10 سال کی عمر کے بچوں میں ہوتی ہے لیکن تین سال تک کے بچوں میں زیادہ عام ہے۔ اس میں بچوں کے گالوں پر سرخ رنگ کے دھپڑ( rashes) پڑ جاتے ہیں جس سے بظاہر یوں لگتا ہے جیسے کسی نے انہیں تھپڑ مارا ہو۔ چہرے پر دھپڑوں کے ساتھ معمولی نوعیت کا بخار‘ ناک بہنا ‘ سرمیں درد‘ معدے کی خرابی اور جسمانی درد اس کی علامات ہیں۔یہ بیماری بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور وقت کے ساتھ خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔اس سے چھٹکارے کے لئے اینٹی بائیوٹکس دی جاتی ہیں۔

کانوں کا انفیکشن
سردیوں میں لاحق ہونے والی بیماریوں میں ایک کان کا انفیکشن بھی ہے جو بخار کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ یہ وائرل بھی ہو سکتا ہے اور بیکٹیریل بھی۔ اس کی ایک وجہ بچوں کے مدافعتی نظام کا مکمل طور پرتشکیل نہ پانا اور دوسرا بچوں کے کانوں کی نالیوں کا بالغوں کے کانوں کی نسبت چھوٹا ہونا ہے۔ اس لئے وہ انفیکشن کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سے بچاﺅ کے لئے بچے کو دھوئیں اورگرد و غبار سے دور رکھیں۔ ابتدائی عمر میں بچے کو ماں کا دودھ پلانے سے بچے کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بیماریوں اور انفیکشن سے نسبتاً زیادہ محفوط رہ سکتا ہے۔ اگر بچہ بہت بے چین اور چڑچڑا ہو‘ مستقلاً رو رہا ہو‘ پرسکون نیند نہ سوئے اور کانوں کو کھینچے تو یہ کان میں تکلیف کی علامات ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاج کا انحصار تکلیف کی شدت اور نوعیت پر ہوتا ہے۔ عموماً ڈاکٹر حضرات اس کیلئے دردکشا ادویات تجویز کرتے ہیں۔

 جلد پر خارش
ڈاکٹر خورشید کے مطابق ایگزیماeczema))ایک ایسی جِلدی بیماری ہے جو سردیاں بڑھنے کے ساتھ بڑھ جاتی ہے۔ اس میں جلد چھلکے دار(scaly) ‘خارش زدہ یا دھپڑ( rashes) والی ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ صابن‘ واشنگ پاﺅڈر یا کسی لوشن سے بھی ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ناریل کے تیل یا ایلوویرا جیل کا استعمال کافی سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ شدید حالات میں ڈاکٹر ادویات بھی تجویز کرتے ہیں۔اس موسم میں بچے کو نہلانے کے بعد موئسچرائزر ضرور لگائیں۔ خارش سے بچنے کے لئے کیلا مائن) (calamine لوشن کا استعمال کافی فائدہ دیتا ہے‘ تاہم اگر کسی کو اس سے الرجی ہو تو وہ اسے استعمال نہ کرے۔
ڈاکٹر عبدالواحد کہتے ہیں کہ تقریباً 200 ایسے انفیکشنز ہیں جو سردی کے باعث ہو سکتے ہیں۔کچھ احتیاطی تدابیر اپنا کر ہم بچوں کو بہت سے انفیکشنز سے بچا سکتے ہیں۔ سردیوں کے جراثیم کی عمر تقریباً 48 گھنٹے تک ہو سکتی ہے لہٰذا اس موسم میں زیادحتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ جراثیم کھلونوں‘ دروازوں کے ہینڈل اور دیگر روزمرہ اشیاءپر موجود ہو سکتے ہیں لہٰذا ہاتھوں کی صفائی کا خصوصی خیال ضروری ہے۔ والدین کو چاہئے کہ بچے کو ہاتھ دھونے کی عادت ضرور ڈالیں‘ ان کے کمبل اورتولیے علیحدہ رکھیں اور انہیں گرم پانی سے دھوئیں۔ اگر ہاتھ دھلے ہوئے نہ ہوں تو انہیںآنکھوں اور منہ پر ہرگز نہ لگائیں اور ڈسپوزیبل ٹشوز استعمال کریں۔
زیادہ تر موسمی بیماریاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں لیکن علامات کی شدت میں ڈاکٹر سے رابطہ ضروری ہوتا ہے۔ ان ہدایات پر عمل کر کے آپ سردیوں سے لطف اٹھاسکتے ہیں۔
پھر بتائیے، کیا سوچا آپ نے؟ طلسماتی موسم سرما سے لطف اٹھانا ہے یا پھر اس کے ”طلسم ہوشربا“ بننے کا انتظار کرنا ہے ۔ میں نے تو سوچ لیا ہے کہ تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کروں گی، اس لئے کہ یہ موسم مجھے بہت پسند ہے اور میں نہیں چاہتی کہ بچوں کی یااپنی بیماری کی وجہ سے اس خوبصورت موسم کا مزا کرکرا ہو۔ آپ بھی ایسا ہی کیجئے گا۔

Vinkmag ad

Read Previous

چُلو بھر پانی

Read Next

آنکھ کی سستی

Most Popular