Vinkmag ad

پیدائش میں وقفہ کیوں ضروی ہے اور کیوں نہیں دیا جاتا

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ بہت سے مسائل وابستہ ہیں۔ بالعموم اس کے معاشی اور معاشرتی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تاہم اس کا ایک اہم پہلو ماں اور اس دنیا میں آنے والے بچے کی صحت بھی ہے۔

پیدائش میں کتنا وقفہ ضروری ہے

شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر تسنیم اختر کہتی ہیں کہ خواتین کو بچوں کی پیدائش میں دو سے تین سال کا وقفہ تجویز کیا جاتا ہے۔ مدت کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ یہ سلسلہ کس عمر میں شروع ہو رہا ہے اور خاتون کو کتنے بچے پیدا کرنے ہیں۔ مثلاً اگر اسے دو سے تین بچے پیدا کرنے ہوں اور 24 سال کی عمر میں یہ سلسلہ شروع ہو تو پانچ سال کا وقفہ بھی ٹھیک ہےـ

پیدائش میں وقفے کی ایمیت پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حمل کے دوران خواتین کئی طرح کی غذائی کمی کی شکار ہو جاتی ہیں۔ انہیں پورا کرنے اور صحت مند بچے کو جنم دینے کے لئے انہیں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ اس دوران ان کی جسمانی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔ مزیدبرآں بھی اس مرحلے سے گزر جاتا ہے جہاں اسے ماں کی بہت زیادہ توجہ چاہئے ہوتی ہے۔ لہٰذا اب وہ اگلے حمل کا سوچ سکتی ہیں۔

پیدائش میں وقفہ نہ ہونے کے نقصانات

ڈاکٹر تسنیم کہتی ہیں کہ اگر وقفہ نہ دیا جائے تو ماں میں خون کی کمی اور بلڈ پریشر کے مسائل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ انہیں ڈلیوری کے وقت مشکلات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ اکثر کیسز میں نارمل زچگی کے بجائے سی سیکشن کرنا پڑتا ہے۔ جب ماں پوری طرح سے صحت مند نہ ہو تو بچے بھی کمزور پیدا ہوتے ہیں۔

آسٹریلیا میں پریکٹس کرنے والے سائیکالوجسٹ ڈاکٹر عدیل ارشد نے بتایا کہ دوران حمل ہارمونز کی سطح میں غیر معمولی تبدیلیاں خواتین میں جسمانی اور ذہنی تناؤ کا سبب بنتی ہیں۔ پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہونے کی صورت میں ان میں پوسٹ نیٹل ڈپریشن، پوسٹ پارٹم سائیکوسس اور دیگر نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے جن کا اثر بچے پر بھی پڑتا ہے:

ماں کے پاس بچے کی دیکھ بھال کے لئے کوئی سہارا نہ ہو اور اسے آرام کرنے کا وقت بھی نہ ملے تو وہ ڈپریشن کا شکار ہوسکتی ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اندر بچے سے لگاؤ ہی پیدا نہ ہو سکے۔ ایسے میں بچہ جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے، اسے لگتا ہے کہ ماں کے ہوتے ہوئے بھی وہ اکیلا ہے۔ اس سے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے اور اس کی شخصیت کی نشوونما مثبت طور پر نہیں ہوتی۔

پیدائش میں وقفے سے جڑے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اس سے متعلق آگاہی پھیلائی جائے۔ یہ سلسلہ یونیورسٹیوں سے شروع کیا جاسکتا ہے اورسوشل میڈیا پر بھی اس سے متعلق آگاہی مہم چلائی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹروں کو بھی چاہئے کہ وہ اس حوالے سے شادی شدہ جوڑوں کی راہنمائی کریں۔

پاکستان میں شرح پیدائش زیادہ کیوں ہے

سے پوچھا گیا کہ سرکاری سطح پر بھرپور مہمات کے باوجود ہمارے ہاں شرح پیدائش زیادہ کیوں ہے۔ اس سوال کے جواب میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ بشریات (Anthropology) کے سابق چیئر مین اور اس شعبے کے معروف ماہر پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے کئی طرح کے معاشرتی، معاشی ، مذہبی اور تہذیبی عوامل کارفرما ہیں۔ ایک اہم عامل تعلیم بھی ہے۔  پیدائش میں وقفے کا تصور ان طبقوں میں زیادہ عام ہے جہاں اعلیٰ تعلیم اور آگاہی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اس تصور کو سمجھتی ہیں تو وہ احتیاط کرتی ہیں ورنہ نہیں۔ ان کے مطابق دیگر عوامل یہ ہیں:

چھوٹی عمر میں شادیاں

چھٹی عمر میں شادیاں-شفانیوز

امور نسواں سے متعلق ماہرین صحت کہتے ہیں کہ خواتین میں حمل ٹھہرنے کی مناسب عمر 24 سے 35 سال ہے۔ دوسری طرف عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ہر سال 15 سے 19 سال کی عمر کی تقریباً 21 ملین لڑکیاں حاملہ ہوتی ہیں۔ ان میں سے تقریباً 12 ملین بچوں کو جنم بھی دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ شرح دیہی علاقوں میں زیادہ ہے۔ وہاں یہ کلچر ہے کہ جونہی بچیاں بالغ ہوتی ہیں، ان کی فوراً شادی کر دی جاتی ہے۔ اس میں بڑا کردار روایات اور مذہبی تصورات کابھی ہے۔

چھوٹی عمرمیں شادی کرنے والے بچے بچیاں نہیں جانتے کہ فیملی سائز کتنا ہونا چاہئے۔ نہ تو کوئی ان کی توجہ اس طرف دلاتا ہے اور نہ ہی وہ خود اس سے جڑے عوامل اور مسائل پر غور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں بچوں کی تعداد بغیر کسی وقفے کے بڑھتی جاتی ہے۔

ڈاکٹر تسنیم کہتی ہیں کہ چھوٹی عمر میں شادی ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ بچیوں کا خاندان میں وہ مقام نہیں بن پاتا جو ایک سمجھدار یا پختہ عمر کی خاتون کا ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی ترجیحات کو اہمیت نہیں دی جاتی اور ان میں خود بھی یہ فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی کہ انہیں پیدائش میں وقفہ دینا ہے ۔

مانع حمل طریقوں سے متعلق غلط تصورات

مانع حمل طریقے-شفانیوز

ڈاکٹر تسنیم کہتی ہیں کہ پیدائش میں وقفہ نہ ہونے کی ایک بڑی اور اہم وجہ مانع حمل طریقوں سے متعلق غلط تصورات ہیں۔ خواتین کی اچھی خاصی تعداد نہ جانے کیوں یہ سمجھتی ہے کہ ان سے ہمیشہ کے لئے بچوں کی پیدائش رک جائے گی۔ ان کے سائیڈ افیکٹس سے متعلق بھی لوگوں میں خدشات ہیں۔ مثلاً آئی یو سی ڈی حمل کو عارضی طور پر روکنے والا ایک آلہ ہے جسے خواتین کے یوٹرس میں رکھا جاتا ہے۔ اس سے متعلق گمان کیا جاتا ہے کہ یہ اپنی جگہ سے نکل کر کہیں اور چلا جائے گا، اس کی وجہ سے غیر معمولی طور پر زیادہ خون بہے گا یا وزن بڑھے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ مانع حمل طریقوں کا استعمال مذہبی یا اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔ یہ آگاہی پھیلانا ضروری ہے کہ ان طریقوں کا مقصد بچوں کی پیدائش بند کرنا نہیں بلکہ حمل کو پلان کرنا ہے۔

حمل سے پہلے، ڈلیوری کے بعد کاؤنسلنگ

ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت صحت کو اپنی ترجیحات میں بہت نیچے رکھتی ہے اور لوگ ڈاکٹر کے پاس تبھی جاتے ہیں جب اس کے سوا چارہ نہ ہو۔ یہاں حمل سے پہلے معمول کے چیک اَپ کروانے یا ڈاکٹر سے رابطے میں رہنے کا رحجان نہیں۔ ڈاکٹر تسنیم کہتی ہیں کہ ڈلیوری کے بعد ڈاکٹروں کو میاں بیوی کے ساتھ ایک سیشن رکھنا چاہئے تاکہ پیدائش میں وقفے سے متعلق ان کی کاؤنسلنگ کی جاسکے ۔بہت سی جگہوں پر ایسا کیا بھی جاتا ہے لیکن لوگ اسے اہمیت نہیں دیتے۔

زیادہ بچے, آمدنی کا ذریعہ

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس زیادہ وسائل ہوتے ہیں، ان کے ہاں بچے کم ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جہاں وسائل کم ہوتے ہیں وہاں بچے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ 1976میں دولت کے بہاؤ(Wealth Flow)کے نام سے ایک نظریہ پیش کیا گیا۔ اس کے مطابق جن گھرانوں یا معاشروں میں بچے کمائی کا ذریعہ بنتے ہیں، ان کے ہاں بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس صورتوں میں بچوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔

اس کی وضاحت میں انہوں نے کہا کہ کہ کھیتی باڑی سے منسلک گھرانوں میں اس لئے زیادہ بچے پیدا کیے جاتے ہیں کیونکہ انہیں کام کے لئے زیادہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر وہ چھوٹی عمر سے ہی کام میں لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح بھیک مانگنے والے طبقے کو دیکھیں تو ان کے گھر کا چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی کماکر لاتا ہے۔ مزدور طبقے میں بھی گھر کا ہرفرد، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، کہیں نہ کہیں محنت کرکے کمائی کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں پیدائش میں وقفے کا تصور نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جہاں بچوں کی تعلیم، پہننے اوڑھنے، کھانے پینے اور دیگر اخراجات پر زیادہ سرمایہ خرچ کرنا ہوتا ہے وہاں بچوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔

توقعات پر پورا اترنے کا دباؤ

ہرکمیونٹی میں ایک مخصوص فیملی سائز طے ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں زیادہ بچوں کا تصور ہے، اس لئے اس معیار پرپورا اترنے یا ا س کے قریب تر پہنچنے کے لئے پیدائش میں وقفے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ کہتے ہیں کہ یہاں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان خواتین کو سب سے اونچا مقام دیا جاتا ہے جن کے ہاں زیادہ بیٹے ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ زیادہ بیٹے پیدا کرنے کی کوشش میں وقفہ نہیں دیتیں۔ مزید برآں یہاں جب شادیاں ہوتی ہیں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ گھر میں دوسرے بھائی کے کتنے بچے ہیں۔ اگر وہ زیادہ ہوں تو پھر مقابلہ شروع ہو جاتا ہے اور وقفہ نہیں رکھا جاتا۔

بریسٹ فیڈنگ کے رحجان میں کمی

بریسٹ فیڈنگ اگر مکمل طور پر کی جائے تو اس عمل سے قدرتی طور پر پیدائش میں وقفہ آجاتا ہے۔ جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں، ان کے ہاں یہ وقفہ کم ہوتا ہے۔ بریسٹ فیڈنگ کے رحجان میں کمی بھی اس کا ایک سبب ہے۔ ایسا نہ کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً بعض خواتین کے لئے ملازمت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح کچھ اپنی باڈی شیپ خراب نہیں کرنا چاہتیں، اس لئے وہ فارمولا ملک کو ترجیح دیتی ہیں۔

مذہبی تصورات

پیدائش میں وقفہ نہ دینے میں مذہبی تصورات کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ایسی تعلیمات کا حوالہ دیا جاتا ہے جن میں بچوں کی زیادہ پیدائش کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں لہٰذا آج کے دور میں امت کی محض تعداد میں اضافہ یا بھیڑ اکٹھی کرنا مقصود نہیں بلکہ ایسے قابل افراد کی تعداد میں اضافہ مطلوب ہے جو اس کی بہتری اور ترقی کا باعث بن سکیں۔ بہت سے علمائے کرام کی جانب سے بھی حمل روکنے کے طریقوں کو ناجائز قرار دیا جاتا ہے۔ چونکہ معاشرے میں ان کا ایک اثر ہے لہٰذا ان کے ساتھ اس معاملے کے دیگر پہلوؤں پر گفتگو کا اہتمام ہونا چاہئے۔

خواتین کا پاؤں جمانا‘مردوں کی مردانگی

ہمارے ہاں مائیں اور دیگر خواتین لڑکیوں کے دماغ میں یہ بات بٹھا دیتی ہیں کہ جب تک اولاد بالخصوص بیٹا نہیں ہوتا تب تک ان کا رشتہ خطرے میں ہے۔ میاں دوسری شادی کے بارے میں ضرور سوچے گا۔ ایسے میں وہ اپنے پاؤں جمانے کے لئے جلد از جلد ماں بالخصوص بیٹے کی ماں بننے کی کوشش میں ہوتی ہیں۔ اسی طرح کچھ عرصہ تک کسی مرد کے ہاں بچہ نہ ہو تو اس کی’’مردانگی‘‘ پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ اس لئے وہ بچہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پھر اگر بیٹیاں ہو رہی ہیں تو بیٹے کی کوشش میں ایک کے بعد دوسرے بچے کی پیدائش ہوتی چلی جاتی ہے۔

پیدائش میں وقفہ نہ دینے کی وجہ جو بھی ہو، ہمارے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صحت مند بچوں کو جنم دینے اور ان کی اچھی پرورش کے لئے ماں کا صحت مند ہونا اور اس کے پاس ہر بچے کے لئے مناسب وقت ہونا ضروری ہے۔ اگر وقفے کے بغیر یکے بعد دیگرے بچے پیدا ہوں گے تو نہ صرف ماں بلکہ بچوں کی صحت بھی متاثر ہوگی،اس لئے فیصلہ آپ کا ہے !

birth spacing, gap between pregnancies, why is gap between pregnancies necessary, causes of growing population in pakistan,why do people avoid birth spacing, contraceptives misconception, early marriages, bachon ki paidaish mai waqfa kyun nahe diya jata, health, shifa news, womenhealth

Vinkmag ad

Read Previous

Shingles

Read Next

آٹو امیون ڈیزیزز

Leave a Reply

Most Popular