Vinkmag ad

پینے کا پانی کتنا صاف, کتنا محفوظ؟

اگست 2017 کے آخری ہفتے میں ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ نے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ اس کے مطابق پاکستان کا 70 فی صد زیر زمین پانی سنکھیا (arsenic) سے آلودہ ہے۔ سنکھیا ایک سرمئی عنصر ہے جس میں دھاتی چمک پائی جاتی ہے اور اس سے زہریلے مرکبات بنائے جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 1200 سے زیادہ جگہوں سے لئے گئے نمونوں میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے جنوبی علاقوں میں اس کی مقدار 200 مائیکرو گرام فی لیٹر پائی گئی ہے۔ ڈبلیو ایچ اوکی گائیڈ لائنز کے مطابق ایک لٹر پانی میں اس کی مقدار 10 مائیکرو گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔

پاکستان میں بحیثیت مجموعی 50 سے 60 ملین افراد پینے کے لئے زیر زمین پانی استعمال کرتے ہیں جس میں رپورٹ کے مطابق اوسطاً 50 مائیکرو گرام فی لیٹر آرسینک موجود ہے۔ یوں یہ مقدار بھی ڈبلیو ایچ او کی مقررہ مقدار سے پانچ گنا زیادہ ہے۔

پانی زندگی کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی سیارے پر زندگی کے آثار ڈھونڈنے ہوں تو سب سے پہلے وہاں پانی تلاش کیا جاتا ہے۔ ہمارے جسم کا 70 فی صد حصہ اسی پر مشتمل ہے اور یہ حقیقت ہے کہ غذا کے بغیر انسان کئی ہفتے زندہ رہ سکتا ہے مگر پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔

پانی کی مدد سے ہمارے مختلف اعضاء زندہ اور فعال جبکہ نظام روبہ عمل رہتے ہیں۔ اسی لئے ماہرین صحت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں پانی سے اپنے جسم کو مستقلاً لبریز رکھنا چاہئے۔ اگرچہ جسم کو درکار پانی کی مقدار کئی عوامل پر منحصر ہوتی ہے لیکن پھر بھی اوسطاً 8 سے 10 گلاس پانی روزانہ پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پانی کی صرف مقدار ہی نہیں‘ اس کا نقصان دہ عناصر سے پاک اور پینے کے لئے محفوظ ہونا بھی ضروری ہے۔

پانی کی اقسام

پانی میں آلودگی کی مختلف اقسام ہیں جن کا تعلق ان ذرائع سے بھی ہے جن سے یہ حاصل ہوتا ہے۔ ذرائع کے اعتبار سے پانی کی دو بڑی اقسام زیرِ زمین پانی اور بالائے زمین پانی ہیں۔

زیر زمین پانی

کنوئیں، بورنگ اور چشموں سے ملنے والے پانی کو زیرزمین پانی کہاجاتا ہے۔ یہ پانی زمین کو کھود کر حاصل کیا جاتا ہے یا زمین سے پھوٹتا ہے۔ اس پانی میں کچھ معدنی اجزاء زیادہ مقدار میں پائے جائیں تو اسے مضرصحت بنا دیتے ہیں۔ ایسے ہی معدنی اجزاء میں سے ایک سنکھیا بھی ہے۔ یہ کم گہرے پانی میں موجود ہونے کی وجہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔

زیرزمین پانی بالعموم جراثیم کی آلودگیوں سے پاک ہوتا ہے کیونکہ وہ وہاں تک نہیں پہنچ پاتے جہاں سے یہ حاصل ہوتا ہے۔ تاہم آج کل زیر زمین پانی میں بھی جراثیم پائے جانے لگے ہیں جس کا سبب اس میں گندے پانی کی لائنوں کا مل جانا ہے۔

بالائے زمین پانی

جھیلوں ‘دریاؤں‘ ڈیموں‘ ندی نالوں اور بارش سے حاصل ہونے والے پانی کو بالائے زمین پانی کہا جاتا ہے۔ یہ پانی نیچے سے نہیں پھوٹتا بلکہ اوپر سے زمین کی سطح پر آتا ہے۔ یہ زمین پر دستیاب مجموعی پانی کا محض تین فی صد ہے۔ یہ مختلف اقسام کی آلودگیوں کی براہ راست زد میں رہتا ہے۔ ان میں زرعی دواؤں، کیمیائی کھادوں، تیل، جانوروں اور پرندوں کا فضلہ شامل ہے۔

فضامیں موجود گندھک، پارہ، ڈائی آکسین(dioxin) اور نائٹروجن آکسائیڈ کے ذرات بھی اس پانی کو آلودہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ گھروں‘ دفتروں اور کارخانوں کا استعمال شدہ پانی بھی جھیلوں اور دریاؤں میں گر کر اس کی آلودگی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں متعدد جراثیم بھی پائے جاتے ہیں۔

بالائے زمین اور زیر زمین آلودہ پانی سے کون سی بیماریاں ہو سکتی ہیں؟

بالائے زمین اور زیر زمین آلودہ پانی کے استعمال سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بارے میں بتاتے ہوئے میو ہسپتال لاہور کے ماہر امراض معدہ اور جگر ڈاکٹر عدیل قمر  کہتے ہیں کہ بالائے زمین پانی میں زیادہ ترجراثیم پائے جاتے ہیں جن میں وائرس، بیکٹیریا اور طفیلئے(parasite) شامل ہیں۔

یہ جراثیم مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں فوڈ پوائزننگ‘ گیسٹروانٹرائٹس‘ ٹائیفائیڈ اورپیراٹائیفائیڈ بخار شامل ہیں۔ مزیدبرآں آرسینک ملاپانی مسلسل استعمال کرنے سے جلد کی بیماریاں، پھیپھڑوں کا کینسر اور دل کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔

پانی کی ٹیسٹنگ

صدیوں پرانی کہاوت ”پرہیز علاج سے بہتر ہے“ نہ صرف آج بھی قابل عمل ہے بلکہ پہلے کی نسبت آج اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کی بیماریاں زیادہ پیچیدہ جبکہ ان کا علاج زیادہ مہنگا اور غیریقینی ہے۔ ہمارے ہاں متعدی امراض کا بڑا سبب پینے کا غیرمحفوظ پانی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ گھروں اورسپلائی کے پانی کا لیبارٹری ٹیسٹ کرا لیا جائے۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز کے تحت ملک بھرکے 23 مراکز میں پانی کی ٹیسٹنگ کی سہولیات دستیاب ہیں لیکن بدقسمتی سے ان میں سے زیادہ تر غیر فعال ہیں۔ فعال مراکز زیادہ تر بڑے شہروں میں ہیں جن میں لاہور‘ کراچی‘ پشاور‘ گلگت اور اسلام آباد شامل ہیں۔ شفانیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کونسل کی ڈائریکٹرجنرل لبنٰی ناہید بخاری نے کہا:

ہماری فعال لیبارٹریوں میں پانی کی ہر طرح کی آلودگی کو ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ٹیسٹ کے لئے پانی کی دو بوتلیں جمع کروانا ہوتی ہیں جن میں سے ایک عام اور دوسری جراثیم سے پاک (sterilized) ہوتی ہے۔ اس ٹیسٹ میں پانی میں موجود جراثیم اور کیمیائی آلودگیوں‘ دونوں کا پتا لگایا جاتا ہے۔ اس پرتقریباً 3000روپے خرچ آتے ہیں جبکہ اس کا نتیجہ تقریباً 36 گھنٹوں کے بعد فراہم کر دیا جاتا ہے۔

پینے کے پانی کو کیسے محفوظ بنائیں

پینے کے لئے محفوظ پانی کہاں سے حاصل کیا جائے اور اسے کیسے محفوظ بنایاجائے؟ اس پر لبنٰی ناہید بخاری کہتی ہیں:

سب سے پہلے اپنے علاقے میں پینے کے محفوظ پانی کے ذرائع تلاش کیجئے۔ اگر سارا علاقہ ہی آلودہ پانی کی زد میں ہے تو اپنے علاقے کی یونین کونسل سے مطالبہ کریں کہ وہ گہری کھدائی کر کے پینے کا صاف پانی مہیا کرے۔ اس کا دوسرا طریقہ اسے ابال کر پینا ہے۔

تیز آنچ پر ابالنا

پینے کے پانی کو ابالنے کے بارے میں بھی ابہام پایاجاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اسے کب تک ابالا جائے؟ کیا پانی کے بخارات نظر آنے پرچولہا بند کردیا جائے یا اسے مکمل ابلنے دیا جائے، اور یہ بھی کہ اسے کتنی دیر تک ابالا جائے۔ اس پر لبنیٰ ناہید کہتی ہیں:

بالائے زمین پانی کو محفوظ بنانے کے لئے اسے ایک منٹ تک تیز آگ پر ابالیں اور پھر 20 سے 30 منٹ تک دھیمی آنچ پر ابلنے دیں۔ اس کے بعد ٹھنڈا کر کے اسے استعمال کریں۔ پانی میں ریت اور مٹی کی صورت میں اسے قابل استعمال بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ ابالنے سے قبل اس میں تھوڑی سی پھٹکری پیس کر ڈال دیں۔ یہ مٹی اور ریت کے ذرات کو اپنے ساتھ لے کر برتن کی تہہ میں بیٹھ جائے گی۔اب سطح پر موجود صاف پانی کسی دوسرے برتن میں نتھار کر ابال لیں۔

کلورین کا استعمال

ڈاکٹر عدیل قمر کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پانی سے لگنے والی 90 فی صد بیماریوں کا آسان اور شافی علاج پانی کو ابال کر استعمال کرنا ہے۔ تاہم کلورین کا استعمال بھی بالائے زمین پانی کی آلودگیوں کو پاک کرنے کا بہتر، سستا اور آسان طریقہ ہے۔ کلورین ملے پانی کا ویسے تو کوئی نقصان نہیں البتٰہ معدے میں تیزابیت اور گیسٹروانٹرائٹس کے مریضوں کے لئے یہ ناموافق ہو سکتا ہے۔ اس پانی کا ذائقہ ذرا کڑوا ہوتا ہے جو بعض لوگوں کو پسند نہیں آتا۔

چھان لیں

لبنیٰ ناہید بخاری کے مطابق پانی کو سنکھیا سے پاک کرنے کے لئے پانی کو فوارے کی طرح اچھال کر یا لوہے کے ٹکڑوں یا کیلوں پر سے گزار کر چھانا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ نہ تو آسان ہے اور نہ اتنا یقینی کہ ہرطرح کی آلودگی ختم کر سکے۔ اس کا ایک ہی حل بچتا ہے اور وہ یہ کہ حکومت اس کے لئے مخصوص فلٹر لگوانے کا اہتمام کرے۔

پینے کے لئے محفوظ پانی کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کے لئے ہر سال 22 مارچ کو ”واٹر ڈے“ منایا جاتا ہے۔ اس سال عالمی یوم پانی کا مرکزی خیال یہ تھا کہ پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے لہٰذا نہ صرف صاف پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے بلکہ مختلف کاموں میں استعمال شدہ پانی کو بھی دوبارہ صاف کر کے قابل استعمال بنایا جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اپنے زیر استعمال پانی کی ٹیسٹنگ ضرور کروانی چاہئے۔ اس پر کچھ لاگت ضرور آتی ہے لیکن یہ اس لاگت کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے جو بیمار ہونے پر ہمیں ادا کرنی پڑتی ہے۔ تیسری اور آخری بات یہ کہ پانی ابال کر پینے کو عادت بنایا جائے۔

safe drinking water, access to drinking water, drinking water contamination in pakistan, water purification methods, effective ways to purify drinking water

Vinkmag ad

Read Previous

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

Read Next

الرجی: مدافعتی نظام کی غیرضروری پھرتیاں

Most Popular