Vinkmag ad

الرجی: مدافعتی نظام کی غیرضروری پھرتیاں

آسان لفظوں میں بتائیے کہ الرجی کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں ایک خاص نظام تشکیل دے رکھا ہے جو حملہ آور جراثیم کے خلاف ہمارے جسم کی حفاظت کرتا ہے ۔الرجی کے مریضوں میں یہ مدافعتی نظام ضرورت سے زیادہ شدت کے ساتھ متحرک ہوجاتا ہے ۔مثال کے طور پر ہماری فضاءمیں گرد کے خوردبینی کیڑے (dust mites)‘پھپھوندی (fungus) کے نباتاتی تولیدی خلئے (spores) اور مردہ حشرات الارض کے جسمانی اعضاءسمیت دیگر بہت سی چیزیں موجود ہوتی ہیں اور جب ہم سانس لیتے ہیں تو ان کی کچھ نہ کچھ مقدار ہمارے پھیپھڑوں میں چلی جاتی ہے ۔ انہیں ہوا میں پائے جانے والے الرجنز (aeroallergen)کہا جاتا ہے۔ ان چیزوںکے پھیپھڑوں میں جانے پر اکثر لوگوں کا جسم فوراً شدیدردعمل ظاہر نہیں کرتا لیکن جن لوگوں کو ان میں موجود کسی چیز سے الرجی ہو‘ ان کا مدافعتی نظام غیرمعمولی شدت سے حرکت میں آ جاتا ہے ۔

٭یہ ردعمل کس طرح کا ہوتا ہے ؟
٭٭اگرہوائی الرجنز آنکھوں میں پڑیں گے تو وہ سرخ ہوجائیں گی‘ ان میں خارش ہوگی اور ان میں سے پانی بھی آئے گا۔ اگر یہ ناک میں داخل ہوں گے تو متاثرہ فرد کو بہت زیادہ چھینکیں آئیں گی اور اس میںسے بھی پانی بہنے لگے گا۔ ایسے میں ناک بند ہو سکتی ہے اور گلے میں ریشہ بھی گرسکتا ہے۔ اسے میڈیسن کی زبان میں الرجی کی وجہ سے نتھنوں کی سوزش (allergic rhinitis) کہا جاتا ہے۔ اگر صورت حال مسلسل برقرار رہے تو یہ الرجی کے دمہ (allergic asthema) میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ ایسے میں مریض کو کھانسی ہوتی ہے‘ سانس لیتے وقت سیٹی کی آواز آتی ہے اور سانس گھٹتا ہوا محسوس ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر بچوں میں الرجی جلد پر خارش کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے جو بعد کی زندگی میں دمے کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اس بیماری کو الرجی کی وجہ سے جلد کی سوزش( allergic dermatitis)کہتے ہیں۔

٭کیا الرجنز صرف ہوا میں پائے جاتے ہیں ؟
٭٭وہ سانس کے علاوہ دیگر کئی راستوں سے بھی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ منہ کے راستے معدے میں پہنچ جاتے ہیں۔ اگر وہ کھانے پینے کی چیزوں میں شامل ہوں تو انہیں فوڈ الرجنز اور دواﺅں میں ہوں تو ڈرگ الرجنز کہا جاتا ہے ۔ یہ جسم کے جس حصے میں پہنچتے ہیں‘ مدافعتی نظام کاردعمل بھی اسی کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً اگر وہ پھیپھڑوں میں پہنچیں تو ردعمل چھینکوں اور کھانسی کی صورت میں ظاہرہوگا۔ اگر وہ معدے میں داخل ہوجائیں توردعمل زود حسیانہ (anaphylaxis) صورت میں سامنے آ سکتا ہے جو بہت شدیدہوتا ہے۔ اس کی علامات میں سانس میں رکاوٹ ‘ جسم پر ریشز(rashes) ظاہر ہونا اور ہونٹوں‘ گلے‘ زبان اور آنکھوں کا سوج جانا شامل ہیں۔ اگر ایسے مریض کو فوری طور پر طبی امداد نہ ملے تو اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ الرجی کی ایک قسم وہ بھی ہے جو کیڑوں کے کاٹے سے ہوتی ہے۔ بھڑ کے ڈنگ میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو زودحسیانہ ردعمل کا باعث بن سکتی ہیں۔

٭ کیابھڑ کا کاٹا جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے؟
٭٭بھڑ کا کاٹاغیرمعمولی بات نہیں۔یہ بہت سے لوگوں کو کاٹتی رہتی ہیں لیکن اس کی وجہ سے انہیں سوجن یا خارش کے علاوہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتاالبتہ جن لوگوں کو اس سے الرجی ہو‘ ان میں اس کا ردعمل زودحسیانہ ہو سکتا ہے اور ان کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

٭کچھ خواتین کوجیولری سے بھی الرجی ہوجاتی ہے۔ یہ اس کی کون سی قسم ہے ؟
٭٭اسے چھوجانے کی وجہ سے جلدکی سوزش (contact dermatitis)کہا جاتا ہے جو بالعموم نکل (nickel) دھات سے بنے یادیگر مصنوعی زیورات سے ہو تی ہے۔ جیولری کے علاوہ کچھ لوگوں کو کپڑے دھونے والے صابن یا واشنگ پاﺅڈر سے بھی الرجی ہوتی ہے۔ اس سے جسم پر ریشز(rashes) بن جاتے ہیں اور خارش ہوتی ہے ۔

٭ہمارامدافعتی نظام غیرمعمولی ردعمل کیوںظاہر کرتا ہے؟
٭٭ اس میں دو چیزیں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں جن میں سے پہلا موروثیت اور دوسرا ماحول ہے ۔ ہمیں بہت سی خصوصیات اوربیماریاں اپنے والدین یا آباﺅاجداد سے ورثے میں بھی ملتی ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ الرجی کے اکثر مریضوں کے خونی رشتوں میں الرجی کی بیماریاں مشترک ہوتی ہےں۔ اس کا دوسرا تعلق ماحول سے ہے جو الرجی کو متحرک کردیتا ہے۔ فرض کریں کہ ایک شخص کی جینز کسی خاص الرجن کے خلاف غیر معمولی ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔ اگر وہ ایسے ماحول میں رہتا ہے جہاں وہ الرجن موجود ہی نہیں تو اس میں اس الرجی کی علامات کبھی ظاہر نہیں ہوں گی لیکن وہ جونہی ایسے ماحول میں جائے گا جہاں وہ الرجن موجود ہے تو اسے اس کی وجہ سے مسائل پیش آنا شروع ہوجائیں گے۔مثال کے طور پر ایک شخص کوکسی خاص پولن سے الرجی ہے۔ وہ مخصوص مہینوں میں جونہی اسلام آباد آئے گا تو اسے الرجی ہو جائے گی۔ کچھ لوگوں کو ایک سے زیادہ الرجیزبھی ہوتی ہیں۔اگر اسے کسی دوسرے ماحول میں اس سے ملتا جلتا الرجن ملے گا تو بھی اسے الرجی ہو جائے گی جسے الرجنز کا ”کراس ری ایکشن “ کہا جاتا ہے ۔ماحول میں سگریٹ کا دھواں‘ عام دھواں اور فلو کے وائرس موجود ہوتے ہیں جو خراش آور (irritants) کہلاتے ہیں۔ یہ بھی الرجنز کو متحرک کردیتے ہیں۔

٭انفیکشن اور الرجی میں کیا فرق ہے؟
٭٭الرجنز بنیادی طور پر پروٹینز ہیں جو جاندار نہیں ہوتیں۔ اس کے برعکس جراثیم مثلاً بیکٹیریا‘ وائرس اور پھپھوندی جانداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ انفیکشن انہی جاندار جراثیم کی وجہ سے ہوتا ہے اورہر انفیکشن کا علاج مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً بیکٹیریل انفیکشن کا علاج اینٹی بائیوٹکس سے کیا جاتا ہے جو وائرل انفیکشن میں موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ وائرل انفیکشن سے بچاﺅ کا موثر طریقہ ویکسی نیشن ہے لیکن یہ ہوجائے توپھرہر انفیکشن کا علاج اس کی اپنی دواﺅں سے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح فنگس کی وجہ سے انفیکشن کا علاج اینٹی فنگل دواﺅں سے کیا جاتا ہے۔ انفیکشن اور الرجی کی علامات بظاہر ملتی جلتی ہیں لیکن ان میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر وائرل انفیکشن کی صورت میں چھینکوں اور ناک سے پانی آنے کے علاوہ بخار بھی ہوتا ہے جبکہ الرجی کی صورت میں کبھی بخار نہیں ہوتا۔ انفیکشن اور الرجی‘ دونوں صورتوں میں ریشہ بنتا ہے لیکن بیکٹیریل انفیکشن کا ریشہ گھنا اور زردی یا سبزی مائل جبکہ الرجی کاپتلا اور صاف ہوتا ہے ۔ بیکٹیریل انفیکشن کی صورت میں گلے میں درد ہوتا ہے جبکہ الرجی کی صورت میںایسا نہیں ہوتا۔

٭کیا الرجی کا تعلق موسم کے ساتھ بھی ہے؟
٭٭موسم کے ساتھ مختلف طرح کے الرجنز متحرک ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم سال کا آغاز سردیوں کے موسم سے کریں تواس میں بالعموم وائرل انفیکشن زیادہ عام ہے جو ناک اور گلے کو متاثر کرتا ہے۔ اگر الرجی کے مریض کو اس کی وجہ سے نزلہ زکام ہو جائے تو اس کے اثرات بہت برے ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ اس کا دمہ بھی متحرک ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردیوں کا موسم شروع ہونے سے پہلے الرجی کے مریضوں کو فلو کی ویکسی نیشن کرائی جاتی ہے۔ سردیوں کے بعد فروری اور مارچ میں بہار کا موسم شروع ہوجاتاہے۔ یہ پولن الرجی کا سیزن ہے اور اگر آپ اسلام آباد میں ہیں تو یہ آپ کو بری طرح سے متاثر کر سکتا ہے‘ اس لئے کہ وہاں ملبری کی مختلف اقسام کے درخت بہت زیادہ ہیں ۔یہ مسئلہ اگرچہ لاہور میں بھی ہے لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں اور اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ اس کے بعد اپریل اور مئی گندم کی کٹائی کا موسم ہے جس میں گندم کی گرد فضا میں معلق رہتی ہے اور ہوا کے ساتھ 10سے 15کلومیٹر تک باآسانی جا سکتی ہے۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں اس ماحول میں سارا سال کچھ نہیں ہوتا لیکن ان دنوں ان کی الرجی بگڑ جاتی ہے۔ جون اورجولائی میں گزشتہ چند سالوں سے رمضان المبارک میں لوگوں کی بڑی تعداد عمرے پر جاتی ہے اورسعودی عرب میں فلو کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہاں ہر خطے‘ ملک اور قوم کے لوگ آتے ہیں لہٰذا وہاں کافلو وائرس بھی کوئی عام نہیں‘ انٹرنیشنل وائرس ہوتا ہے۔عمرے کے بعد زائرین جب پاکستان آتے ہیں تو اپنے ساتھ مختلف طرح کے وائرس لے کر آتے ہیں۔ جولائی سے ستمبرکے مہینوں میں ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے گھروں کے اندر نم جگہوں مثلاً غسل خانوں ، کپڑے دھونے کی جگہوں اور کمروں میں سبزیا کالے رنگ کی کائی نظر آتی ہے۔ اس موسم میں بھی الرجی کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ اکتوبراور نومبر چاولوں کی چھَڑائی (harvesting)کا موسم ہے لہٰذا جن علاقوں میں چاول کاشت ہوتا ہے‘ ان میں لوگ اس کی الرجی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
٭اگر انفیکشن اور الرجی دو مختلف چیزیں ہیں تو سردیوں سے قبل فلو کی ویکسی نیشن کیوںتجویز کی جاتی ہے؟
٭٭ فلو الرجی کو متحرک اور پیچیدہ کردیتا ہے۔ اگر ہم مریض کو وائرس سے بچا لیں تو الرجی کو باربار متحرک ہونے اور فلو سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بھی بچا پائیں گے ۔

٭الرجی کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟
٭٭ اس کی تشخیص علامات کی بنیاد پر کی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر الرجی کا مریض اگر بچہ ہے تو اس کی علامات اس کی جلد پرظاہر ہوںگی جسے ”الرجک ڈرماٹائٹس“ کہتے ہیں۔ یہ خاص طرح کے ریشز ہیں جو کہنیوں کے آگے‘ گھٹنوں کے پیچھے‘ گرد ن کے پاس‘ کانوں کے پیچھے اور اس طرح کی دیگرجگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ یہ ریشز خشک بھی ہو سکتے ہیں اور ایسے بھی جن سے پانی رستا رہتا ہے جسے الرجک ڈرماٹائٹس) (allergic dermatitisکہا جاتا ہے۔ جب مریض ہمارے پاس آتا ہے تو ہم سب سے پہلے اس کی مکمل ہسٹری لیتے ہیں جس کے بعد اس کا جسمانی معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ اسے الرجی ہے یا نہیں۔ اگر الرجی نہ ہو تو اسے متعلقہ سپیشلسٹ کے پاس ریفر کر دیا جاتا ہے اور اگر الرجی ہو تو اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ 12سال سے کم عمر بچوں میں الرجی کی ٹیسٹنگ نہیں کی جاتی جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مدافعتی نظام اتنامستحکم(stable) نہیں ہوتالہٰذا ان میں نئی نئی الرجیز سامنے آتی رہتی ہیں۔چونکہ ہمارے ہاں الرجی سپیشلسٹ کم ہیں لہٰذا لوگ اس کی تشخیص اور علاج کے لئے سکن سپیشلسٹ‘ پلمونالوجسٹ اور ای این ٹی سپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں جو اپنے اپنے انداز سے علاج کرتے رہتے ہیں جو بعض اوقات نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔مثلاًای این ٹی سپیشلسٹ بعض اوقات ایسے مریضوں کی ناک کا آپریشن کردیتے ہیں یا ٹانسلز نکال دیتے ہیں۔ ناک کے پچھلے حصے میں موجود غدود اور ٹانسلز ہمارے مدافعتی نظام کا اہم حصہ ہیں اور جب انہیں ہٹا دیا جاتا ہے تو مریض کو دمہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے الرجی کی تشخیص اور علاج کے لئے اپنے اردگردکسی اچھے الرجی سپیشلسٹ کو تلاش کریں۔

٭کیاالرجی کا علاج ممکن ہے یااس کے ساتھ گزارہ کرنا پڑتا ہے؟
٭٭الرجی کے مریض کو سب سے پہلا مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس خاص الرجن سے دور رہے جس سے اس کو الرجی ہے۔ ڈرگ الرجی اور فوڈ الرجی کی صورت میں تو اس سے بچنا بہت حد تک ممکن ہے لیکن سانس کی الرجی میں اکثرایسا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے میں دوسرا مرحلہ علاج ہے جو ہر مریض میں اس کی شدت، مرض کی تاریخ اور علامات کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔ اسے سب سے پہلے ایسی ادویات دی جاتی ہیں جن کے ذریعے اسے تکلیف دینے والی علامات ختم ہوجائیں اور چھینکیں آنا اور ناک بہنا وغیرہ بند ہو جائے۔ الرجی کی صورت میں علاج کا بڑا مقصد اس کی کوالٹی آف لائف کو بہتر بناناہوتا ہے ۔ایک فرد کو پڑھنا بھی ہے‘ اس کی سوشل لائف بھی ہے اور اس نے کام کاج بھی کرناہوتا ہے۔ اگر علامات برقرار رہیں تو وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتا جبکہ ان کے دور ہونے سے اس کی زندگی بہتر ہوجاتی ہے۔کچھ مریضوں کو الرجی ٹیسٹنگ کی ضرورت ہو تی ہے ۔ان کے لئے ویکسین بھی تیار کی جاتی ہے جو انجیکشن کی صورت میں ہوتی ہے۔ اگر مریض اسے باقاعدگی سے لگوا لے توتقریباً70فی صد صورتوں میں اس کی علامات ختم ہوجاتی ہیں تاہم اس بات کاامکان ہوتا ہے کہ 10سے 15سال بعد وہ دوبارہ لوٹ آئیں ۔ ایسے میں دوبارہ علاج کی ضرورت پڑتی ہے ۔اس علاج کا مقصد مدافعتی نظام کو اس بات پر تیار کرنا ہوتا ہے کہ وہ الرجنز کو بیرونی دشمن سمجھنا چھوڑ دے اور ان کے خلاف غیرمعمولی ردعمل بند کر دے۔

٭پاکستان میںکون سی الرجیز زیادہ عام ہیں؟
٭٭اگرچہ پاکستان میں الرجی میپنگ نہیں ہوئی لیکن میری ایک ریسرچ (جو لاہورکی بنیاد پر تھی)کے مطابق ہمارے ہاں سب سے عام الرجی ڈسٹ مائٹ کی ہے۔ اس کے علاوہ گندم کی گرد اور پھپھوندی کی متحرک کردہ الرجی بھی کافی عام ہے۔

٭آخر میںکوئی اور بات جو آپ شفانیوز کے قارئین سے کہنا چاہیں؟
٭٭ہوا میں پائے جانے والے الرجنز ہر وقت فضا میں معلق رہتے ہیں جو ناک اور گلے کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہو سکتے ہیںلہٰذا ان اعضاءکو صاف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لئے کچھ زیادہ نہیں‘صرف نمک اورپانی کی ضرورت ہے جو ہر فرد کو باآسانی دستیاب ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ایک گلاس نیم گرم پانی لیں۔ نیم گرم سے مراد یہ ہے کہ اگر آپ اس میں انگلی ڈبوئیں تو وہ آپ کو گرم نہ لگے ۔اس پانی میںچائے کا ایک چوتھائی چمچ سادہ نمک(آئیوڈین والا نہیں) ڈال کر بغیر سوئی کے خالی انجیکشن میں بھرلیں۔ بالغ حضرات 10سی سی‘ 12 سال سے کم بچے پانچ سی سی جبکہ چھوٹے تین سی سی والی سرنج استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد آپ بیسن کے سامنے کھڑے ہوکر آگے کی طرف جھکیں اور سر کودائیں یا بائیں طرف ہلکا سا ٹیڑھا کریں۔ اب انجیکشن کے ذریعے نمک ملا پانی بہت آہستہ آہستہ ناک میں ڈالیں۔ اگر آپ اسے ٹھیک طرح سے کریں تو پانی ایک نتھنے سے گزر کر دوسرے سے باہر آ جاتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اب ناک کواچھی طرح صاف کریںاور جو پانی بچے‘ اس سے غرارے کر لیں۔ اس کے علاوہ زیتون کا تیل یا پٹرولیم جیلی انگلی پر لگاکر نتھنوں کی اندرونی سطح پر لگا دیں۔ اس سے گردوغبار اور الرجنز اس سے چپک جائیں گے اور ناک کو دوہرا تحفظ مل جائے گا۔

Vinkmag ad

Read Previous

پینے کا پانی کتنا صاف, کتنا محفوظ؟

Read Next

تذبذب

Most Popular