Vinkmag ad

منے کی تصوراتی ڈائری: جب میں پہلی بار رویا

محمدزاہد ایوبی
میرا گھرپانی سے بھری (amniotic fluid)ایک چھوٹی سی تھیلی پر مشتمل تھاجہاں میں بڑے مزے اورسکون سے رہ رہاتھا۔یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک چھوٹی سی جنت تھی جہاں سونے اور ہاتھ پائوں چلانے کے علاوہ میرا کوئی کام نہیں تھا۔مجھے کھانے کے لئے نہ ہاتھ بڑھانے پڑتے اور نہ منہ چلانا پڑتا بلکہ وہ خود بخود میرے پیٹ میں پہنچ جاتا۔ میری ناف کے ساتھ ایک ناڑ (umbilical cord) لگی ہوئی تھی جس کا دوسرا سرا میری ماں کے آنول (placenta)کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ اسی ناڑ کے ذریعے مجھے کھاناملتااور جوپاخانہ میں کرتا‘ وہ بھی اسی کے ذریعے باہرخارج ہو جاتا ہے یعنی مجھے واش روم جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی ۔ میرے سینے میں یوں تو دو ننھے ننھے پھیپھڑے موجودتھے لیکن ان کے اندر پانی بھرا رہتا تھا۔وہ ابھی اتنے پختہ نہیں ہوئے تھے کہ سانس کے لئے استعمال ہو سکیں ۔ویسے بھی میرے ارد گرد پانی کی موجودگی میں انہیں استعمال کرنا ممکن نہ تھا لہٰذا مجھے آکسیجن بھی اسی ناڑو کے ذریعے ملتی تھی۔یوں سمجھ لیں کہ مزے ہی مزے تھے۔
ایک رات میں مزے سے لیٹا چھت کو گھور رہاتھا کہ اچانک مجھے یوں لگا جیسے میرے اردگرد کا پانی خشک ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ میرے پھیپھڑوں میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ آہستہ آہستہ سکڑنا اور پھیلنا شروع ہوگئے ۔اس کے ساتھ ہی نہ جانے کیا ہوا کہ میرا سر نیچے اور پائوں اوپر کی طرف ہوگیا۔ مجھے جھٹکے لگنا شروع ہوگئے اور ہر جھٹکے کے ساتھ میں نیچے کی طرف حرکت کرنے لگا۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے ۔ کافی دیر تک یہی کچھ ہوتا رہا ، اور پھر اچانک کسی کے ہاتھوں نے مجھے سنبھال لیا۔میں ایک نئی دنیا میں تھا۔ میرے ارد گرد بہت سی آنٹیاں تھیں جنہوں نے سفید رنگ کے کپڑے اور گائون کپڑے پہن رکھے تھے۔ان کے سروں پر سبز رنگ کی ٹوپیاں اور منہ پر ماسک لگے تھے۔

یہ ساری صورت حال میرے لئے بالکل نئی تھی۔میں بہت تھکا اور کسی حد تک ڈرا ہوا بھی تھا ۔جانے کیوں میرے اندر پھوٹ پھوٹ کر رونے کی خواہش پیدا ہو رہی تھی لیکن مجھ سے رویا نہیں جا رہا تھا۔ سب نظریں مجھ پرجمی تھیں جس کی وجہ سے میں مزید گھبرا گیا۔
’’مبارک ہو! بیٹا ہوا ہے…‘‘ سفید کپڑوں والی ایک آنٹی نے بستر پر لیٹی ایک خاتون سے کہا جس کے چہرے پریہ الفاظ سنتے ہی ایک دلفریب سی مسکراہٹ پھیل گئی۔اس کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ میں اسے پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا لیکن اسے ہزار عورتوں میں بھی پہچان سکتا تھا۔ وہ میری ماں تھی۔
میں ابھی اس منظر سے پوری طرح لطف اندوز بھی نہ ہو پایا تھا کہ ایک آنٹی نے مجھے اس سے لے لیا۔ میری ماں اچانک بجھ سی گئی۔ ’’میرا بچہ رویا نہیں…؟‘‘یہ کہہ کر انہوں نے رونا شروع کر دیا۔
مجھے اس بات کی منطق سمجھ نہ آئی ۔ وہ میری ماں تھی، دنیا بھر میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ۔میرا خیال تھا کہ وہ میرا رونا کبھی برداشت ہی نہ کر پائے گی لیکن وہ تو اس بات پر رو رہی تھی کہ میں رو کیوں نہیں رہا۔

ایک آنٹی نے میری جلد پر تولئے سے آہستہ آۃستہ مَلنا شروع کردیا۔ میں تو مچھلی کی طرح پانی میں رہنے والی مخلوق تھااور میری جلد بہت ہی نرم تھی لہٰذاتولئے کی رگڑ بھی میرے لئے تکلیف دہ تھی ۔ اب میں درد کی وجہ سے رونا چاہتا تھا لیکن میرے منہ سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ اچانک ایک اورآنٹی نے مجھے ٹانگوں سے پکڑ کر الٹا لٹکالیااور میرے کولہوں پر تھپتھپانا شروع کر دیا۔یہ میرے لئے ایک نئی مصیبت تھی ۔ اسی اثناء میں ایک باوقار سی خاتون کمرے میں داخل ہوئی۔
’’سسٹرز!یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ انہوں نے بلند آواز میں پکارا۔
’’ڈاکٹر صاحبہ! یہ رو نہیں رہا۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحبہ ! یہ رو نہیں رہا…‘‘ ایک آنٹی نے مجھے اٹھایا اور ایک اور خاتون کے پاس لے گئی ۔
میں دل کھول کر رونا چاہتا تھا تاکہ سب کو ٹھنڈ پڑے لیکن مجھے ایسے لگا جیسے میرے پھیپھڑوں ‘نتھنوں ‘ سانس کی نالی حتیٰ کہ منہ میں بھی بچا کھچا پانی یا تھوک وغیرہ جمع ہو۔ میری ساری کوشش رائیگاں گئی۔
’’جلدی سے سَکشن پمپ (suction tube) لائو۔‘‘ ایک آنٹی ٹیوب جیسی کوئی چیزلائیں جسے میرے منہ اور ناک سے لگایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی میرا گلا صاف ہو گیا۔ پہلے میرے منہ سے ہلکی سے غرغراہٹ نکلی جس کے بعد میں نے رونا شروع کر دیا۔ہر کوشش کے ساتھ میری آواز پہلے سے بلند ہوتی گئی ‘ اس لئے کہ میرے پھیپھڑے اب زیادہ طاقت سے پھیل اور سکڑ رہے تھے۔ جونہی میں نے رونا شروع کیا‘ سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی ، گویا سب کے سینوں میں ٹھنڈ پڑ گئی ہو۔
اب پھر مجھے میری ماں کے پاس لایا گیا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میں بھی اداس ہو گیا۔ ابھی میں جس صورت حال سے گزرا تھا‘ اسے یاد کر کے میں نے پھر رونا شروع کر دیا۔
’’لو‘ خوش ہو جائو۔رو دیا آپ کا بچہ…‘‘ جس کو سسٹر کہا گیا تھا‘ اس آنٹی نے مجھے میری ماں کے حوالے کر دیا۔ ماں روتی بھی جاتی اور خوشی سے مجھے بوسے بھی دیتی جاتی۔مجھے اس بات کی سمجھ نہ آئی کہ میرے رونے سے ماں کو خوشی کیوں ہوئی ۔اچانک ایک اور خاتون کمرے میں داخل ہوئیں:
’’مبارک ہوبیٹا، ماں بننے پر…‘‘ انہوں نے میری ماں کو گلے لگایا، پھر مجھے اٹھا کر چوما: ’’ دیکھو تو، اپنے پاپا پر گیا ہے ۔‘‘ میری ماں یہ جملہ سن کر ہنس پڑیں۔ وہ خاتون پھر بولیں:’’کہتے ہیں کہ عورت تب مکمل ہوتی ہے جب وہ ماں بنتی ہے۔ آج تم مکمل ہوگئی ہو۔‘‘
’’ بہت شکریہ! آپ بھی تو دادی بن گئیں… میں بہت خوش ہوں۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ مجھے آج زندگی کی سب سے بڑی خوشی ملی ہے۔ میں تو ڈر ہی گئی تھی جب اس کے رونے کی آواز نہیں آئی۔جب اسے روتے سنا ہے‘ تب تسلی ہوئی ہے۔ ‘‘ میں بھی ان کا اطمینان بھرا چہرہ دیکھ کر خوش ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور خاتون داخل ہوئیں جنہیں میری نانی کہہ کر پکارا گیا۔ انہوں نے بھی مجھے خوب بوسے دئیے اور بولیں:
’’بچے کی پیدائش واحد موقع ہے جب ماں کو اپنے بچے کے رونے پر خوشی ہوتی ہے ۔‘‘ اتنے میں وہ خاتون بھی آ گئیں جنہیں سسٹرز ’’ڈاکٹرصاحبہ‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔انہوںنے ہی مجھے الٹا لٹکنے اور پٹنے سے بچایا تھا۔ ’’ ڈاکٹر صاحبہ! بچے کا رونا ضروری کیوں ہوتا ہے ؟‘‘ ماں کے سوال پر مجھے بھی خوشی ہوئی، اس لئے کہ یہ تو میں بھی جاننا چاہتا تھا۔
’’ اس سے بچے کے پھیپھڑے کھلتے ہیں اور وہ سانس لینا شروع کرتا ہے ۔ یہ اس کے زندہ بچ جانے کی پہلی علامت ہوتی ہے…اچھا! اب اسے اپنا دودھ پلائو، یہ بھوکا ہوگا۔ آئو! میں تمہیں اس کا طریقہ سکھاتی ہوں۔‘‘ ڈاکٹر صاحبہ میری طرف دیکھ کر مسکرائیں۔
’’بچے کے پاپا باہربیٹھے ہیں۔ انہیں بلا لوں، گھٹی کے لئے۔‘‘ وہ خاتون بولیں جنہیں میری ماں نے میری دادی بتایا تھا۔
’’پاپا، یہ کون ہیں…!‘‘ میرے جسم میں خوشی کی لہرسی اٹھی۔
’’دیکھیں آنٹی! بچے کا معدہ اتنا طاقتور نہیں کہ یہ گھٹیاں وغیرہ برداشت کر سکے۔ اگر اسے موشن لگ گئے تو مسئلہ ہو جائے گا۔ آپ ماں کے دودھ کو ہی گھٹی سمجھ لیں…‘‘ ڈاکٹر نے انہیں سمجھایا۔
’’ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو ہماری صدیوں کی روایت ہے۔ گھٹی بھی ہو گی اور بچے کے کان میںاذان بھی دی جائے گی…اس پر کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔آپ لوگ بھلے باہر سے پڑھ کر آگئے ہیں لیکن ہم اپنی روایات نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘ دادی اپنی بات پر اَڑ گئیں ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اذان کیا ہوتی ہے اور گھٹی کسے کہتے ہیں۔
’’اچھا! ایک حل نکالتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر دادی اماں کے سامنے بیٹھ گئیں۔ ’’ ہم ماں کا دودھ تھوڑا سا نکال کر آپ کودے دیتے ہیں۔ بچے کے پاپا اسے چمچ سے پلا دیں۔ آپ کی رسم بھی پوری ہو جائے گی اور بچہ کسی نقصان دہ چیز سے بھی بچ جائے گا…‘‘ ڈاکٹر کے حل کو دادی مان گئیں، لیکن میرے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص کمرے میں داخل ہوا۔ یہ میرے پاپا تھے۔ انہوں نے مجھے اٹھایا اور بوسہ دیا۔ ان کے ہونٹوں کالمس مجھے بہت اچھا لگا۔’’ یقیناً یہ کوئی بہت ہی خاص شخص ہو ں گے۔‘‘میں نے سوچا۔
انہوں نے ایک کاغذکو رول کیا‘ اسے میرے دائیں کان سے لگایا اور کچھ کہنا شروع کیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ وہی چیزہے جسے ’’اذان‘‘ کہا جا رہاتھا۔
’’چلئے اب اسے گھٹی دے دیں، اپنے ہاتھوں سے ..‘‘ میری ماما میرے پاپا کی طرف دیکھ کر مسکرائیں۔
’’ٹھہریں تو…ابھی تو اقامت باقی ہے۔‘‘ وہ بھی جواباً مسکرائے۔
انہوں نے وہی کلمات دوسرے کان میں بھی کہے، البتہ درمیان میں کچھ تبدیلی بھی کی ۔’’اچھا یہ اقامت ہے ‘‘ میں سمجھ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے میرے منہ میں چمچ سے سفید رنگ کا پانی ڈالا جسے میں نے نگل لیا۔’’ تو یہ میری ماں کا دودھ جسے گھٹی کہہ کر مجھے پلایا گیا…تھینک یو ماما، تھینک یو پاپا، مجھے میرا پہلا حق دینے اور دلوانے کا…‘‘
اس کے بعد میری ماں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ میں نے دودھ پینا شروع کیا۔ اور پھر یاد ہی نہ رہا کہ میں کب سو گیا۔
یہ میری نئی زندگی کا پہلا دن تھا۔

Vinkmag ad

Read Previous

مزیدار ڈونٹس Donuts

Read Next

ڈینگی: بچاؤ کیسے کریں

Leave a Reply

Most Popular