Vinkmag ad

بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام

سال نو کے پہلے مہینے میں قصور میں سات سالہ بچی زینب امین کے ساتھ زیادتی اور قتل کی اندوہناک خبر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ عوامی ردعمل شدید اور فطری تھا جس کے نتیجے میں صوبائی حکومت اور اس کے ادارے حرکت میں آ گئے۔ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے چیف جسٹس صاحبان نے بھی اس بہیمانہ جرم کا نوٹس لے لیا۔ سائنس دانوں، نفسیات دانوں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس پر مشتمل مشترکہ تفتیشی ٹیم کی دو ہفتوں پر محیط سرتوڑ کوشش کے بعد پولیس ملزم کو پکڑنے میں کامیاب ہو گئی۔ ملزم تک پہنچنے کے لئے تفتیشی ٹیم نے سائنسی طریقہ تفتیش سے مدد لی جس میں ڈی این اے ٹیسٹ، پولی گراف (جھوٹ پکڑنے والی مشین) ٹیسٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ وزیر اعلی نے کہا ہے کہ وہ اس گرفتاری سے اگلے مرحلے یعنی عدالت سے ملزم کو سزا دلوانے کے لئے بھی ایک کمیٹی تشکیل دیں گے جو کیس کی پیش رفت پر نظر رکھے گی اور اس امر کو یقینی بنائے گی کہ کیس کی سماعت بسرعت اختتام پذیر ہو اور مجرم کیفر کردار تک پہنچے۔ اور اگر اس کے لئے ضروری ہوا تو قانون سازی بھی کی جائے گی۔ مجرم کا کیفر کردار تک پہنچنا ہی اس انتہائی تکلیف دہ واقعے کا حتمی اور منطقی انجام ہے۔ تاہم اس کے نتیجے میں نہ تو معصوم زینب واپس آئے گی، نہ ہی اس کے والدین اور بہن بھائی تا عمر اس دکھ دینے والی یاد کو اپنے ذہنوں سے محو کر سکیں گے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اور ایک تکلیف دہ مظہر یہ بھی ہے کہ یہ آخری واقعہ بھی نہیں۔ دعا اور امید گرچہ ہر دم یہی ہے کہ آئندہ کو ئی بچہ ایسی بربریت کا نشانہ نہ بنے۔ لیکن حقائق سے نظریں چرانا نہ صرف ناممکن بلکہ گمراہ کن بھی ہو تا ہے۔ زینب کی نعش دریافت ہونے کے بعد شدید عوامی ردعمل کے دوران بھی اس طرح کے کم از کم دو واقعات ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہو چکے ہیں۔ اور اس واقعے سے پہلے بھی مختلف عمروں کے بچوں کے ساتھ ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں سے کچھ خوش قسمتی سے زندہ بچ گئے۔ تاہم یہ ناخوشگوار اور تکلیف دہ واقعات ان کی آئندہ زندگیوں کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں اور انہیں ان ممکنہ برے اثرات سے بچانے کے لئے کس قسم کی ماہرانہ نفسیاتی مدد ، جذباتی سہارے اور محبت کی ضرورت ہے، بڑے سوالیہ نشان ہیں۔

زینب کے واقعے میں پولیس جس طرح ملزم تک پہنچی وہ قابل تعریف ہے۔ اس ملزم کے قانون کی گرفت میں آنے سے جہاں ایک طرف مظلوم زینب کے والدین کے دکھی دلوں کو ڈھارس ملی ہو گی وہاں معاشرے میں پھیلی بے چینی میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے اس قابل ہیں کہ جدید خطوط پر کام کرکے جرائم کی روک تھام کر سکیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ کچھ کرنے کے لئے کسی سانحے کے منتظر ہی کیوں رہتے ہیں۔ بعض صورتوں میں تو سانحات بھی ہمیں آمادہ عمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تاوقتیکہ وہ بڑے پیمانے پر معاشرے میں بے چینی اور غم و غصے کا سبب نہ بن جائیں۔

ہر طرح کے جرائم کی بیخ کنی کسی بھی معاشرے کی ترقی اور امن کے قیام کے لئے ضروری ہے لیکن بچوں کے خلاف جرائم بالخصوص ہماری مقننہ ، انتظامیہ بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کی توجہ کے مستحق ہیں۔ موثر قوانین کی دستیابی، قانون کے نفاذ کے لئے از خود متحرک ہونے والی پولیس اور زیر سماعت مقدمات کو نپٹانے کے لئے مستعد عدلیہ وہ عوامل ہیں جو ہمیں اپنے بچوں کو محفوظ کرنے کے لئے درکار ہیں، کیونکہ بچے اپنے دفاع کے لئے بڑوں پر انحصا رکرتے ہیں۔ اگر آج ان کی حفاظت کا بندوبست نہ کیا گیا تووہ ایسے ہی جرائم پیشہ کج ذہن افراد کے ہاتھوں غیر محفوظ رہیں گے۔ اس ضمن میں والدین ، تعلیمی اداروں اور معاشرے میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے عناصر کا کردار بہت اہم ہے جو اس”بیماری“ کے تناظر میں پرہیزی اقدامات کی ذیل میں آتاہے۔ اس پہلو پر زیر مطالعہ شمارے میں بچوں کی ایک نفسیاتی معالج سے گفتگو پر مبنی ایک مضمون بھی شامل کیاگیا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

لذیذ مگر خطرناک ایک مزیدار مگر مہلک مچھلی جوسب جاپانی کھاسکتے ہیں مگر ان کا بادشاہ نہیں

Read Next

جسمانی یا ذہنی مشقت کے بغیر تھکاوٹ کیوں؟

Most Popular