Vinkmag ad

لذیذ مگر خطرناک ایک مزیدار مگر مہلک مچھلی جوسب جاپانی کھاسکتے ہیں مگر ان کا بادشاہ نہیں

مچھلی بہت سے لوگوں کی مرغوب غذا ہے جو سردیوں میں خاص طور پر شوق سے کھائی جاتی ہے۔ اس کی بہت سی اقسام ہےںجن میں سے ہرقسم کا الگ ذائقہ ہے۔ جاپان میں اس کی ایک قسم پفر فِش(puffer fish) بہت مقبول ہے لیکن اس کے جسم میں ایک خطرناک زہربھی پایا جاتاہے جسے سائنسی اصطلاح میں ٹی ٹی ایکس(tetrodotoxin)کہاجاتا ہے۔صرف ایک مچھلی کے اندراتنا زہر ہوتا ہے جو 30افراد کو موت کی نیند سلا سکے ۔ ایک فارسی کہاوت ہے کہ عراق سے تریاق پہنچنے تک سانپ کا ڈسا مر چکا ہو گا لیکن زہر اگر سانپ کی بجائے اس مچھلی کا ہو تو پھرتریاق خواہ کہیں سے آئے‘ مریض کا بچنا محال ہے‘ اس لئے کہ آج تک اس کا توڑ دریافت نہیں کیا جاسکا۔ ایک اوردلچسپ بات یہ ہے کہ ان مچھلیوں کے جسم میںزہر پیدا کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی بلکہ یہ ان مچھلیوں اور دیگر جانداروں سے ان کے جسم میں آتا ہے جنہیں وہ بطور خوراک استعمال کرتی ہیں۔غذا کے طور پر استعمال ہونے والے جانداروں کے جسم میں کچھ بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جن میں یہ زہر موجود ہوتا ہے اور جب یہ مچھلیاں انہیں کھاتی ہےں تو وہ ان کے جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مچھلیاں اسے اپنے جسم کے مختلف اعضاءمیں ذخیرہ کرلیتی ہیں ۔زیادہ تر زہران کے جگر (کلیجی)‘ بیضہ دانی‘ جلد اور انتڑیوں میں پایاجاتا ہے تاہم اس کی سب سے زیادہ مقدار جگر میں ہوتی ہے اور اس کا یہی حصہ سب سے لذیذہوتا ہے۔ ماہرین آثارقدیمہ نے ایسی مچھلیوں کی 2300قبل مسیح کی ہڈیاں دریافت کی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں سال سے لوگ انہیں اور یہ لوگوں کو شکار کرتی چلی آ رہی ہیں۔ زہریلے پن میں پفرفش دوسرے نمبر پرہے جبکہ پہلے نمبر پر زہریلاترین جانور ایک خاص قسم کا مینڈک(poison dart frog) ہے۔
ان مچھلیوں کا زہریلاپن انہیں دشمن کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ مزیدبرآں ان کے پیٹ لچکدار ہونے کی وجہ سے باآسانی پھول سکتے ہیں۔ جب وہ سمندر میں کسی اور جانور سے خطرہ محسوس کرتی ہیں تو اپنے معدوں کو پانی سے بھرکر فٹ بال کی مانند گول ہوجاتی ہےں اور ان کا سائز بھی تین گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح شکاری جانوروں کے لئے انہیں نقصان پہنچانا مشکل ہو جاتاہے اوران کی جان بچ جاتی ہے۔ان میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کی دونوں آنکھیں مختلف اطراف میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس کی وجہ سے اُن کا دائرہ نظر بہت وسیع ہوجاتا ہے اور انہیں اپنی جانب آنے والے خطرے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔ان مچھلیوں کے جبڑوں میں دومضبوط دانت اوپر اور دو نیچے ہوتے ہیں جو انہیں دیگر جانوروں کا شکار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ان مچھلیوں کی تقریباً 120نسلیں ہیں جن کا سائز ایک انچ سے لے کر دو فٹ تک ہوتا ہے۔
زہریلی مچھلی کھانے کے بعد”ٹی ٹی ایکس“ کے زیر اثر جلد سُن ہوجاتی ہے جس کے بعد ہاتھ اورپاﺅں شل ہوجاتے ہیں۔ جب اس کے اثرات نظام تنفس پر پڑتے ہیں تو مریض سانس لینے کے قابل نہیں رہتا اور اگر اسے فوراًابتدائی طبی امداد نہ ملے تو اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ دل پر برے اثرات اورسانس لینے میں دقت سے خون میں آکسیجن کی کمی واقع ہو جاتی ہے جس سے فرد کا رنگ نیلا پڑ جاتا ہے اور بروقت طبی امداد نہ ملنے پر چند ہی گھنٹوں کے اندر اس کی موت واقع ہونے کا امکان پیدا ہو جاتاہے۔ پٹھے شل ہونے کی وجہ سے مریض چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا اورمنہ سُن ہوجانے پر وہ بولنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔اس سے سرمیںدرد ہوتا ہے اور الٹیاں بھی لگ جاتی ہیں۔
مضرصحت اورجان لیواہونے کی وجہ سے جاپان کی حکومت نے1924ءمیں اس کی فروخت پر مکمل پابندی لگادی تھی۔جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں تقریباً 3800 ریستورانوں کو یہ مچھلی تیار کرنے کی اجازت ہے۔ اس کی خاص ڈش فوگو (Fugu) ہے جسے تیارکرنے والے باورچی اس کی باقاعدہ تربیت حاصل کرتے اورکئی سال تک کسی ماہر کی شاگردی اختیار کرتے ہیں۔ جب وہ اس کام میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں‘ تب انہیں اس ڈش کی تیاری کا لائسنس دیاجاتا ہے۔اس پابندی سے قبل اسے کھانے کی وجہ سے ہر سال تقریباً 100جاپانی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے تھے۔ اب ایسی اموات شاذونادر ہی دیکھنے میں آتی ہےں اور ایسا تبھی ہوتا ہے جب وہ کسی اناڑی کے ہاتھ کا تیارکردہ ”فوگو“کھا لیں۔
زہریلا ہونے کے باوجوداس مچھلی کی مقبولیت کا ایک سبب تو اس کا منفرد ذائقہ ہے جبکہ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے اندر نشہ آور خصوصیت رکھتی ہے۔ اس کا نوالہ منہ میں رکھتے ہی ہونٹ اور زبان سُن ہوجاتے ہےں اورفرد ایک عجیب سی سرشاری محسوس کرتا ہے۔ اسے کھانے کے بعد جو کیفیت ہوتی ہے‘ وہ نشے سے حظ اٹھانے سے مختلف نہیں ہوتی۔ جاپان میں ہر سال تقریباً10ہزار ٹن کی مقدار میں اس کا گوشت کھایا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان کے بادشاہ کو یہ ڈِش کھانے کی اجازت نہیں‘ اس لئے کہ ریاست نہیں چاہتی کہ اس کا سربراہ اس طرح کا کوئی خطرہ مول لے۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے جو کھانے پینے کے محفوظ‘ سستے اور باآسانی دستیاب ذرائع کے باوجود مضرصحت چیزیں استعمال میں لاکر اپنی جان جوکھوں میں ڈالتا ہے۔ سگریٹ نوشی ہی کو لیجئے جو پھیپھڑوںکو نقصان پہنچا کر سانس کے مسائل پیدا کرتی اور پھیپھڑوں کے سرطان تک کا باعث بنتی ہے اوریہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی سگریٹ نوش اس سے باز نہیں آتے۔ شاید اسی لئے معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ رویوں میں تبدیلی بھی نگہداشت صحت کا موثر حصہ ہونا چاہئے۔

Vinkmag ad

Read Previous

فیشئل کہاں سے کرائیں

Read Next

بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام

Most Popular