Vinkmag ad

علمِ طب اور غلط علاج

بیماریوں سے متعلق بہت سے غلط تصورات اور تواہمات عام ہیں جنہیں پھیلانے میں مذاہب نے بھی نمایاں کردار ادا کیاہے ۔خوردبین کی ایجاد سے قبل لوگوں کو علم نہ تھا کہ متعدی بیماریوں کی اصل وجہ چھوٹے چھوٹے جراثیم ہیں جو دکھائی بھی نہیں دیتے۔ اس وقت اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ بیماریاں اور وبائیں دیوی دیوتاﺅں کی ناراضگی کے سبب نازل ہوتی ہیں ۔انہیں منانے کے لئے وہ انسانی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تواہمات عہد قدیم کے لوگوں کے ساتھ ہی وابستہ تھے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔آج بھی مختلف معاشروں اور علاقوں میں یہ بہت عام ہیں ۔ مثال کے طورپرکئی نفسیاتی بیماریوں اور مرگی کے دوروں کے متعلق خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ مریض پر بھوت پریت کا سایہ ہے اور جنوں نے اس کے جسم ودماغ پر قبضہ کرلیا ہے ۔ وہ انہیں ڈاکٹرکے پاس لے جانے کی بجائے نام نہاد عاملوں کے پاس دوڑاتے پھرتے ہیں۔علاج میں تاخیر سے مرض بہت زیادہ بگڑ جاتا ہے۔

عوام کو جہالت کا طعنہ دیاجاتا ہے اور ڈاکٹروں کو علم اور منطق کا منبع تسلیم کیا جاتا ہے ۔ بحیثیت ڈاکٹر میں اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے طریقہ علاج میں بھی توہم پرستی شامل رہی ہے۔ کئی ایسے علاج ہیں جن کی بنیاد میں کوئی دلیل یا منطق نہ تھی لیکن انہیں سالہا سال تک جاری رکھا گیا۔ ان سے کئی لوگوں کو نقصان پہنچا تھاجو طبی قوانین اور طبی اخلاقیات کے خلاف بات ہے۔ ڈاکٹروں کو سکھایا جاتا ہے کہ ”Thou shall not harm”یعنی آپ کے علاج سے کسی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔اگرچہ مثالیں تو بہت سی موجود ہیں لیکن یہاں تین ایسے غلط علاجوں اور روایات کا ذکر کیا جائے گا جو طبی نکتہ نگاہ سے غلط قراردئیے گئے اور جنہیں بعدمیں ترک کرنا پڑا۔

زمانہ¿ قدیم میں اکثر اطباء(جن میں بقراط اور حکیم جالینوس بھی شامل ہیں) اس بات پر متفق تھے کہ انسانی جسم میں چار طرح کی رطوبتیں پائی جاتی ہیں جو خون‘ بلغم‘صفرا ئ(yellow bile) اور سودا ( black bile) ہیں۔ اس نظرئیے کو بعد میں عربوں اور ایرانیوں نے بھی قبول کرلیا اورپھر یہ سفر کرتے کرتے برصغیر میں بھی پھیل گیا ۔بوعلی سینا کے ہاںاور یونانی طریقہ¿ علاج میں اسی نظرئیے کو مانا جاتا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ ان چار رطوبتوں میں ایک خاص اور نازک توازن پایاجاتا ہے۔ جب کسی وجہ سے یہ توازن بگڑ جائے تو مختلف بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں جن کا علاج اس توازن کو واپس معمول پر لانا ہے ۔اسی تصور کی بنا پر نشتر کے ذریعے مریض کے جسم میں زخم لگاکر خون نکالا جاتا تھا ۔یہ بہت خطرناک طریقہ علاج تھا جس کی وجہ سے پہلے سے کمزور پڑے مریض کے جسم سے بہت سا خون ضائع ہو جاتا۔ ایسے میں اس کی حالت مزید بگڑ جاتی اور وہ اس ناقص تصور کاشکار ہو کر دائمی نیند سو جاتا ۔اس کا شکار ہونے والوں میں ایک اہم تاریخی ہستی جارج واشنگٹن بھی شامل ہیں جنہوں نے امریکہ کو برطانیہ سے آزاد کرانے کے لئے جنگ لڑی اور اس میں کامیاب ہوئے ۔ اسی غلط تصور کے تحت بستر مرگ پران کے جسم سے بھاری مقدار میں دوتین بار خون نکالا گیاجو ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔

جنگلی جڑی بوٹیاں ہمیں جابجا اُگی نظر آتی ہیں۔ ہزاروں سال سے ان پر تجربات جاری ہیں جن کے نتیجے میں کچھ ایسے درخت ‘ پودے اور سبزیاں وغیرہ شناخت کر لئے گئے ہیں جو انسانوںکو خوراک مہیا کرتی رہیں۔کچھ جڑی بوٹیوں میں ادویات کی خاصیتیں پائی گئیں اور کچھ ایسی تھیں جن کے استعمال سے انسان کو نشہ سامحسوس ہوا۔ لوگوں کو یہ اچھا لگا تو انہیں عام استعمال کرنے لگے۔چائے کا پودا چین میں جبکہ کافی کا عرب ممالک میں دریافت ہوا۔ عربوں نے دیکھا کہ ان کی جو بھیڑ بکریاں اس پودے کے پھل کو چبالیتی ہیں‘ وہ ساری رات جاگ کر گزارتی ہیں۔چائے کے بعد کافی کے مشروبات کو مذہبی لوگ زیادہ استعمال کرنے لگے تاکہ انہیں رات بھر نیند نہ آئے اور وہ یہ وقت عبادات میں گزارسکیں۔منشیات کے استعمال سے کئی لوگ حظ اُٹھانے لگے اور افیون‘ چرس ‘کوکین اور بعض کھمبیاں منشیات کے طور پر استعمال ہونے لگیں۔ تمباکو بھی ان میں شامل ہے۔انگریزوں نے ہندوستان میں تیار کردہ افیون چین میں بیچ کر پیسہ کمایا اور پوری چینی قوم کو افیمی بنادیا۔ بعد میں جرمنی کی بیئر (Bayer)کمپنی( جس نے اسپرین بھی بنائی تھی)نے 19ویں صدی کے آخر میں ہیروئین بھی بنائی۔یہ وہ زمانہ تھا جب ماہر نفسیات ڈاکٹر سگمنڈفرائڈ زندہ تھے۔انہوں نے کوکین اور ہیروئین کو اس بنیاد پر فروغ دیا کہ اس کا استعمال افیون کے عادی لوگوں کو اس نشے سے نجات دلاتا ہے۔مزیدبراں ڈپریشن کئی اور نفسیاتی امراض کا موثر علاج ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے مقبول ترین مشروب ’کوکاکولا‘ میںکوکین شامل کیاجاتا تھا۔ اس کے استعمال سے فرائڈ اور اس کاایک قریبی دوست کوکین اور ہیروئین کے نشوں میں پھنس گئے ۔کئی سال بعدپتہ چلا کہ یہ ایسی لعنتیں ہیں جن سے جان چھڑانا بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کی فروخت پرمختلف حکومتوں نے پابندیاں عائد کردیں۔
19ویں صدی کے آخر تک کوئی بھی ایسی دوادریافت یا ایجاد نہ ہوئی تھی جس سے پاگل پن اور نفسیاتی امراض کا خاطر خواہ علاج کیاجاسکتا۔ قارئین جانتے ہیں کہ بعض نفسیاتی مریض بہت جارحانہ طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف اوروں کو بلکہ اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔ ایسے مریضوں کے لئے ہر شہر اور ملک میں پاگل خانے بنائے جاتے تھے جن میں اکثر ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا تھا۔ یہ پاگل خانے بہت گندے اور پرہجوم ہوتے تھے جن میں متعدی امراض پھیلنے کا خطرہ رہتا تھا۔

ایک پرتگالی ڈاکٹر مونز( Moniz)نے1935ءمیں دماغ پر آپریشن کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ڈاکٹروں کو اس بات کا علم تھا کہ انسان کی شخصیت بنانے کے لئے دماغ کا آگے کا حصہ( جسے فرنٹل لوب کہتے ہیں) بہت اہم کردار اداکرتا ہے۔دماغ کے مختلف حصوں سے نکلنے والے اعصاب بجلی کی پیچیدہ تاروں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور مل جل کر کام کرتے ہیں۔ اگر فرنٹل لوب کو باقی دماغ سے منقطع کردیاجائے تو مریض کے جارحانہ طور طریقے ختم ہوجاتے ہیں۔مونز نے مریضوں کی کھوپڑی میں سوراخ کرکے یہ آپریشن کیا جس سے ان کے طرز عمل میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ان مریضوں میں جارحانہ رویہ ختم ہوگیا اوراب انہیں آسانی سے قابو میں لایاجاسکتا تھا۔ آپریشن کے اس طریقے کی ایجاد پر ڈاکٹر مونز کو1949ءمیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ آپریشن کے بعد مریضوں کے طرز عمل میں کچھ منفی تبدیلیاں بھی دیکھی گئیں ۔ ان کی حالت ایسے بچوں کی طرح ہو گئی جنہیں بُرے بھلے کی تمیز نہیں ہوتی۔انہیں بھوک پیاس کی پرواہ نہ ہوتی ‘ وہ ننگ دھڑنگ پھرتے‘ پیشاب اور پاخانہ کہیں بھی کردیتے اور اُن پر(پیشاب پاخانے پر) کنٹرول بھی نہ رہا۔اس کے باوجوداس آپریشن کو مغربی ممالک میں جلد ہی مقبولیت حاصل ہوگئی۔ ایک امریکی ڈاکٹر والٹرفریمین نے اسے اپنے ملک میں فروغ دیا ۔اس آپریشن میں کھوپڑی میں سوراخ کرنا پڑتا تھااوریہ بات ڈاکٹر والٹر کو ناپسند تھی ۔اُس نے ایک نیا طریقہ دریافت کیا۔ وہ آنکھوں کے اوپری پپوٹے کے نیچے کی جگہ پر لوہے کی سلاخ ڈال کراسے پیچھے دھکیل دیتا اوراسے دماغ کے اگلے حصے میں چبھو کر سلاخ کو تیزی سے دائیں بائیں ہلاتا۔اس سے فرنٹل لوب کے اعصاب منقطع ہوجاتے اورمطلوبہ مقاصد حاصل ہوجاتے ۔ اس میں خرابی یہ تھی کہ یہ عمل فقط باہر سے ہی دیکھا جاسکتا تھا۔لہٰذا صرف اندازہ ہی کیاجاسکتا تھا کہ اندرکیا ہورہاہے۔ اس سے کبھی کبھی خون کی رگیں بھی زخمی ہوجاتیں اور خون اندر ہی اندر بہنے لگتا جس سے مریض کی موت واقع ہوجاتی ۔فریمین نے ایسے ہزاروں آپریشن کئے تاہم پیچیدگیوں اور غیر تسلی بخش نتائج کی وجہ سے اس آپریشن کو امریکہ وغیرہ میں غیرقانونی قراردیاگیا۔فریمین نے آخری آپریشن 1967ءمیںکیا جس میں دماغ میںخون بہنے کی وجہ سے مریض کا انتقال ہوگیا۔1930ءکی دھائی سے لے کر ا ب تک امریکہ میں تقریباً 50ہزار جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں ایک لاکھ کے قریب آپریشن ہوئے۔ان میں ایک اہم مریضہ امریکی صدر کینیڈی کی بہن اور مشہورامریکی ڈرامہ نویس ٹینیسی ولیمز (Tennessee William)کی بہن بھی شامل تھیں۔یہ ایک غلط آپریشن تھا جسے کئی سال تک مقبولیت حاصل رہی ۔

ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ طبی سائنس میںڈاکٹروں سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں جن سے مریضوںکو نقصان بھی ہوا اور بعض مریضوں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔لیکن سائنس تب ہی ترقی کرکے آگے بڑھتی ہے جب سائنس دانوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو اوروہ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کریں۔

Vinkmag ad

Read Previous

حمل, ذرا ہٹ کے

Read Next

زبان کو لگی گرہیں

Leave a Reply

Most Popular