Vinkmag ad

زبان کو لگی گرہیں

جس طرح ہر بچہ شکل و شباہت ‘ قد اور رنگت میں مختلف ہوتا ہے‘اسی طرح اس کی ذہنی صلاحیتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ بچے جلدی سیکھ لیتے ہیں تو کچھ کو اس میں دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے ۔کچھ تو ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں پاتے ۔اس لئے والدین اور ساتذہ کو چاہئے کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی بجائے ان کے انفرادی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔اسپیچ اینڈ لینگویج پیتھالوجسٹ یاسمین نقوی کی ایک معلوماتی تحریر


”یہ بچہ تو بہت ہی لاپرواہ ہے۔ مجال ہے کہ کبھی اپنی تعلیم پر توجہ دے۔یہ پوری جماعت میں سب سے پیچھے ہے۔“
”اوہ ہو!اس نے پوری کلاس کا رزلٹ خراب کردیاہے۔“
”ذرا اس کی لکھائی تو دیکھو۔ ایسے لگتا ہے جیسے چیونٹی کو روشنائی میں ڈبو کر کاغذ پر چھوڑ دیاگیا ہو“۔
”اس کے سب بہن بھائی ذہین ہیں لیکن یہ ان سے بالکل مختلف ہے۔ ہر بات بار بار بتاتی ہوں لیکن یہ پھر بھی نہیں سمجھتا۔“
یہ وہ جملے ہیں جوبہت سے والدین اور اساتذہ بعض بچوں کے بارے میں کہتے نظر آتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے رویے بچوں میں کیونکر پرورش پاتے ہیں؟کیا ان بچوں کو اُن کی کمزوریوں کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے؟کیا تمام بچے ایک سی شخصیت اور قابلیت کے مالک ہوتے ہیں؟کیا والدین اپنے بچے کی سیکھنے کے عمل میں دشواری سے باخبر ہیں؟کیا وہ سنجیدگی سے اپنے بچے کی اس دشواری کو دور کرنے کے لئے ہر ممکنہ اقدام اٹھانا چاہتے ہیں؟کیا استاد کاکردار منصفانہ ہے؟کیا بچے کے لئے انفرادی توجہ اور کوششوں کو آزمایاگیا؟کیا والدین اور اساتذہ کے باہمی تعلقات پر توجہ دی گئی ہے؟بچے کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنا اشد ضروی ہے۔
بچہ جب سکول میں داخل ہوتاہے تو اس کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اپنی مادری زبان کے ساتھ دوسری زبانیں بھی بولنا‘ سمجھنا‘ لکھنا اور پڑھنا پڑتی ہیں۔ریاضی‘ کمپیوٹر‘ کھیل کے میدان میں مقابلہ‘ گروپ میںرہتے ہوئے اپنی جگہ بنانا‘لیڈرشپ‘ٹیم ورک اور اساتذہ کے ساتھ تعلقات وغیرہ وہ صلاحیتیں ہیں جن کی بنیاد پر بچے آگے بڑھتے ہیں۔ انہی کی بنیاد پر وہ سکول میں پیش آنے والی مشکلات اور آزمائشوں کا ادراک بہتر طریقے سے کرتے ہیں۔ ایسے بچے تھوڑی سی محنت سے معلومات کو ذہن نشین کرلیتے ہیں۔ تاہم بعض بچوں کو اس میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کلاس کے باقی بچوں کے ساتھ نہیں چل پاتے لہٰذا احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
منفی رویوں کامنفی اثر
ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے بچے والدین اور اساتذہ کے منفی اور غیر جانبدارانہ رویوں کی وجہ سے بولنے تک سے گریز کرتے ہیں۔ وہ ہکلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔انہیں بنیادی سوالات کے جوابات دینا بھی مصیبت لگتا ہے۔ ان کا بولنا اس حد تک متاثر ہوتا ہے کہ ایک جملے کی ادائیگی کے لیے بھی کئی لمحے صرف ہو جاتے ہیں۔ جب والدین بچے کی کسی کمزوری کو نشانہ بنا کر بات کرتے ہیں تو بچہ اس احساس کے زیر اثر آجاتا ہے کہ وہ کبھی یہ کام نہیں کر سکتا۔ پھر وہ ہر دفعہ اس عمل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
والدین اور اساتذہ کیا کریں
ماں باپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان کا بچہ کس بات سے خوفزدہ ہے۔ بچوں سے فاصلہ رکھنے کی بجائے ان کے پاس رہیں اور ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مسائل شئیر کریں۔ انہیں احساس دلائیں کہ آپ کے ساتھ وہ محفوظ ہیں اور آپ ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ بچہ اگر بات کرتے ہوئے ہکلاہٹ کا شکار ہو تو اسے نظرانداز مت کریں بلکہ اسے توجہ سے سنیں۔ اسے یہ یقین دلائیں کہ یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں اور وہ اپنی ہکلاہٹ پر قابو پانا سیکھ سکتا ہے۔ حوصلہ افزائی بچے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لاتی ہے۔
اسی طرح ایک استاد کا کرداربھی بچے کے سیکھنے کے عمل میں بے حد اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اگرچہ ایک کلاس میں بہت سے بچے ہوتے ہیں لیکن استاد کے لئے ایسے بچوں کی پہچان مشکل نہیں ہوتی۔ استاد کو چاہئے کہ والدین کو اس ضمن میں اپنے ساتھ شامل کرے تا کہ بچے کے سیکھنے کے عمل میں دشواری کاحل نکالا جا سکے۔
بعض ایسی بیماریاں بھی ہیں جو سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ان کے بارے میں ماہر نفسیات اور سپیچ تھیراپسٹ بہترین رہنمائی دے سکتے ہیں۔ اگر ہم بچے کو کھانسی‘نزلہ‘ بخار وغیرہ کے لئے ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں تو سیکھنے کے عمل میں دشواری کو بھی ایک مرض سمجھیں اور اس پربھی اسی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔

Vinkmag ad

Read Previous

علمِ طب اور غلط علاج

Read Next

فالج، زندگی مفلوج نہ کر دے جانئے اور احتیاط کیجیے

Leave a Reply

Most Popular