Vinkmag ad

مسکولر ڈسٹروفی کیسی بیماری ہے

کراچی کا رہائشی 10 سالہ جمیل، پٹھوں کے ایک خطرناک نقص کے باعث ٹھیک طرح سے چلنے، کروٹ لینے یا بیٹھ کر اٹھنے سے قاصر ہے۔ اس نقص کو مسکولر ڈسٹروفی کہتے ہیں۔ مسکولر ڈسٹروفی کیسی بیماری ہے اور جمیل اس کا شکار کیسے ہوا، اس حوالے سے جمیل کے والد نے بتایا کہ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ جمیل کی ہڈیاں کمزور ہیں مگر اس مرض کے متعلق کبھی شک بھی نہ گزرا تھا۔

ایک دن کھیلتے کھیلتے جمیل گرا تو اس کی ایک ٹانگ میں ہلکا سا فریکچر ہو گیا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ پلستر لگانے سے ٹھیک ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ جمیل مسلسل کبھی پلستر والی اور کبھی دوسری ٹانگ میں درد کی شکایت کرنے لگا۔ اس حادثے کے بعد اس کے چلنے، کروٹ لینے یا بیٹھ کر اٹھنے کی صلاحیت متاثر ہو گئی۔ وہ اٹھنے کی کوشش کرتا تو لڑکھڑانے لگتا، لیٹے لیٹے درد سے چلانے لگتا۔

والدین نے اسے کئی ڈاکٹروں کو دکھایا۔ کسی نے کہا کہ ٹانگ کی نس دبی ہے تو کسی نے وٹامن ڈی کے ٹیسٹ کا مشورہ دیا۔ پھر ایک ڈاکٹر نے خون کے کچھ ٹیسٹ تجویز کیے۔ تب کہیں معلوم ہوا کہ جمیل مسکولر ڈسٹرافی کا شکار ہے۔

جمیل کے والد کا کہنا ہے کہ اس مرض کو قبول کرنا ہماری فیملی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ بچے کو سمجھانا کہ اسے یہ بیماری ہے، بہت ہمت والا کام ہے جس کی ہمت کم از کم مجھ میں نہیں۔

دوسری طرف جمیل کا کہنا تھا کہ وہ تنگ آ گیا ہے۔ ممی پاپا روز الگ طریقے سے اس کا علاج کرتے ہیں۔ کبھی زیتون کے تیل کی مالش کرتے ہیں تو کبھی بادام کھلاتے ہیں۔ مگر کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔

مسکولر ڈسٹروفی کیسا مرض ہے

گلاب دیوی ہسپتال لاہور کے ماہر امراض اطفال، ڈاکٹر عفان عارف کہتے ہیں کہ یہ مرض دنیا میں انتہائی کم پایا جاتا ہے۔ یہ ہر 3500 افراد میں سے ایک کو ہوتا ہے۔ انہوں  نے بتایا کہ جسم کے ہر سیل میں ایک جینیاتی کوڈ ہوتا ہے جس سے ہمارے اعضاء تشکیل پاتے ہیں۔ اگر اس میں کوئی مسئلہ آ جائے تو مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ 1986 میں سائنس دانوں کو ایکس کروموسوم پر ایک جین اور اس مرض کے باہمی تعلق کے بارے میں ابتدائی معلومات ملیں۔ 1987میں ڈسٹروفن جین شناخت ہوئی اور معلوم ہوا کہ اس کی حامل پروٹین کی کمی کے باعث پٹھے کمزور ہونے لگتے ہیں اور دھیرے دھیرے انہیں شدید نقصان پہنچتا ہے۔

شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے آتھوپیڈک سرجن، ڈاکٹر سجاد اورکزئی نے بتایا کہ ڈسٹروفی ایک وسیع اصطلاح ہے۔ اس میں پٹھوں سے متعلق بہت سے امراض آتے ہیں۔ مسکولر ڈسٹروفی خصوصی طور پر ڈھانچے کے پٹھوں کو متاثر کرتی ہے اور رفتہ رفتہ انہیں کمزور کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ صرف ہاتھوں اور ٹانگوں کے پٹھوں کو ہی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ دل، گلے اور سانس لینے میں مدد دینے والے پٹھے کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ تاہم ابتداء میں کولہے اور ران کے پٹھے متاثر ہوتے ہیں۔

اس بیماری کی ایک قسم ڈوشین مسکولر ڈسٹروفی ہے۔ یہ عموماً بچپن میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس میں مریض کی اوسط عمر 20 تا 25 سال دیکھی گئی ہے۔ بی ایم ڈی (Becker Muscular Dystrophy) اس سے نسبتاً کم شدید قسم ہے۔ پہلی قسم میں ڈسٹروفن جین مکمل طور پر کام کرنا بند کر دیتا ہے جبکہ بی ایم ڈی میں یہ کچھ نہ کچھ کام کرتا رہتا ہے۔

ابتدائی علامات

شروع شروع میں مریض جلدی تھکنے لگتا ہے۔ اس کے لیے سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہوتا ہے اور بیٹھنے کے بعد اٹھنے میں کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہ ہاتھوں کی مدد سے بیٹھتا یا اٹھتا ہے کیونکہ براہ راست کولہے پر زور نہیں ڈال پاتا۔ آہستہ آہستہ پٹھوں کے سیلز ختم ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ فیٹ ٹشوز لینے لگتے ہیں۔ اس سے ٹانگوں پر سوجن ہونے لگتی ہے۔ پٹھوں میں کھچاؤ کی وجہ سے درد بھی ہو سکتا ہے۔

نو عمری میں داخل ہوتے ہی دل کے پٹھے کمزور ہونے کی وجہ سے ہارٹ فیل ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ سانس کی بیماریوں مثلاً نمونیا کی شکایت بڑھ سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس بیماری کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچنے پر چلنے میں دشواری ہونا، پنڈلی کے پٹھے بڑے ہونے لگنا اور چلتے ہوئے لڑکھڑانا بھی اس کی علامات ہیں۔

مسکولر ڈسٹروفی سے بچیں کیسے

ڈاکٹر عفان کے مطابق فی الوقت اس سے بچاؤ کا کوئی طریقہ نہیں کیونکہ اس کا تعلق جین سے ہے۔ البتہ اس بیماری کی رفتار کو کم کرنے کے لیے کچھ ادویات کی مدد لے سکتے ہیں۔ چلنے پھرنے میں مدد کے لیے فزیوتھیراپی کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔

اس مرض کا تاحال کوئی علاج بھی دریافت نہیں ہو سکا۔ مریض کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں متوازن غذا، فزیو تھیراپی اور جسم کو سہارا دینے والے آلات مثلاً وہیل چیئر وغیرہ شامل ہیں۔

غلط تصورات کی وضاحت

٭ڈسٹروفی ایک جینیاتی مرض ہے۔ یہ چوٹ یا کسی جسمانی سرگرمی سے نہیں ہوتا، تاہم حادثے کے سبب ظاہر ہو سکتا ہے۔

٭جینیاتی امراض ٹوٹکوں سے ٹھیک نہیں ہوتے۔ مرض کا شک ہو تو خاندان میں شادی کرنے سے پہلے جینیاتی ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔

٭ڈسٹروفی کا مطلب زندگی کا خاتمہ قطعی نہیں۔ مریض مختلف آلات جیسے وہیل چیئر یا تھیراپی سے بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔

ڈسٹروفی نہ صرف لا علاج مرض ہے بلکہ اس کے متعلق معلومات بھی بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اس کی تشخیص جہاں مشکل سے ہوتی ہے وہاں اس کے ماہر ڈاکٹر ڈھونڈنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جمیل کے والدین کو بھی تکالیف اٹھانا پڑیں کیونکہ مرض ہی شناخت نہ ہو پا رہا تھا۔

ماہرین کو چاہیے کہ اس مرض سے متعلق والدین کو معلومات فراہم کریں۔ ایک چھوٹے بچے کو جھٹ سے بتا دینا نامناسب ہے کہ اسے ایک لا علاج مرض سے جو رفتہ رفتہ اسے ختم کر رہا ہے۔ مریض سے گفتگو میں اس کی حساسیت کا خیال رکھنا چاہیے۔

Vinkmag ad

Read Previous

Myths about heart health

Read Next

First aid for bites & stings

Leave a Reply

Most Popular