Vinkmag ad

ساکت پتلی کا معمہ

’’آپریشن کے دوران ایک نرس نے سرگوشی کے انداز میں ڈاکٹر کیلئے کوئی پیغام بھیجاجس پر وہ چند ہی لمحوں میں آپریشن تھیٹر میں پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ ہی مریض کے سرہانے کچھ ہلچل سی شروع ہوگئی جس پر میرے کان بھی کھڑے ہو گئے۔ میں نے دریافت کیا کہ ’سب کچھ ٹھیک توہے ناں؟‘ اس پرڈاکٹر نے اثبات میں سر ہلا دیا لیکن اس کے چہرے کے تاثرات اور طرز عمل سے قدرے پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔ اس نے صرف اتنا کہا کہ’ اگر جلدی آپریشن مکمل کر سکیں تو بہتر ہو گا۔‘ آخر میں کیا ہوا‘ پڑھئے ریٹائرڈ سرجن ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ کے تحریر کردہ اس مضمون میں


رے (فرضی نام ) ایک اُدھیڑ عمر کا مریض تھا جسے شوگر کے علاوہ کمر درد‘ آرتھرائٹس اور بلڈپریشر کی شکایت بھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی اسے مختلف قسم کے عارضے لاحق تھے جن کی وجہ سے وہ 45 سال کی کم عمر میں ہی ملازمت سے ریٹائر ہو گیاتھا ۔وہ سگریٹ بھی بہت پیتا تھا۔ اس کے میرے پاس آنے کا سبب اس کو ہونے والا ہرنیا تھا۔ اس مرض میں پیٹ کے نچلے حصے میں سے(جہاں دیوارکمزور ہو جاتی ہے) انتڑیاں باہر نکل آتی ہیں۔ انہیں جلد کے نیچے ہاتھ سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مریض جب بستر میں لیٹ جائیں تو ذرا سا دبانے سے ان انتڑیوں کو واپس پیٹ میں داخل کیا جا سکتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہرنیا اطراف میں بڑھ جاتا ہے اور کبھی کبھار وہ پیٹ کی دیوار میں کسی خاص طریقے سے پھنس جاتا ہے ۔ اسے ’’سٹرینگولیٹڈہرنیا‘‘ strangulated hernia یعنی گل گھوٹو ہرنیا کہتے ہیں۔ پھنس جانے والی آنت میں خون کی گردش رک جاتی ہے۔ ایسے مریض کوہنگامی حالت میں سرجری کرانی پڑتی ہے‘ ورنہ آنت کا وہ حصہ خون کی گردش سے محرومی کے سبب ’مر‘ بھی سکتا ہے۔ اسے خورہ یا گینگرین (gangrene) کہا جاتا ہے۔
’رے‘ کا ہرنیا درمیانے سائز کا تھا۔ کسی اور سرجن نے اسے چار سال پہلے ’مرمت‘ کیا تھا لیکن اب وہ دوبارہ ہو گیا تھا لہٰذا وہ آپریشن کروانے میرے پاس آیا تھا۔ میں نے حسب معمول آپریشن سے پہلے اس کی تفصیلی ہسٹری لی اور طبی معائنہ کیا۔ اس کی خواہش کے مطابق میں نے اسے اگلے ہفتے کی آپریشن لسٹ میں شامل کر لیا۔ چونکہ اسے مختلف طبی مسائل تھے لہٰذا میں نے اسے بتایا کہ مکمل بے ہوشی یعنی (General anesthesia)میں خطرہ قدرے زیادہ ہے لہٰذا اُس کے لئے جسم کے مخصوص حصے کو سُن کرنے(local anesthesia یا ریڑھ کی ہڈی کا انستھیزیا زیادہ مفید اور کم خطرناک ہو گا۔
مریض نے مجھے بتایا کہ اسے کمر درد کی تکلیف مسلسل رہتی ہے اوراسے خدشہ ہے کہ کمر میں ٹیکہ لگوانے سے یہ تکلیف کہیں بڑھ نہ جائے۔ لوکل اینستھیزیا کو بھی اس نے اس بنا پر رد کر دیا کہ وہاں ہرنیا پہلے بھی مرمت ہو چکا تھا اور اس جگہ یقیناً کھرنڈ بن چکا ہو گالہٰذا اس میں چیر پھاڑ قدرے زیادہ پیچیدہ ہو گی ۔وہ درد سے بھی بہت گھبراتا تھا۔ اس نے کہا کہ اگرچہ اسے اس بات کا علم ہے کہ مکمل بے ہوشی میں خطرہ قدرے زیادہ ہے لیکن وہ اسے قبول کرنے کو تیار ہے۔ اس نے ہم لوگوں یعنی ڈاکٹروں کی مہارت اورتجربے پر اعتماد اور اس یقین کا اظہار کیا کہ اس کی جان محفوظ رہے گی۔ میں نے بادل نخواستہ مکمل بے ہوشی کے لئے حامی بھر لی۔
اگلے ہفتے پروگرام کے مطابق اسے آپریشن کیلئے آنا تھا لیکن ایک روز قبل اس کے ماموں کا انتقال ہو گیا لہٰذا اس نے آپریشن ملتوی کرا دیا۔ کچھ اور مجبوریوں کی وجہ سے وہ ساڑھے تین ہفتوں کے لئے التواء میں پڑ گیا۔ اس دوران میں نے اس کے مرض کی ہسٹری لکھ کر ہسپتال میں پہنچا دی ۔جب وہ آپریشن کے لئے آیا تو مجھے ساری تو نہیں البتہ خاص خاص باتیں ضروریاد تھیں۔ مثلاً یہ کہ ہرنیا پہلے بھی مرمت کیا گیا تھا اور کمر درد کی وجہ سے وہ ریڑھ کی ہڈی کے انستھیزیا سے بھی انکاری تھا اورہم مکمل بے ہوشی پر متفق ہوئے تھے۔
اس صبح آپریشن وقت پر شروع ہوا اور پہلے آپریشن کی وجہ سے کانٹ چھانٹ واقعتاًقدرے مشکل تھی لیکن یہ کوئی بڑی بات نہ تھی۔اس میں فرق صرف اتنا پڑتا ہے کہ آپریشن پر آدھے گھنٹے کی بجائے 45منٹ یا ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
آپریشن کے دوران سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا اور انستھیزیا والے اپنے کام میں مصروف تھے اور میں اپنا کام کر رہا تھا۔ امریکہ میں تربیت یافتہ نرسوں کو بیہوشی کے شعبے میں کام کرنے کے لئے مزید امتحانات پاس کرناہوتے ہیں۔ ان نرسوں کو سی آر این اے (Certified Registered Nurse Anesthetist) کہا جاتا ہے ۔یہ عملہ اچھی طرح تربیت یافتہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی ان کی نگرانی اور مدد کے لئے ایک سپیشلسٹ ڈاکٹرموجود رہتا ہے ۔
آپریشن کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ایک ’سی آر این اے‘ نے سرگوشی کے انداز میں ڈاکٹر کیلئے کوئی پیغام بھیجاجو چند ہی لمحوں میں آپریشن تھیٹر میں پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ ہی مریض کے سرہانے کچھ ہلچل سی شروع ہوگئی جس پر میرے کان بھی کھڑے ہو گئے۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ ’’سب کچھ ٹھیک توہے ناں؟‘‘ اس پر سپیشلسٹ نے اثبات میں سر ہلا دیا لیکن اس کے چہرے کے تاثرات اور طرز عمل سے قدرے پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔ اس نے صرف اتنا کہا کہ’ اگر جلدی آپریشن مکمل کر سکیں تو بہتر ہو گا۔‘ میرے دل میں کچھ شبہات پیدا ہوئے لیکن ڈاکٹر کی بات پر یقین کر کے میں اپنے کام میں پھرسے مصروف ہو گیا اور اپنی رفتار قدرے تیز کر دی۔
مریض کے سرہانے ہلچل اور سرگوشیاں مسلسل جاری رہیں۔ میرے دوبارہ استفسار پر ڈاکٹر نے کہا کہ مریض کا بلڈپریشر قدرے زیادہ ہو گیا ہے لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ آپ جلدی سے آپریشن ختم کرنے کی کوشش کریں۔اس گفتگو کے تقریباً 20 منٹ بعد آپریشن اختتام تک پہنچا اور میں نے نرس سے کہا کہ اس کے زخم پر پٹی لگا دے ۔ میں نے ربڑ کے دستانے اتار کر بالٹی میں پھینکے اور ساری توجہ مریض اور انستھیزیا کے عملے پر مبذول کر دی۔
ڈاکٹرنے مجھے بتایا کہ مریض کو فالج ہو گیا ہے جس کی وجہ شاید بے ہوشی کی دوائیں دینا ہے ۔آپریشن کے دوران اس کا بلڈپریشر قدرے بڑھ گیا تھا۔اس کے بقول اس نے مجھے پوری طرح حقیقت سے آگاہ نہیں کیا تھا تاکہ میں کہیں گھبرا نہ جاؤں اور توجہ مرتکز نہ رہنے کی وجہ سے آپریشن متاثر نہ ہو۔
بیہوشی کی حالت میں ایسے فالج کا پتہ مریض کی آنکھ کی پتلیوں سے لگایا جاتا ہے۔ جب نارمل فرد کی آنکھ پر ٹارچ کی روشنی ڈالی جائے تو اس کی پتلی سکڑ کر چھوٹی ہو جاتی ہے جبکہ عام حالات میں دونوں آنکھوں کی پتلیاں یکساں اور ایک ہی سائز کی رہتی ہیں۔ اگر مریض ہوش میں ہو تو فالج کی تشخیص اس کی زبان میں لکنت یابازو کے مفلوج ہونے سے ہوتی ہے ۔’رے‘ چونکہ بے ہوش تھا لہٰذا اس کے فالج کی تشخیص اس کی آنکھوں میں ٹارچ کی روشنی سے کی جا رہی تھی۔
میں نے کسی حد تک گھبراہٹ کی حالت میں نرس سے ٹارچ لے کر مریض کی آنکھوں کا معائنہ کیا۔ اس کی بائیں آنکھ کی پتلی مکمل طور پر بے حس و بے حرکت تھی۔ آپریشن کے دوران ’سی آراین اے‘ اپنا چارٹ اور ریکارڈ خود تیار کرتی ہیں ۔ میں نے اسے دیکھا تو معلوم ہوا کہ آپریشن کے دوران مریض کے بلڈپریشر میں صرف 10 ڈگری کا اضافہ ہوا تھا۔یہ اضافہ خطرناک حد سے بہت کم تھا۔ میں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ میں نے مریض سے کہا تھا کہ وہ مکمل بے ہوشی نہ لے لیکن وہ اس پرمصر تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اگر اسے ریڑھ کی ہڈی کا انستھیزیا دیا جاتا تو شاید نوبت فالج تک نہ آتی۔
اب ہمیں مریض کے ہوش میں آنے کا شدید انتظار تھا تاکہ دیکھ سکیں کہ فالج سے کتنا نقصان ہوا ہے اور وہ اپنے ہاتھ پاؤں ہلا سکے گایا نہیں ۔مریض کی فائل ایک اور نرس کے پاس تھی جس کی ہمیں فوری ضرورت نہ تھی‘ اس لئے کہ اس کی ہسٹری کے اہم نکات ہم سب کو معلوم اوریاد تھے۔ ہم اسے جلد ہوش میں آتادیکھنا چاہتے تھے اور انتظار کا ایک ایک لمحہ قیامت کا لگ رہا تھا۔ بالآخر اس کے جسم میں حرکت شروع ہوئی۔پہلے اس کے بازو ہلے اور پھر پاؤں میں جنبش ہوئی۔ سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا جس سے ہمیں اطمینان ہو گیا۔ بظاہر یوں لگتا تھا کہ فالج کا اثر اس کی صرف آنکھ پرہی پڑاتھا۔
میں نے نرس سے کہا کہ وہ مریض کی فائل لے آئے جس میں میری لکھی ہوئی تفصیلی ہسٹری موجودتھی ۔اسے ’چارٹ‘ کہا جاتا ہے۔ جب اسے پڑھا تو ساری حقیقت مجھ پرعیاں ہو گئی۔ میری پریشانی نہ صرف بالکل ختم ہو گئی بلکہ اپنی بے جا بوکھلاہٹ اور نادانی پر زور سے ہنسی بھی آئی۔
میں نے ہسٹری میں صاف طور پر ذکر کیا تھا کہ مریض جب 12 سال کا تھا تو اس کے بھائی نے غلطی سے اسے ایئرگن کا نشانہ بنا لیا تھا۔گن کا چھرا اس کی آنکھ میں لگا جس کی وجہ سے وہ اپنی آنکھ کھو بیٹھا۔ اس کی جس آنکھ کے بارے میں سب کو فکر تھی‘ وہ شیشے کی بنی ہوئی مصنوعی آنکھ تھی جو اتنی خوبصورتی سے بنائی گئی تھی کہ اس پر اصل کا گمان ہوتا تھا۔ قدرتی بات ہے کہ شیشے کی آنکھ کی پتلی روشنی پڑنے پر بے حس و بے حرکت ہی رہے گی۔ چونکہ ہسٹری لکھنے اور آپریشن میں تین ہفتوں سے زیادہ کاوقفہ پڑ چکا تھا لہٰذا مجھے مصنوعی آنکھ والی بات بھول گئی تھی اورانستھیزیا والوں نے بھی اس پر توجہ نہ دی تھی۔
اس واقعے کے بعد میں نے یہ معمول بنا لیا کہ صرف یادداشت پر تکیہ کرنے کی بجائے آپریشن سے پہلے مریض کے چارٹ کالازماً بغور مطالعہ کروں تاکہ آئندہ ایسی حماقت سرزد نہ ہو۔

Vinkmag ad

Read Previous

کچی شراب‘ خطرہ جان کیوں

Read Next

پیسے اور صحت کو سگریٹ کے دھوئیں میں مت اڑائیے

Leave a Reply

Most Popular