دھونس! اب نہیں

ثناء ظفر
’’اف !آج تو مجھے بہت بھوک لگی ہے ۔مما جلدی سے مجھے لنچ دے دیں ۔‘‘ولید نے سکول بیگ کرسی پر رکھتے ہوئے کہااوراپنے جوتے اتارنے لگا۔
’’آج میرے بیٹے کو اتنی زیادہ بھوک کیوں لگی ہے ؟کیا سکول میں اپنا لنچ نہیں کھایا تھا؟‘‘سعدیہ نے بیگ سے لنچ باکس نکالتے ہوئے پوچھا جس میں کھانا جوں کا توں رکھا تھا۔
’’مما!یہ دیکھیں میرا لنچ باکس خالی ہے۔ یاہو!میں بھائی سے جیت گیا،میں بھائی سے جیت گیا۔‘‘ احمر ‘ولید کے جواب دینے سے پہلے ہی اپنا لنچ بکس ماں کو دکھاکر خوشی سے اچھلنے لگا۔
’’یہ توبہت اچھی بات ہے۔ لیکن ولید آپ نے کیوں اپنا کھانانہیں کھایا؟‘‘سعدیہ نے ولید سے پوچھا جو احمر کی بات پر مسکرا رہا تھا۔
’’مما ،کلاس میں کچھ بچے شرارتیں اور خوب شورشرابا کر رہے تھے اور میرے دوست بھی ان کے ساتھ تھے ۔اس لیے لنچ کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ بعد میں ایک لڑکے کی وجہ سے تھوڑا سامسئلہ ہو گیاتھا۔‘‘ولید نے آج بریک ٹائم میں ہونے والے واقعے کو سوچتے ہوئے کہا۔
’’ارے کیا ہوگیا ؟کیا کسی کو چوٹ لگی یا کوئی اور بات ہے؟‘‘سعدیہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’آپ کو یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی کلاس کے ایک لڑکے وقاص کے بارے میں آپ کو بتایا تھا جو کلاس میں کچھ خاموش سا رہتا ہے ؟‘‘ولید نے سعدیہ سے پوچھا۔ کچھ یادآنے پر وہ کہنے لگیں:
’’ہاں مجھے یاد ہے ۔تم نے ذکر کیا تھااس کا۔‘‘
’’آج کچھ لڑکوں نے اسے بہت تنگ کیااور اس کا سارا لنچ بھی کھا گئے۔ وہ نہ ہی اسے پڑھنے دے رہے تھے اورنہ ہی اسے کلاس سے باہر جانے دے رہے تھے۔‘‘ولید اپنی جرسی اتارنے کو رکا اور پھر اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’آج تو وہ رونے بھی لگا تھا، حالانکہ وہ رونے والا بچہ نہیں ہے۔‘‘
’’ اس نے ٹیچر کو کیوں نہیں بتایا۔‘‘سعدیہ نے ولید کے کپڑے ہینگر میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’پتا نہیں کیوں، وہ کسی کو کچھ بھی نہیں کہتا ۔بس خاموش رہتا ہے اور کبھی کبھی ان سے لڑنے بھی لگتا ہے۔ میں نے تو اسے کہا تھا کہ ٹیچر کو بتاؤتاکہ وہ ان کی خوب کلاس لیں مگر وہ کچھ بھی نہیں بتاتا۔اُف!میں تو باتوں میں بھول ہی گیا کہ مجھے تو بھوک لگی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کچن کی طرف چل دیا۔
’’واہ جی واہ !میرے پسندیدہ مٹروں والے چاول…۔آج تو کھانے کا مزہ آئے گا۔‘‘اپنے پسندیدہ چاول دیکھ کر ولید کی بھوک چمک اٹھی۔
’’جی اور میرے بھی۔‘‘احمر نے اپنی پلیٹ سیدھی کرتے ہوئے کہا اور ولید سے پہلے چاول ڈالنے لگا۔
’’لگتا ہے لنچ میں نے نہیں بلکہ احمر نے چھوڑا ہے۔‘‘احمر کی پھرتی پر ہنستے ہوئے ولید گلاس میں پانی انڈیلنے لگا۔
’’احمر آپ بھی پہلے پانی پئیں۔‘‘سعدیہ نے احمر کو ٹوکا جو کھانا شروع کر چکا تھا۔
’’ولید، وقاص کے کتنے دوست ہیں ؟‘‘سعدیہ وقاص کے بارے میں پوچھنے لگیں۔
’’ارے مما !اس کا تو کوئی بھی دوست نہیں ۔اتنے بور بچے کا کون دوست ہو گا۔وہ ہر وقت اداس ،دیوداس بنا رہتا ہے۔‘‘احمر نے کہا۔ سعدیہ کو یہ بات بالکل پسند نہیں آئی:
’’بری بات احمر، ایسا نہیں کہتے ۔ہر ایک کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ اور ولید! آپ اس سے دوستی کیوں نہیں کرلیتے۔ ہو سکتا ہے کہ اسے کسی ایسے دوست کی ضرورت ہو جس سے وہ باتیں کر سکے۔‘‘سعدیہ نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
’’مما ،وہ مجھے زیادہ لفٹ ہی نہیں کراتاتو میں اس سے دوستی کیوں کروں۔‘‘ولید نے منمناتے ہوئے کہا ۔
’’تو آپ خود پہل کرو اس سے دوستی کرنے میں۔ میں کل اس کے لیے نگٹس بنا دوں گی۔وہ لے جانا ٹھیک ہے؟‘‘
’’لیکن مما۔۔۔‘‘ولید نے ہلکا سا احتجاج کرنا چاہا۔
’’دیکھو بیٹا! سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کوئی بہت پر اعتماد ہوتاہے اور کوئی اس خوداعتمادی سے محروم ‘ کوئی کم گو تو کوئی باتونی‘ کوئی الگ تھلگ رہنے والا تو کوئی بہت ملنسار۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ کم بولنے والے اور لڑائی جھگڑا نہ کرنے والے انسان برے ہوتے ہیں۔‘‘سعدیہ نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی:
’’آپ کو پتا ہے کہ ایسے بچے بہت اچھے دوست ثابت ہوتے ہیں۔ بس انہیں کسی کی تھوڑی سی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہ خود ان لڑکوں کو کچھ نہیں کہتا توآپ انہیں منع کریں اوراپنے ساتھ اسے بھی شامل کریں۔‘‘اس نے ولید کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’مما میں کوشش کروں گا کہ اس کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکوں۔ کیا میں اس بارے میں اپنی ٹیچر سے بات کروں تاکہ وہ ان لڑکوں کو سمجھا سکیں۔‘‘ولید نے حامی بھرتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں! یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘سعدیہ نے برتن اٹھاتے ہوئے کہا اورولید اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’بات سنو یار !آج بریک کے بعد وقاص کے پاس چلیں گے۔‘‘ تیمور نے حمزہ اور بلال سے کہا ۔
’’کیوں؟ تمہیں اس سے کوئی کام ہے کیا ؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’ارے نہیں ،کام تو کوئی نہیں ہے۔ بس اسے تنگ کرنے میں مزہ آتا ہے اور وہ بہت جلد غصے میں بھی آجاتا ہے ۔‘‘تیمور نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’السلام علیکم ! کیسے ہو۔‘‘ولید ہاتھ میں لنچ باکس لیے وقاص کے پاس آیا جو کاپی پر کوئی سکیچ بنا رہا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو ؟‘‘ اس نے اوپر دیکھے بغیر جواب دیا۔
’’میں بھی ٹھیک ہوں اور یہ دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔‘‘ولید نے لنچ باکس میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’تمہارے دوستوں نے اگر تمہیں یہاں میرے پاس دیکھ لیا تو وہ تم سے ناراض ہو جائیں گے۔‘‘وقاص نے اسے انتباہ کیا۔
’’مجھے ان کی کچھ خاص پرواہ نہیں ہے اور میں اپنی مرضی کا مالک ہوں۔ تمہیں بھی ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ولید نے پر اعتماد لہجے میں بات جاری رکھی۔
’’ہم پہلے لنچ کر لیں‘ اس کے بعد ان لوگوں سے نمٹتے ہیں۔ اور تم خود کو اکیلا نہ سمجھو۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘اس نے لنچ باکس کھول کر وقاص کے سامنے رکھا۔
’’وقاص !لاؤ یہ نگٹس مجھے دو۔ انہیں میں کھاؤں گااور تم میری ڈائری لکھو۔‘‘تیمور نے تحکمانہ لہجے میں کہا اور بغیر اجازت لنچ باکس اٹھا لیا۔ اس کی اس حرکت پر وقاص‘ ولید کی طرف دیکھنے لگا جیسے پوچھ رہا ہوکہ اب کیا کروں۔
’’تیمور! میں یہ نگٹس وقاص کے لیے لایا ہوں۔ اس لیے انہیں واپس رکھ دواور اپنی ڈائری بھی خود لکھو ۔‘‘اس نے سمجھاتے ہوئے اسے وہاں سے جانے کو کہا۔
’’تم اس کے پاس کیوں بیٹھے ہو ۔اپنے دوستوں کے پاس جاؤ۔‘‘تیمور نے تلملاتے ہوئے کہا۔
’’میں اپنے دوست کے پاس ہی ہوں۔ اور اگر تم نے آئندہ اسے تنگ کرنے کی کوشش کی تو ہم ٹیچر سے تمہاری شکایت کردیں گے۔‘‘ولید نے تن کر کہا۔
’’اچھا اچھا ۔جا رہا ہوں میں۔اور میں تمہیں دیکھ لوں گا ۔‘‘تیمور نے وقاص کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔‘‘ولید نے اسے یقین دہانی کرائی۔
’’میں تو سوچ رہا تھا کہ اب سکول چھوڑنا پڑے گا۔ یہ اور اس کا گروپ ہر وقت مجھے تنگ کرتا ہے جس کی وجہ سے نہ میں ٹھیک سے پڑھ سکتاہوں اور نہ ہی سکون سے کھیل پا تا ہوں۔‘‘وقاص نے اپنے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا۔
’’بس! پھر آج سے ہم دوست ہیں۔‘‘ولید نے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا جس پر وقاص نے بھی مسکرا کرہاتھ ملا دیا۔
۔۔۔۔۔۔
’’بیٹا جی! آپ کے دوست کا کیا حال ہے ؟‘‘سعدیہ نے ولید کی ڈائری چیک کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ بہت اچھا ہے ۔اور آپ کو پتا ہے کہ پچھلے ہفتے جو ٹیسٹ ہوئے‘ ان میں اس کی پہلی پوزیشن آئی ہے۔ وہ نہ صرف بہت لائق ہے بلکہ بہت اچھی باتیں بھی کرتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسے ہر چیز کے بارے میں پتاہوتا ہے ۔مثلاًفلاں ملک کا صدر کون ہے ؟ ہمارے ملک میں ٹیکنالوجی کا استعمال کتنا ہے وغیرہ وغیرہ ۔مجھے تو اس کے ساتھ باتیں کر کے بہت مزہ آتا ہے۔‘‘ ولید نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ میں نے کہا تھا ناں کہ وہ اچھا دوست ثابت ہو گا،اور اب دیکھ لو ۔‘‘سعدیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اور آپ کو پتا ہے کہ وہ اب ان لڑکوں سے بھی نہیں ڈرتا۔ ٹیچر نے بھی انہیں ڈانٹا تھا۔اس لیے بھی وہ اب کچھ سدھر گئے ہیں۔ ایک اچھی چیزجو ہوئی ،وہ میری اور وقاص کی دوستی ہے۔‘‘ولید نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا جائیں !اب اپنے بھائی کے ساتھ کھیلیں۔پھر پڑھائی کا وقت ہوجائے گا۔‘‘سعدیہ نے اسے کھیلنے کو کہا اور خود کھانا بنانے چلی گئیں۔
وہ سوچ رہی تھیں کہ سکول میں بہت سے بچوں کو بڑے بچوں کی دھونس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر والدین اسے بہت ہلکا لیتے ہیں، حالانکہ یہ چیز ان کی تعلیم اور ذہنی صحت پر بہت برا اثر ڈالتی ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

پیسے اور صحت کو سگریٹ کے دھوئیں میں مت اڑائیے

Read Next

ٹیکنالوجی کا کمال۔۔۔اپنوں سے توڑے‘غیروں سے جوڑے

Leave a Reply

Most Popular