Vinkmag ad

ٹیکنالوجی کا کمال۔۔۔اپنوں سے توڑے‘غیروں سے جوڑے

سماجی رابطوں کی سائٹس مثلاً فیس بُک‘ ٹوئٹر‘ وائبر اور سکائپ وغیرہ نے رابطوں کی دنیا میں یقیناً انقلاب برپا کیا ہے لیکن ماہرین اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو لوگ آن لائن زیادہ وقت گزارتے ہیں‘ وہ اپنی آف لائن زندگی میں ایک دوسرے سے زیادہ دور اور تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ مزید براں وہ جذباتی طور پر لاتعلق‘ ذہنی طور پر تھکے ماندہ اور نفسیاتی طور پر اضطراب کا شکار ہو رہے ہیں۔ماہرین سے گفتگوؤں کی روشنی میں محمد زاہد ایوبی اور صاعقہ تحسین کی معلومات افزاء تحریر


کچھ عرصہ قبل فیس بک پر ایک لڑکی کی تصویر بڑے پیمانے پر شیئر ہوئی جو سڑک پرموبائل فون استعمال کرتے ہوئے بے دھیانی میں کھلے مین ہول میں گر گئی اور موقع پر موجود لوگوں نے اسے کھینچ کر باہر نکالا۔موبائل فونز کے استعمال کی وجہ سے حادثات کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سماجی رابطوں کی سائٹس مثلاً فیس بُک‘ ٹوئٹر‘ وائبر‘ سکائپ اوروٹس ایپ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ دفتروں‘ گھروں‘ تعلیمی اداروں اورگاڑیوں میں لوگوں کی بڑی تعداد اپنے ساتھ بیٹھے افراد سے لاتعلق اور کہیں دور بیٹھے افراد سے مسلسل اور مستقبل رابطے میں مصروف نظر آتی ہے ۔

سماجی رابطوں کی سائٹس اس بات پر فخر کرتی ہیں کہ انہوں نے بکھرے لوگوں اور ٹوٹے رشتوں کو آپس میں جوڑدیا ہے ۔آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے احمد علی پوری‘ کمپنیوں کے اس دعوے کو درست سمجھتے ہیں‘ اس لئے کہ ان کے بقول ان کی بدولت دنیا کے فاصلے سمٹ گئے ہیں:
’’ ہمارے کچھ عزیز اوررشتہ داربیرونِ ملک مقیم ہیں جن سے کئی کئی سال تک بات نہ ہو پاتی تھی۔ ان سائٹس کی بدولت اب وہ ہمارے ساتھ مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ اس سے خاندانوں کو جڑے رہنے کا موقع ملا ہے۔ اس ضمن میں تصویروں کی شیئرنگ بہت ہی خوشگوار اوراچھا تجربہ ہے۔ انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم سب ایک ساتھ یادگار لمحات سے لطف ا ندوز ہو رہے ہیں۔‘‘
شادی‘ کامرہ (راولپنڈی) سے تعلق رکھنے والی سعدیہ اقبال کی زندگی میں بہت سی خوشیاں تو لائی لیکن اس نے اسے کالج دور کی سہیلیوں سے دور کردیا۔ اس پر وہ بہت افسردہ تھیں لیکن ان سائٹس نے اسے ایک دفعہ پھر ان سے جوڑ دیا :
’’یہ میرا سرمایہ تھیں اور مجھے ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی تھی۔ ان سائٹس کی بدولت میراان سے رابطہ دوبارہ بحال ہوگیا ہے۔ ہم لوگ اب ایک دوسرے کے ساتھ کھانوں کی تراکیب اور گھرداری سے متعلق معاملات اور معلومات شیئر کرتے ہیں، ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں اورآپس میں بات چیت کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔میں سمجھتی ہوں کہ روابط کی بحالی کے سلسلہ میں ان کی اہمیت سے انکار کرنا زیادتی ہے ۔‘‘

راولپنڈی کی رضوانہ رحمٰن بھی کچھ ایسے ہی خیالات رکھتی ہیں:
’’ میرے دو بیٹے گزشتہ آٹھ سال سے امریکہ میں مقیم ہیں اور سال میں بمشکل ایک مرتبہ ہی ان کاپاکستان آنا ممکن ہوتا ہے۔ اب ہم ان سے روزانہ سکائپ پر بات کرتے ہیں۔اس کی بدولت میرے بیٹے خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ اگر یہ سائٹس نہ ہوتیں تو میں اور میرے شوہر ان سے جدائی کا غم مشکل سے ہی برداشت کر پاتے۔ لہٰذا میں تو انہیں ایک نعمت ہی کہوں گی۔‘‘
اگر بات یہیں تک رہتی تو اس میں کچھ مضائقہ نہ تھا لیکن ان کے بے تہاشا اور بے مہار استعمال نے کچھ ایسے مسائل کو جنم دیا جو شاید انہیں دریافت یا ایجاد کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن (اے پی اے) کے ترجمان جریدے ’’مانیٹر آن سائیکالوجی ‘‘ کے جون 2011ء کے شمارے میں ”Alone in the crowd” یعنی ’ہجوم میں تنا‘کے عنوان سے اس معاملے کو موضوع بنایاگیاہے۔ ’میساچیوٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘ کے سوشل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر شیری ٹرکل (Sherry Turkle)نے اس پر اپنے تاثرات کچھ ان الفاظ میں قلمبند کئے :
’’ آج کے دور میں لوگ ایک دوسرے سے جس قدر رابطے میں ہیں‘ انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اس کاسہرا انٹرنیٹ کی بنیاد پر قائم سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اورتحریری پیغامات (ٹیکسٹ میسجنگ) کے سر ہے۔تاہم لوگ حقیقی زندگی میں ایک دوسرے سے دور اور تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ ’’Alone together‘‘ یعنی ’’اکٹھے ، مگرتنہا‘‘نامی کتاب میں انہوں نے 300 بچوں اور150بالغوں کے انٹرویوز کئے ۔ ان کی روشنی میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جو لوگ آن لائن زیادہ وقت گزارتے ہیں‘ وہ اپنی آف لائن زندگی میں زیادہ تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔مزید براں وہ جذباتی طور پر لاتعلق‘ ذہنی طور پر تھکے ماندہ اور نفسیاتی طور پر اضطراب کا شکار ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر فتح دین کھوسو، کشمور(سندھ)میں میڈیکل پریکٹس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سائٹس کی بدولت بچوں اور والدین میں ہی نہیں‘ میاں بیوی کے باہمی تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں:
’’ میرے پاس آنے والی بہت سی مریضائیں یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر دفتر سے آنے کے بعد گھر کے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتے اور آتے ہی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے اس رویے کے باعث بچوں کی پڑھائی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ خاوند شکایت کرتے ہیں کہ ان کی بیگمات انہیں وقت نہیں دیتیں۔ ان سے بات کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹھیک طرح سے سنتی ہی نہیں ۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بچے پاس بیٹھے رو رہے ہوتے ہیں اور وہ آرام سے اپنا فون استعمال کر رہی ہوتی ہیں۔ ان کے لئے باہر والے‘ گھر والوں سے زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔‘‘
منڈی بہاؤالدین کی روبینہ شاہین لوگوں کی ان سائٹس میں غیر معمولی دلچسپی پر نالاں ہیں۔ ان کے بقول ان سائٹس کی بڑی خرابی یہ ہے کہ اس نے لوگوں کے جنس مخالف کے ساتھ لگاؤ اور تعلقات کو بڑھاوا دیا ہے:

’’ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ساری ساری رات جاگ کر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں ۔ وہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنی زندگی کا اہم فرد سمجھنے لگتے ہیں۔ان سائٹس پر اجنبیوں کا اور اجنبیوں کو دوستی کی پیشکشیں کرنا بہت بیہودہ ہے ۔ ان کا بے جا استعمال چھوٹوں میں ہی نہیں‘بڑوں میں بھی نمایاں ہے ۔میں نے اکثر دیکھا ہے کہ خواتین گھروالوں کو وقت دینے کی بجائے ہروقت فون پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ مصروف رہتی ہیں۔ گھر میں بیٹھا مہمان، پاس روتا ہوا بچہ اور ان سب پر فون کی فوقیت بہت ہی برا تاثر دیتی ہے ۔
واہ کینٹ سے سجاد رفیق کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہم چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کو وقت نہیں دے پا رہے جن کاہم پرزیادہ حق ہے:
’’جب میرے پاس سمارٹ فون نہیں تھا تو روزانہ شام کے وقت والدین کے پاس بیٹھ کر ان سے بات چیت کرنا میرا معمول تھا۔ اب بھی شام کو ان کے پاس بیٹھتا ضرور ہوں مگر دھیان فیس بک یا وٹس ایپ کی طرف ہوتا ہے۔والدین دبے لفظوں میں اس کی شکایت بھی کرتے ہیں مگر اس لت سے جان چھڑانامیرے لئے مشکل ہوگیا ہے۔ جس طرح مجھے اپنے والدین سے بات چیت کا وقت نہیں ملتا‘ اسی طرح میرے بچے بھی اپنے اپنے فونوں پر مصروف نظر آتے ہیں اور انہیں مجھ سے بات کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا ۔ ‘‘
اسلام آباد سے گھریلو خاتون رفعت طاہر کہتی ہیں:

’’جب بچے چھوٹے تھے تو ہم ہر ہفتے کہیں نہ کہیں باہر گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا کرتے تھے۔ مگر اب فون اور لیپ ٹاپ نے ان کی زندگیوں کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ اگرمیں باہر گھومنے جانے کی بات کروں تو وہ کہتے ہیں’امی! آپ ابو کے ساتھ چلی جائیں، ہمارا موڈ نہیں ہے۔‘ یہ صورت حال ہر دوسرے گھر میں درپیش ہے جہاں بچے ان سائٹس میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ اپنے والدین کی بات بھی پوری توجہ سے نہیں سنتے۔اب دوسروں کے گھروں میں آنا جانا، ملنا ملانا اور اپنوں سے دکھ سکھ بانٹنے کا رواج بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔شام کی چائے اور رات کے کھانے پر گھر بھر کے مل بیٹھنے کو میری جیسی کئی مائیں بہت مِس کرتی ہوں گی۔‘‘

راولپنڈی کی ثمن احمر کہتی ہیں کہ وہ سوشل ویب سائٹس کا استعمال سٹیٹس سمبل بن گیا ہے اور جو شخص انہیں استعمال نہ کرے‘اسے دقیانوسی سمجھا جاتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے:
’’ ہم گھر والوں کی بجائے اپنے سوشل سائٹس فرینڈز کے ساتھ گپ شپ میں زیادہ تفریح محسوس کرتے ہیں۔ ہم پڑھائی کے دوران بھی انہیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں جس کے بعد پڑھنے کا وقت ہی نہیں بچتا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم محض اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ‘ان کے استعمال سے خود کو روک نہیں پاتے۔‘‘
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین سکون کامسیٹس (COMSATS) میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے روابط کی مثال ایک گاڑی کی ہے جس میں پانچ لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ اگر اس میں 10 لوگ گھسا دئیے جائیں تو جہاں گاڑی کا توازن خراب ہو گا‘ وہاں اس میں بیٹھنے والا کوئی بھی شخص آرام دہ حالت میں نہیں ہو گا۔ اسی طرح ہم بہت زیادہ لوگوں کے ساتھ جذباتی تعلق نہیں رکھ سکتے :

’’ ہمارے ہاں ایک گھر میں اوسطاً چھے افراد( ماں باپ اور چار بہن بھائی) ہوتے ہیں۔ایک انسان کی پانچ لوگوں سے جذباتی وابستگی ہونا اچھی ذہنی صحت کی اوپری حد ہے۔ہم نے ان سائٹس کا استعمال تو سیکھ لیا مگر یہ نہ سیکھا کہ ہم نے کس انسان کو کس حد تک وقت یا ترجیح دینی ہے۔ شادی کے بعد میاں بیوی کے درمیان بڑھتے ہوئے مسائل اور ان کی علیحدگی کی شرح بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ایک دوسرے کو معیاری وقت نہ دینا اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا ہیں۔‘‘
ہمارے ہاں بے چینی اور ڈپریشن جیسے مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اندازوں کے مطابق 2020ء میں صحت کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ڈپریشن ہوسکتا ہے ۔ان کے بقول اس کا ایک سبب اپنے قریبی رشتوں کو کوالٹی ٹائم نہ دیناہے۔ ڈپریشن کی ایک وجہ نیند کی کمی بھی ہے:

’’ والدین اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچے رات گئے فون اور لیپ ٹاپ پر لگے رہتے ہیں۔اس سے ان کی نیند پوری نہیں ہوتی اور وہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں ۔ وہ بات بات پر بحث کرتے ہیں۔ ان سائٹس کے بے جا استعمال کے ذہنی صحت پر بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث امریکن سائیکائیڑی ایسوسی ایشن اسے سائیکاٹرسٹ حضرات کی رہنمائی کے لئے ڈی ایس ایم (Diagnostic and Stistical manual of Mental Disorders) میں شامل کرنے کے بارے میں غور کر رہی ہے ۔
آغاخان یونیورسٹی ہسپتال کراچی کے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر محمود ریاض کا کہنا ہے کہ سوشل نیٹ وررکنگ سائٹس فائدہ مند چیز ہیں ‘ بشرطیکہ ان کا صحیح استعمال کیا جائے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کی ایجوکیشن ہمارے لوگوں میں نہیں ہے:
’’ہم برقی طور پر ایک دوسرے کے قریب لیکن جسمانی طور پر دور ہوتے جا رہے ہیں۔ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی کو کہنا کہ’ میں تمہیں مس کر رہا ہوں ‘اور خود جا کر ملنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔‘‘

وہ ایک اور پہلو کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں:
’’ہمیں سکول کی سطح سے لے کر پروفیشنل لائف تک کہیں نہیں سکھایا جاتا ہے کہ زندگی میں توازن کیسے لانا ہے ۔سماجی رابطوں کی سائٹس تک رسائی نے اس معاملے کو مزید بگاڑ دیا ہے ۔ ہم یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہم کن اہم افراد اور کاموں کو نظرانداز کر رہے ہیں اور کن کو ضرورت سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ اسی عدم توازن کی بدولت ہم فیملی کی تصاویر اور ویڈیوز دھڑلے سے شیئرکرتے ہیں ۔ شادی کے موقع پر گھر میں خواتین ہلکا پھلکا ڈانس کر لیتی ہیں۔ اگر آپ وہ شیئر کرتے ہیں اور وہ آپ کی مرضی کے بغیرنامناسب سائٹس پر اورغلط انداز میں اَپ لوڈ ہو جائے تو پریشانی اور شرمندگی کا باعث بنتا ہے ۔اس لئے ایسی تصاویر اور ویڈیوز اَپ لوڈکرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں۔‘‘
ان کاکہناکہ ان سائٹس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگوں کو ساری تفریح گھر پر ہی مل جاتی ہے لہٰذا وہ گھروں سے نکلتے ہی نہیں۔ جسمانی سرگرمیوں میں کمی کا نتیجہ موٹاپے کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی نیند ڈسٹرب ہورہی ہے اور ان کے باڈی پوسچرزمیں بھی فرق آرہا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ موبائل کان سے لگاکر واک کرتے ہیں۔ہمارے ہاں بھی یہ رجحان موجود ہے لیکن ابھی کم ہے ۔
چترال سے یار محمد خان کاکہنا ہے کہ دوسروں کے ساتھ رابطے جوڑنے کے دھوکے میں ہم اپنی قدروں کو کھوتے جا رہے ہیں:
’’ بچوں کو خود وقت دینے کی بجائے انہیں ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ تھما کرہم انہیں غیر اخلاقی سرگرمیوں کے سپرد کررہے ہیں۔ سوشل ویب سائٹس خلاقی برائیوں کو عام کر رہی ہیں اوریہ آہستہ آہستہ ہمارے اندر غیر محسوس طریقے سے جگہ بنانے لگی ہیں۔ اس سے بچوں کی پڑھائی اور دوسری ہم نصابی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں ۔‘‘

لوگوں اورماہرین سے گفتگوؤں کی روشنی میں درج ذیل امور اہمیت کے حامل ہیں:
*سماجی رابطے کی سائٹس مثلاً فیس بُک‘ ٹوئٹر‘ وائبراور سکائپ وغیرہ فی نفسہٖ مفید چیزیں ہیں۔ ان کی بدولت بچپن کے دوستوں اور ایسے ایسے لوگوں سے رابطہ ممکن ہوجاتا ہے جن سے ملنے کی امید ہی نہیں رہتی۔طلبہ‘ اساتذہ اور پروفیشنلز کے لئے یہ بہت کارآمد شے ہیں۔
* تفریح کی غرض سے بھی ان کا استعمال مفید ہے‘ بشرطیکہ یہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی ‘ سماجی اور مذہبی حدود کے اندر ہو۔
*دیکھا گیا ہے کہ ان سائٹس کا اثر نشے کی طرح ہے اور لوگ ان کے طلسم سے نکل نہیں پاتے ۔ وہ اپنی زندگیوں‘ کاموں اور افراد سے تعلق میں توازن قائم نہیں کرپاتے ۔ایسے میں قریبی عزیز نظرانداز ہوجاتے ہیں۔بزرگ افراد کی یہ شکایت بڑھتی جا رہی ہے کہ بچے ان کے پاس ہوتے ہوئے بھی عملاً ان کے پاس نہیں ہوتے اور کسی اور دنیا میں محو ہوتے ہیں۔ہمیں یہ توازن سیکھنا چاہئے۔

*ٹیکنالوجی کے ذریعے ملنا ملانا جسمانی طور پر ملنے ملانے کا متبادل نہیں۔ اس لئے ہمیں گھر سے باہر نکل کر عملی طور پر لوگوں سے ملنا چاہئے۔
* سائبر کرائمزہمارے معاشرے میں بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے تصاویر اورویڈیوز وغیرہ شیئر کرنے میں محتاط رہا جائے ۔
* تفریح کی اپنے موبائل اور کمپیوٹرپر دستیابی کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں میں جسمانی سرگرمیوں اور عملی کھیلوں میں دلچسپی کم ہوہی ہے جو غیر صحت مندانہ رجحان ہے ۔اس کا نتیجہ موٹاپے کی شکل میں نکل سکتا ہے جو کئی بیماریوں کی جڑ ہے ۔ اس لئے ورزش اورکھیل وغیرہ کا وقت انہیں مت دیا جائے ۔

Vinkmag ad

Read Previous

دھونس! اب نہیں

Read Next

Believe it or not

Leave a Reply

Most Popular