”السلامُ علیکم مریم اور شیزا ئ! کیسی ہیں آپ دونوں ۔“سجل نے چائے کی ٹرے میز پر رکھتے ہوئے پوچھا ۔
”میں ٹھیک ہوں سجل آپی!“شزاءنے اپناپنک فراک ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا ۔
”اور میرا بھی تو بتاﺅ نا ںکہ میں بھی ٹھیک ہوں۔“مریم فوراً اٹھتے ہوئے بولی ۔شاید شیزاءکا صرف اپنا حال بتانااسے اچھانہیں لگاتھا ۔
’ اچھا! یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔چلیں،آپ لوگ یہ جوس پئیں۔ “سجل نے گلاس اپنے مہمانوں کی طرف بڑھائے ۔
”ارے واہ! آج تو ہمارے گھر میں ننھے منے مہمان آئے ہیں ۔“عباس صاحب نے جو ابھی ابھی باہر سے آئے تھے‘ڈرائنگ روم میں بیٹھی اپنی بیٹیوں کو پیار کرتے ہوئے کہا ۔
”بابا، آج ہم دونوں سجل اپیا کی مہمان ہیں۔“شیزاءنے اپنے موتی جیسے دانت دکھاتے ہوئے بتایا۔
”اچھا، آپ لوگ کھیلیں، میں ہاتھ دھو لوں ۔“عباس صاحب یہ کہہ کر کمرے کی طرف چل دئیے اور بچیاں دوبارہ اپنے کھیل میں مشغول ہو گئیں۔
”ماما، کل سنڈے ہے۔ کیاہم لوگ کہیںگھومنے پھرنے چلیںگے؟“شیزاءنے ماما سے التجائیہ لہجے میں پوچھا ۔
”ٹھیک ہے ،لیکن ایک شرط پر۔ اور وہ یہ ہے کہ آپ کو اپنا ہوم ورک مکمل کرنا ہو گا۔“اسماءنے دوٹوک لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا۔ بچیوں نے بات فوراً مان لی اور ہوم ورک کرنے کیلئے اپنے اپنے بیگز کھولنے لگیں ۔
۔۔۔۔۔۔
”ہم کل کہاں جا رہے ہیں ؟“رات کے کھانے کے بعد سجل نے اپنے بابا سے پوچھا ۔
”آپ بتائیںکہ کہا ں چلیں ؟“عباس صاحب نے بچوں کی پسند کی جگہ پوچھی ۔
”بابا، میری فرینڈ بتا رہی تھی کہ وہ لوگ کل نتھیا گلی گئے تھے اور وہاں خوب انجوائے کیا تھا ۔ آپ کو مزے کی بات بتاﺅں۔ ان کی تصویروں میں بندر بھی تھے اور ایک تصویر میں تو بندر اس کے ہاتھ سے کیلا چھین رہا تھا ۔“شیزاءنے نان سٹاپ بولتے ہوئے بتایا ۔
”تو پھر کیا خیال ہے آپ کا ،وہیں چلیں ؟“اسماءنے سب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
”ارے وہ تو کافی دور ہے ۔کیا ہم بازار سے چیزیں خرید کر کھائیں گے ؟“شیزاءکو اپنے کھانے کی فکر ستانے لگی ۔
”ارے شیزاء۔ہم لوگ باہر کا کھانا نہیں کھائیں گے۔ پتہ نہیں وہ کیسا بنا ہو؟ ماما!آپ نے بتایا تھا ناں کہ باہر کا کھانا ’ ہیلتھ وائز‘ زیادہ اچھا نہیں ہوتا۔“سجل نے اپنی بات کی تصدیق چاہی۔
”جی بیٹا جی بعض دفعہ ہوٹلوں میں بنایا گیا کھانا غیر معیاری ہوتا ہے ۔“
”غیر معیاری کا کیا مطلب ہوا ؟“شیزاءنے غور سے بات سنتے ہوئے پوچھا۔
”غیر معیاری کھانے سے مراد ایسا کھانا ہے جسے تیار کرنے میں صحت کے حوالے سے کم سے کم معیار کا بھی خیال نہ رکھاگیا ہو۔ ایسا کھاناجو خراب آئل میں یا گندے برتنوں میں بنایا گیا ہو صحت کیلئے اچھا نہیں ہوتا ۔بعض دفعہ اس پر مکھیاں بھی بیٹھی ہوتی ہیں ۔اکثر اوقات تو سبزیاں بھی تازہ نہیں ہوتیںاور انہیں کھانے سے ہم بیمار ہو سکتے ہیں ۔ ہمیں اپنی صحت کا بھی تو خیال رکھنا چاہیے ناں!“اسماءنے تقریر کر ڈالی ۔
”پھر کیا کریں ؟اتنی دیر میں وہاں بھوکی کیسے رہوں گی ؟“شیزا ءکے لیے یہ کسی بڑی پریشانی سے کم نہیں تھا کیونکہ وہ کھانے پینے کی بہت شوقین تھی ۔
”اس کا بہت آسان حل میرے پاس موجود ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم لوگ گھر سے کھانا بنا کر لے جائیں گے۔جب ہمیں بھوک محسوس ہو گی تو نکال کر کھا لیں گے ۔“عباس صاحب نے رائے دی ۔
”یہ تو بہت اچھا رہے گا ۔… تو پھر ماما ہم کیا بنائیں گے ؟“سجل کو فوراً پکانے کا خیال آیا ۔
”میں بتاﺅں،میں بتاﺅں… “مریم جوخاموشی سے سب کی باتیںسن رہی تھی ‘یکدم بولی جس پر سب ہنس دئیے ۔
”ہاں جی! مینیو مریم کی پسند کا ہو گا ۔“اسماءنے مریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہم چکن نگٹس بنائیں گے کیونکہ میں وہی کھاﺅں گی ۔“شاہانہ انداز میں اپنی پسند بتانے کے بعدمریم نے سجل کی طرف دیکھا۔
”اور میں تو سینڈوچ کھاﺅں گی اور وہ بھی سلاد کے ساتھ! “سجل نے بھی اپنی پسند بتائی ۔
”اور ماما !میں توفش کھاﺅں گی اور ساتھ میں نگٹس اور سینڈوچ بھی چکھ لوں گی ۔“ شیزاءنے اپنی پسند بتائی جس پرسب ہنس دئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح سب بہت جلدی اٹھ گئے اورناشتے کے فوراً بعد نتھیاگلی جانے کے لیے تیاری شروع ہو گئی۔کچن میں اسماءنے آدھے سے زیادہ تیاری مکمل کر لی تھی ۔
”ماما میں آپ کی مدد کروں ۔“سجل نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا ۔
”میں نے نگٹس کا آمیزہ بنا دیا ہے۔ آپ اس کی اچھی اچھی شیپس بنا دو ۔“اس نے آمیزہ سجل کی طرف بڑھایا ۔
”میں بہت اچھے ڈیزائن کے نگٹس بناﺅں گی ۔“سجل نے خوش ہوتے ہوئے آمیزے کو شیپ دینا شروع کردیا۔
”ماما، میں سلادبناﺅں ۔“ سجل کو کام کرتا دیکھ کر شیزاءنے بھی آفر کی ۔
”ہاں بیٹا! آپ کاٹ لیں لیکن بہت احتیاط سے ۔“اسماءنے کٹنگ بورڈ پر سلاد کی اشیاءسجا دیں ۔دونوں بہت شوق سے کچن میں کا م کر رہی تھیںجبکہ مریم اور عباس صاحب سب کو ہدایات دے رہے تھے ۔
”واﺅ !بابا دیکھیں ۔سجل نے سٹار کی شیپ کا نگٹ بنایاہے ۔یہ تو میں کھاﺅں گی ۔“ مریم نے بابا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
”بس، اب میں انہیں فرائی کرنے لگی ہوں ۔اس کے بعد میری ڈش تیار ہو جائے گی۔“ سجل نے تمام نگٹس پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا۔
”تھوڑا جلدی کرلیں ہم لیٹ ہو رہے ہیں ۔“عباس صاحب نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا ۔
”ہاں، بس سب تیار ہے ۔“اسماءنے کھانا پیک کرتے ہوئے کہا ۔چلو جلدی سے گاڑی میں بیٹھو ۔
راستے کا سفر بچیوں کی شرارتوں میں خوب مزے کا گزرا۔ یوں ہی ہلہ گلہ کرتے ہوئے جب وہ لوگ نتھیا گلی پہنچے تو وہاں کا موسم بہت خوشگوار ہو رہا تھا ۔
”بابا !پہلے ہم لوگ گھوڑے پر بیٹھیں گے ۔“سجل کے کہنے پر سب اسی طرف چل پڑے ۔
”ہم کھانا کب کھائیں گے ؟ مجھے تو سخت بھوک لگی ہے ۔“شیزاءکے کہنے پرسب ایسی جگہ کی تلاش میں چل دئیے جہاں آرام سے دری بچھا کر کھانا کھایا جا سکے ۔
”ماما! سامنے بیٹھے لوگ تو بازار کی چیزیں کھا رہے ہیں ۔کیا ان کی صحت خراب نہیں ہو گی ؟“سجل نے کچھ فاصلے پر بیٹھے لوگوں کی طرف اشارہ کیا جو مختلف قسم کے چپس کھا رہے تھے اور مشروبات پی رہے تھے ۔
”ہو بھی سکتی ہے، لیکن ہمیں تو اپنی صحت کا خیال رکھنا ہے ناں۔ گھر کی بنی اتنی اچھی چیزوں کی بجائے ہم باہر کی بنی چیزیں کیوں کھائیں۔“اسماءنے سجل سے کہا اور گلاس میں جوس ڈالنے لگی ۔
”شیزاء! آ پ نے کتنے نگٹس کھائے ہیں ؟“سجل نے شیزاءسے پوچھا جو تین نگٹس کھانے کے بعد چوتھا پکڑنے کی تیاریوں میں تھی ۔
”میرا دل تو چاہ رہا ہے کہ یہ والا بھی کھاﺅں لیکن اب نہیں کھاتی ،صرف جوس ہی پی لیتی ہوں ۔“شیزاءنے معصوم شکل بناتے ہوئے جوس کا گلاس پکڑ لیا ۔
”آﺅ میں تم سب کے ہاتھ دھلوا دوں ۔“اسماءنے پانی کی بوتل پکڑتے ہوئے کہا ۔
شام کو سب لوگ واپس آ گئے اور اسماءاگلے دن کے لیے بچیوں کے یونیفارم استری کرنے لگی ۔
”آج تو بہت مزہ آیا ۔بابا میں نے ڈھیر ساری تصویریں بنائی ہیں۔ میں آپ کو دکھاتی ہوں ۔“سجل نے کیمرہ آن کرتے ہوئے کہا۔
”ماما! ہم اب جہاں بھی جائیں گے ،گھر سے کھانا بنا کر لے جائیں گے ۔کتنا مزہ آیا تھا ناں وہاں ۔“شیزاءابھی تک اسی جگہ کے خیالوں میں تھی
”میں تو اپنی فرینڈز کو بھی بتاﺅں گی کہ ہم نے خود کوکنگ کی تھی ۔“سجل نے اپنا یونیفارم ہینگر میں لٹکاتے ہوئے کہا۔
”ہاں، ضرور بتانا۔ اب سب جلدی سے دانت برش کریں اور سونے کی تیاری کریں، صبح سکول بھی جانا ہے ۔“اسماءکے کہنے پر سب اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔وہ ابھی تک نتھیا گلی کے مناظرمیں گم تھیں اور گھر کے کھانوں کا ذائقہ ان کے منہ میں رس گھول رہا تھا۔
