ہماری نظر جب کسی ہڈی پر پڑتی ہے توپہلا خیال یہی ذہن میں آتاہے کہ وہ کسی انسان‘ جانور یا پرندے کے جسم کابے جان ساحصہ ہے ‘ اس لئے کہ اس میں زندگی کی علامات نہیں پائی جاتیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ یہ تصورات درست نہیں ۔ہڈیاں درحقیقت جیتے جاگتے اعضاء ہیں جوہمارے جسم کو مخصوص شکل دینے کے علاوہ بھی بہت سے اہم امور سر انجام دیتی ہیں۔
ہڈیوں کی مثال ایک عمارت کی طرح ہے جو ہمارے جسم میں نشوونما پا رہی ہے ۔ عمارتوں کی تعمیرکیلئے سیمنٹ‘چونے‘ گارے‘شیشے اور لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اُن کے ٹھیک اور متناسب استعمال سے ہی ایک مضبوط‘پائیدار اور خوبصورت عمارت تشکیل پاتی ہے ۔اگر ان کا خیال نہ رکھاجائے تو عمارت ناپائیدار، بھدی اور کمزور بنے گی۔یہی حال ہڈیوں کا ہے۔ہمارا جسمانی ڈھانچہ ہڈیوں سے بنا ہوتاہے جس کی تشکیل اور نشوونما رحم مادرمیں ہی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سلسلہ 18سے20سال کی عمر تک جاری رہتا ہے۔ان کے ٹھیک طرح سے بننے اور ان کی نشونما کیلئے کیلشیم یعنی چونے کے علاوہ وٹامن ڈی اورپروٹین وغیرہ بھی ضروری ہیں۔ اگر جسم میںان چیزوںکی کمی ہو تو وہ صحیح طرح سے نہ بن پائیں گی اور مضبوط نہ ہوں گی ۔
سورج کی روشنی اور ماں کا دودھ
سورج کی روشنی اور ماں کا دودھ وٹامن ڈی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ جن علاقوںیا ممالک میں اپنے محل وقوع کی وجہ سے روشنی کم ہوتی ہے ‘ وہاںکے باشندوںمیں اس کی کمی پائی جاتی ہے ۔اسی طرح جو بچے ماںکے دودھ سے محروم رہ جاتے ہیں‘ ان کی ہڈیوں کی نشوونمابھی متاثرہو سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ نرم اور کمزورہوتی ہیں۔ جب بچہ ان ناقص اورکمزور ہڈیوں پر چلنا شروع کرتا ہے تو اس کے بوجھ سے ہڈیاں ٹیڑھی ہوجاتی ہیں۔ اس حالت کورِکٹس(rickets) ‘سوکھاپن یا ہڈیوں کا نرم ہو جانا کہتے ہیں۔ایسی ہڈیوں پر کھڑے جسم کی مثال اس عمارت جیسی ہے جس کی بنیادیں انتہائی کمزورہوں۔
ہمارے ملک میں سورج کی روشنی خاصی تیز ہوتی ہے جس سے فائدہ اٹھاناچاہئے اور تھوڑی دیردھوپ میں بیٹھنا چاہئے۔ہمارے ہاں بدن کو آدھا ننگا کرکے دھوپ میں لیٹنا ایک معیوب سی حرکت سمجھی جاتی ہے۔خصوصاً عورتوں کیلئے یہ ناممکن سی بات ہے۔ ایسی صورت میں مچھلی کا گوشت ضرور کھائیں۔ یہ وٹامن ڈی سے بھرپور ہوتا ہے۔ مچھلی لذیذ بھی ہے اور دیگر لحاظ سے بھی صحت کے لئے اچھی ہے۔
وٹامن ڈی اور کیلشیم
وٹامن ڈی کی محفوظ مقدار کے ٹھیک طریقے سے متعین کرنے میں اختلاف پایا جاتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وٹامن اکثر ان غذائوں میں پایاجاتا ہے جن میں وٹامن اے بھی موجود ہوتا ہے ۔ اس طرح اکثر انہیں زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے جسم میںزہریلے اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں۔اگر انہیں قدرتی اشیاء کے ذریعے استعمال کیا جائے تو ان کا زہریلا پن دیکھنے میں نہیں آتا۔یہ اس صورت میں دیکھنے میں آتا ہے جب اس کیلئے گولیاں اور دوائیں بے اعتدالی سے استعمال کی جائیں۔
وٹامن ڈی3،وٹامن ڈی کی وہ صورت ہے جو قدرت نے ہمارے استعمال کیلئے موزوں ترین بنائی ہے۔یہ دنبے کی کھال اور اون سے نکال کر استعمال ہوتی ہے۔ مغربی ممالک میں اسے کھانے کے تیل، دودھ اور مشروبات مثلاً(نارنگی کے شربت) میں شامل کردیا جاتاہے۔اس کا استعمال ان علاقوں میں ضرور کرنا چاہئے جہاں سورج کی روشنی کم پڑتی ہے۔2010ء کی ایک تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی2بھی موزوں قراردی گئی ہے۔کھمبیوں اور فنگس کو خاص شعاعوں سے گزارکران میں موجودوٹامن ڈی 2 کو استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے ۔
ایک چھپا ہوا فائدہ
موٹاپاذیابیطس سمیت بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے تاہم اوپر بیان کی گئی مثال کی روشنی میں بعض اوقات یہ زحمت کے ساتھ ساتھ ’’چھپی رحمت‘‘ بھی ثابت ہوجاتا ہے۔جب بڑھاپے میں وزن زیادہ ہوتا ہے تو ہڈیوں پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے ۔ اس سے ٹانگوں اور کولہے کی ہڈیوں کو قدرے مضبوط ہونے میں مدد ملتی ہے۔ اس طرح پٹھے کمزور ہونے سے بچ جاتے ہیں‘ اس لئے کہ وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں جسم کے نچلے حصے میں زیادہ زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہڈیاں بھی زیادہ بوجھ اُٹھانے کی وجہ سے کیلشیم کم کھوتی ہیں۔نتیجتاًکولہے کی ہڈی کے ٹوٹنے کے خدشات موٹے بزرگوں میں قدرے کم دیکھنے میں آتے ہیں۔اگرچہ بڑھاپے میں موٹاپے کا ایک چھوٹا سافائدہ ضرور موجود ہے لیکن ا س کا یہ مطلب ہر گز نہیںکہ بزرگ افراد اپنا وز ن بڑھانا شروع کردیں۔ یاد رکھیں کہ موٹاپا شوگرکے مرض اور کولیسٹرول کو بڑھاتا ہے اور اس کی پیچیدگیاں زیادہ نقصان دہ ہیں۔
ہارمونز کا اندھا دھند استعمال
جن خواتین کو سن یاس(menopouse )کی وجہ سے ہڈیوں کے مسائل درپیش ہوں‘ انہیں ڈاکٹر صاحبان ایچ آرٹی (hormone replacement therapy) تجویز کرتے ہیں۔یہ اکثر مفید ثابت ہوتی ہے لیکن ہارمونز کو اندھادُھند استعمال کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں‘ اس لئے کہ اس سے چھاتی کے سرطان اور دیگر پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔لہٰذا سب کچھ کسی ماہر ڈاکٹر کی زیر نگرانی ہی کرنا چاہئے اورایسا کرنے کی صورت میں باقاعدگی سے میموگرافی (چھاتی کا ایکسرے) کرانی چاہئے۔ جو افراد انٹرنیٹ سے واقف ہیں‘انہیں چاہیے کہ ’’ایچ آرٹی‘‘سے متعلق مکمل معلومات حاصل کریںتاکہ انہیں اس کے منفی اثرات کا علم ہو اور ان کی مثال ’’آسمان سے گراکھجور میں اٹکا‘‘ والی نہ بن جائے۔
بڑھاپے میں اپنے ’’بون بنک‘‘ کو مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ابھی سے اپنی غذاء میں کیلشیم کا استعمال رکھیں‘ وٹامن ڈی سے استفادہ کرتے رہیں اور جسمانی ورزشوں کو اپنا معمول بنائیں۔ لوگوںکو چاہئے کہ نوجوانی بلکہ بچپن سے ہی صحت مند طرز زندگی کواپناشعار بنائیں۔
