کیسے بچیں… کھیل میں چوٹ

کیسے بچیں… کھیل میں چوٹ

”دانیال بیٹا آپ کہاں جا رہے ہیں ؟“ زارا نے جو کچن میں بیٹھی برتن خشک کر رہیں تھیں، دانیال کو باہر جاتا دیکھ کر پوچھا۔

”مما میں زیادہ دور نہیں جا رہا۔ ساتھ والے خالی میدان میں ہم سب دوست کرکٹ اور فٹبال کھیلنے جا رہے ہیں۔“دانیال نے دروازے کے ساتھ پڑا گیند اٹھاتے ہوئے بتایا۔

”اچھا ٹھیک ہے۔آپ ایسا کریں کہ چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لے جائیں۔ وہ بھی تھوڑا انجوائے کر لے گا اور جلد واپس آ جائیے گا۔“زارا نے فیصل کو بھی دانیال کے ساتھ بھیج دیا اور خود دوپہر کے کھانے کی تیاری کرنے لگیں۔

میدان میں بہت سے لڑکے جمع تھے جن میں سے کچھ خوش گپیوں میں مصروف تھے اورباقی مختلف طرح کے کھیل کھیلنے میں مشغول تھے۔

”ارے واہ آج تو فیصل بھی دانیال کے ساتھ آیا ہے۔ ایسا کرتے ہیںکہ آج ایمپائر کی ذمہ داری فیصل کو دیتے ہیں۔کیوں فیصل آپ ہماری ٹیم کے ایمپائر بنوگے ؟ “احمد نے دانیال سے ہاتھ ملاتے ہوئے فیصل سے پوچھا جس پر اس نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ حامی بھرلی۔

دونوں ٹیموں نے ٹاس کے بعد کھیل شروع کر دیاجبکہ وہاں موجود بہت سے لوگ میچ دیکھ رہے تھے۔ ایک اچھا سکور دینے کے بعد دانیال کی ٹیم نے بیٹنگ شروع کر دی۔

”یار! ان کے بالر تو بہت تگڑے ہیں۔ ان کی بالنگ کے آگے جمے رہنا ذرا مشکل لگ رہاہے۔ “حمزہ نے اُوور ختم ہونے پر احمدسے کہا۔

”خیر ہے یار ۔بس ذرا جم کر کھیلو۔“

اگلی گیند پر احمد نے چھکا لگانے کی کوشش کی لیکن وہ کیچ آوٹ ہو گیا۔ اب احمد کی جگہ دانیال نے بیٹ سنبھالااور اگلی گیند کا انتظار کرنے لگا ۔مخالف ٹیم کے بالر نے گیند کروائی لیکن گیند کھیلنے کے فوراً بعد دانیال کو بازو میں شدید تکلیف شروع ہو گئی اور بیٹ اس کے ہاتھ سے نیچے گر گیا۔ تکلیف کی شدت سے اس سے ہلا ہی نہ جا رہاتھا۔ وہ وہیں بیٹھ گیا۔

”مما مما!بابا کو جلدی بھیجیں۔“پھولے سانس کے ساتھ فیصل نے چلا کرزارا کوپکارا۔

”یا اللہ خیر ۔۔کیا ہوا فیصل ،اوردانیال کہاںہے۔“زارا نے کمرے سے نکلتے ہوئے اپنے بیٹے سے پوچھا ۔شورکی آواز سن کر زبیر صاحب بھی کمرے سے نکل آئے۔

”بابا! جلدی چلیں دانیال کے بازو کو کچھ ہو گیا ہے۔ اسے بہت درد ہو رہا ہے۔“زبیر فوراً میدان کی طرف چلے آئے جہاں میچ ہو رہا تھا۔ دانیال کو گاڑی میںبٹھایا اور فوراً قریبی ہسپتال لے گئے۔

”یہ چوٹ کیسے لگوا لی بیٹا؟“ڈاکٹر نے بازو اورکندھے کا معائنہ کرتے ہوئے دانیال سے پوچھا۔
”ڈاکٹر صاحب !مجھے توکچھ بھی نہیں لگا۔بس اچانک درد شروع ہو گیا۔“دانیال نے چوٹ کے بارے میں بتایا۔

”گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ بازو اور کندھے کے پٹھوں میں اکڑاﺅ ہے۔“ڈاکٹر نے اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد زبیر صاحب کو بتایا۔

”میں درد کم کرنے کے لیے دوا اور مساج لکھ کر دے رہا ہوں۔اس سے آرام ملے گااور کھیل میں ذرا احتیاط کیا کریں۔“ڈاکٹر نے سلپ پر کچھ ادویات لکھتے ہوئے کہا۔

”آپ ٹھیک کہتے ہیں ڈاکٹرصاحب!کھیل کے دوران بچوں پر نظر تو نہیں رکھی جا سکتی۔ ان کے زخمی ہونے کا خطرہ تورہتا ہے لیکن دانیال کو تو بغیر کسی وجہ کے درد شروع ہو گیا ہے۔ اس کا کیاسبب ہے؟“زبیر صاحب نے متفکر انداز میں ڈاکٹر سے پوچھا۔

”کھیل کے دوران بچوں کو کئی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر پٹھوں کے کھچ جانے ، کمر درداور کندھا لٹک جانے جیسے مسائل دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان سے بچنے کے لیے سکولوں یا گھروں میں ایسی ورزشیں یا احتیاطیں بتائی جاتی ہیں جن کو کرنے سے ان مسائل میں کمی لائی جا سکتی ہے۔“ڈاکٹر نے اس بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔

”ڈاکٹر صاحب اس کے لیے کس طرح کی ورزشیں کی جاتی ہیں ؟“دانیال نے اپنی معلومات میں اضافے کے لیے ڈاکٹر سے پوچھا۔

”دانیال بیٹا سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھیں کہ جب بھی کرکٹ ،فٹ بال یا کوئی دوسرا کھیل کھیلنے لگیںتو پہلے اپنے جسم کوہلکی پھلکی ورزش جس میں بازﺅں اور ٹانگوں کی ورزشیں شامل ہیں،کے ذریعے تھوڑا”وارم اپ“ کر لیں۔ اس سے آپ کے جسم کے اندر خون کے بہاﺅ میں مدد ملے گی اور پٹھے گرم ہو جائیں گے۔گرم پٹھوں کے اکڑنے یا سکڑنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔“ڈاکٹر نے اس بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔

”اس کا مطلب ہے کہ اگر میں یہ ورزشیں کر لیتا تومجھے اس مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔“دانیال نے ڈاکٹر کی بات سے متفق ہوتے ہوئے کہا۔

”جی بالکل! اب آپ کو کچھ دنوں تک احتیاط کرنی ہے تاکہ مسئلہ مزید خراب نہ ہو اور آپ جلد ٹھیک ہو سکیں۔“ڈاکٹر نے اس بارے میں مزید معلومات دیں جس کے بعد زبیر صاحب دانیال کے ساتھ گھر واپس آ گئے۔

”ابھی آپ کی طبیعت مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئی اور پھر کھیلنے جا رہے ہو۔“دو دن بعد دانیال کو دوبارہ باہر جاتے دیکھ کر زارا نے ٹوکا۔

”مما میں ابھی کھیلوں گا نہیں بلکہ جو معلومات ڈاکٹر نے مجھ سے شئیر کی ہیں‘ وہ اپنے دوستوں کوبتاﺅں گا تاکہ وہ بھی اس طرح کے مسئلے یا چوٹ سے محفوظ رہ سکیں۔“دانیال نے باہر جاتے ہوئے زارا کو بتایا۔

دوپہر کے بعد میدان میں بڑے لڑکے اور بچے اچھی خاصی تعداد میں جمع تھے۔احمد اورباقی دوستوں نے دانیال کو آتا دیکھ کر اس طرف دوڑ لگائی۔

”ارے یار! اس دن کے بعد سے آج نظر آ رہے ہو۔ بازو کیسا ہے اب ؟“احمد نے حال دریافت کرنے میں پہل کی ۔باقی سب دوسست بھی اس کے اردگرد جمع تھے۔

”میرے بازو کے مسلز میں اکڑاﺅ کی وجہ سے تکلیف شروع ہو گئی تھی لیکن اب پہلے سے بہتر ہے ۔ “دانیال نے سب سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

”مجھے ڈاکٹر نے بہت اچھی اور اہم باتیں بتائی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم سب بھی اس پر عمل کریں۔ “یہ کہہ کر وہ انہیں تمام باتیں بتانے لگا جو اس نے ڈاکٹرسے سنی تھیں۔

”جسم کو گرم کرنے کے بارے میں تو ہم نے سنا تھا لیکن سٹریچنگ (stretching) کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے ۔“مبین نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے پوچھا۔

” عضلات میں لچک پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے کھیل کے دوران چوٹ لگنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اس کے لیے بہت ہلکی پھلکی ورزشیں ہوتی ہیں لیکن سٹریچنگ کا دورانیہ 30سیکنڈ سے ایک منٹ کے درمیان ہونا چاہیے۔“دانیال کی باتیں سب بہت غور سے سن رہے تھے۔

دانیال نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا:”اس کے علاوہ کھیل کے دوران جسم کے جن اعضاء کو سب سے زیادہ کام کرنا ہوتا ہے، ان کی سٹریچنگ کا خاص خیال رکھیں۔ جیسے کرکٹ میں بازؤں اور ٹانگوں کے مسلزکو مضبوط ہوناچاہیے۔اور ہاں ہم میں سے کوئی بھی ہیلمٹ اور ٹانگوں کے پیڈ استعمال نہیں کرتا ۔ یہ بہت ضروری ہیں۔“

”ارے ہاں یار میرے ایک دوست کی ٹانگ پر بہت سخت گیند لگی تھی۔ بیچارے کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا تھا۔“معیز کو اپنے ایک دوست کی تکلیف یاد آ گئی۔

”کھیلوں میں بنائے جانے والے اصول ہمارے ہی لیے ہوتے ہیں تاکہ ہمیں کسی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔“احمد نے سنجیدگی سے اپنی رائے دی۔

”لیکن یار ہم کسی بڑے لیول پر تو نہیں کھیل رہے ناں۔ چھوٹے سے میدان میں چند دوست اکٹھاہو کر کھیلتے ہیں۔“سلمان کو شاید کھیل سے پہلے کی تیاری کچھ بھائی نہ تھی۔
”لیول بڑ ا ہو یا چھوٹا‘احتیاط تو کرنی چاہیے ۔مجھے دیکھ لو میں کسی بڑے لیول پر نہیں کھیل رہا تھا لیکن پھر بھی مجھے نقصان ہوا۔ اگر میں کھیل سے پہلے کچھ احتیاط کرتا تو شاید ایسا نہ ہوتا ۔“دانیال نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا۔

”یا ریہ سب اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ ہم آج سے ہی اس پر عمل کر دیتے ہیں اور کھیل شروع کرنے سے پہلے ورزش کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔“مبین نے دانیال کی ہاں میں ہاں ملائی۔

”اوئے مبین! چل پھر،شروع ہو جا ورزش ۔“مبین کی بات پر سلمان نے فوراً ایکشن لیتے ہوئے کہا ۔
دانیال نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا:”ہم لوگ اپنی سپورٹس کِٹ بنائیں گے اور ہر کوئی اس میں اپنی پسند اور مرضی سے چیزیں ڈالے گا۔“

”میں ہیلمٹ لاﺅں گا “ احمد بولا

”اورمیں ٹانگوں اور بازﺅوں کے لیے پیڈ “ حمزہ کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ باقی بچوں نے بھی باری باری اپنی چیزیں گنوائیں۔

”میں خود کھیلنے کے لئے آ جاﺅں گا! “ مبین کی بات پر سب بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے گھروں کو چل دئیے۔

sports injury, injuries, first aid for sports injuries, 

Vinkmag ad

Read Previous

ویل سٹیک

Read Next

کدھر سے آیاکدھر گیا وہ

Leave a Reply

Most Popular