Vinkmag ad

جلد کی پیوند کاری

جرم اور گناہ انسان کی سرشت میں شامل ہیں اور فرد کو ان سے باز رکھنے کیلئے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ جزا و سزا کے استعمال کو بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ سزائیں حاکم ِوقت کا رعب و دبدبہ قائم کرنے‘ غصے کے اظہار اورانتقام کے جذبے کے تحت بھی دی جاتی ہیں۔ان کی شدت کا انحصارملزم کے جرم کی نوعیت اور اس کی شدت پر ہوتا ہے۔شدید نوعیت کے جرائم میں سزا کے طو ر پر ہاتھ‘ پائوں یہا ں تک کہ ناک اور کان کاٹنے کا رواج بھی بہت پرانا ہے۔ریاست یا حاکم کے خلاف بغاوت کے علاوہ چوری اور زنا ان جرائم کی فہرست میںشمار ہوتے تھے جن کے مرتکب فرد کو اپنے ظاہری جسمانی اعضاء سے محروم ہونا پڑتا۔ سخت سے سخت جسمانی سزا بھی آخرکار ختم ہو ہی جاتی اور زخم بھی مندمل ہو ہی جاتے لیکن جن افراد کو مخصوص جرائم کی وجہ سے اپنے اعضاء سے ہاتھ دھونا پڑتے‘اُن کی بقیہ زندگی اعضاء سے محرومی کے
ساتھ ساتھ سزایافتہ ہونے کی مہر کے ساتھ گزرتی ۔ بدنامی کے اس ظاہری اشتہار سے بچنے کیلئے تین ہزار قبل از مسیح کے ہندستان میں کچھ لوگوں نے اپنے کٹے ہوئے ناکوں اور کانوں کو مرمت کراناشروع کر دیا ۔

بہت سے لوگوں کیلئے یہ بات شاید باعثِ حیرت ہو کہ تاریخ کے اس دور میں اعضاء کی مرمت کا یہ انوکھا کام ’’کو ماس‘‘ ذات کے کمہار اور ٹائلیں بنانے والے کیا کرتے تھے ۔جلد کی پیوند کاری کے یہ اولین معمار اس کام کے لئے انسانی کولہے سے جلد کا مطلوبہ سائز کا ٹکڑا لیتے اور اس سے لوگوں کے ناکوں اور کانوں کی مرمت کردیتے۔یہ عظیم اور انتہائی حساس نوعیت کا کام کرتے ہوئے انہیں ہرگز اندازہ نہ ہوگا کہ وہ مستقبل میں جلد کی پیوندکاری اور پلاسٹک سرجری کے شعبے کی بنیادیں رکھ رہے ہیں۔

کمہاروں اور ٹائل سازوں کا یہ کام طویل عرصے تک گوشہ گمنامی میں رہااور پھر بتدریج پھیلنے لگا‘ اس لئے کہ اس کی طلب دنیا کے ہر حصے میں موجود تھی۔ اٹلی کے ایک باشندے برینکاس نے 1442ء میں نئی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ایک مریض کے کٹے ہوئے بازو کو دوبارہ جوڑ دیا ۔ ایک اور تجربے میں اس نے ایک غلام کا ناک کاٹا اور پیوندکاری کے ذریعے اس کے آقا کو لگا دیا۔ اس سرجری کے لئے اس نے آقا کے بازو سے جلد کا ٹکڑا لیا تھا۔ یہ ایک حیرت انگیز پیش رفت تھی لیکن بدقسمتی سے اس کے کام کو پذیرائی نہ مل سکی اور مزید ایک صدی اس پر مزید تحقیق کے بغیر ہی گزر گئی ۔ اٹلی ہی کے ایک شخص’’ٹیگلیا کوزی‘‘ نے جلدکی پیوندکاری کے سلسلے میں برینکاس کے کام کونمایاں کیا اور اسے مزید آگے بڑھایا ۔ یہی وہ شخص ہے جسے جدید دور میں پلاسٹک سرجری کا باوا آدم کہا جاتا ہے ۔وہ میدان جنگ میں زخم کھانے والے سپاہیوں کے چہروں پرلگنے والے زخموں کا علاج بھی کرتا تھا۔ اس نے اپنے تحقیقی کام کو 1597ء میں شائع کرایا ۔
رائل سوسائٹی آف لندن نے1663ء میں مختلف تجربات کے ذریعے کوشش کی کہ پیوند کیلئے انسان کی بجائے کتے کی جلد استعمال کی جا سکے لیکن اس میں کامیابی نہ ہوئی اوراس پر تحقیق کو عارضی طور پر ترک کردیا گیا۔ گرین گاٹ نے1731ء میںدعویٰ کیا کہ اس نے سکِن گرافٹنگ کے ذریعے ایک سپاہی کی جزوی طور پر کٹی ہوئی ناک کو جوڑ دیاہے۔شاید اسے علم نہ تھا کہ یہ کا م اس سے بہت پہلے اٹلی میں ہو چکا ہے لیکن بہرحال اس کا دعویٰ اورکام بھی ریکارڈ پر آگیا۔1804ء میں ’’بارنیو‘‘نامی ایک سرجن نے بھیڑ پر پیوند کاری کا تجربہ کیاجو کہ کامیاب رہا۔
سوئٹزرلینڈ کے سرجن ریورڈین نے بھی اس کام کو ذرا زیادہ بہتر انداز میں کرنے کی کوشش کی اور اس کے کام کو بنیاد بناتے ہوئے1871ء میں اولئیر نے جلد کی پیوند کاری کو زخموں کو مندمل کرنے کے لئے بھی استعمال کیا ۔اس مقصد کے لئے اس نے جلد کی نہ صرف اوپر ی سطح کو‘ بلکہ نچلی سطح کو بھی استعمال کیا ۔اس سے نہ صرف زخم جلد مندمل ہوئے بلکہ ان سے پڑنے والے نشانات بھی کم تھے۔اسی سال پولک نے اس تکنیک سے جھلس جانے والے مریضوں کا علاج کیا ۔اس مقصد کے لئے اس نے اپنی جلد کا چھوٹاسا ٹکڑا عطیہ کیا اور اسے مریض کی جلد کے ساتھ ملا کر آگ سے جھلس جانے والے زخم پر لگایا۔ جلد کی پیوند کاری شروع ہونے سے جل جانے والے مریضوں کی دیکھ بھال بہتر ہوئی اور ان کی شرح اموات میں بھی خاطر خواہ کمی آئی۔

یہ کامیابیاں اپنی جگہ اہمیت کی حامل تھیں لیکن اس وقت سرجنوں کو ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ وہ جلد کا جو بھی ٹکڑا لگاتے‘ وہ کچھ عرصے بعد مردہ ہو جاتا۔ بیسویں صدی میںاس مسئلے کا حل جاننے کے لئے تحقیقات شروع ہو گئیں اور بالاآخر1943ء میں میڈاوار اور گیبسن یہ دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ اس کی بنیادی وجہ انسان کا مدافعتی نظام ہے جو اسے جسم کا حصہ نہیں بننے دیتا۔ اب انسانی جسم کے مدافعی نظام کو دبا کر مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کا راستہ نکالا گیا ۔ اس دور میں منجمد کی ہوئی جلد کو زخموں کی مرہم پٹی کے لئے استعمال کرنے کے سلسلے میں بھی پیش رفت ہوئی جس کے نتیجے میں الیکٹرک ڈرماٹوم سامنے آیا۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس کی مدد سے جلد کی باریک تہہ کو نہایت نفاست سے اتارا جاتا ہے۔ اسی دور میں امریکہ میں پہلے سکن بنک کا قیام بھی عمل میں آیا۔

بیسویں صدی کے آخری نصف میں جلے ہوئے مریضوں کے زخموں کی مردہ جلد سے بائیولاجیکل ڈریسنگ شروع ہو ئی ۔ اس بارے میںمزیدتحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جلد کی پیوند کاری نہ صرف زخموں کو ڈھانپنے میں معاون ثابت ہوتی بلکہ زخموں پر بیکٹریابھی کم تعداد میں پرورش پاتے۔ یوں دنیا اس حوالے سے نئی پہلوئوں سے متعارف ہوئی ۔موجودہ دور میں جلد کی پیوند کاری کو بہت سے مقاصد کے لئے نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے ۔یہ تکنیک پرانے السر اور گنجے پن کے مریضوں کے علاج میں بھی بہت کارآمد ثابت ہوئی ہے۔ یقیناً اس کا پہلا کریڈٹ ان کمہاروں اور ٹائل سازو ں کو جاتا ہے جنہوں نے اس شعبے کی پہلی اینٹ رکھی تھی ۔ (عمران احمد لاشاری)

Vinkmag ad

Read Previous

پلاسٹک … رحمت یا زحمت

Read Next

کھیلیں ضرور‘ مگر جان سے نہیں

Leave a Reply

Most Popular