Vinkmag ad

کھیلیں ضرور‘ مگر جان سے نہیں

انسانی فطرت کے بعض رنگ بہت ہی عجیب ہیں جن میں سے ایک خطرات مول لینا اور ان کابہادری سے مقابلہ کرنا ہے۔ اسی وصف کی بدولت انسان نے ایک عالم کو تسخیر کیا‘ وحشی درندوں کو لگام ڈالی‘ سمندروں کی تہیں کھنگال دیں‘ ہوائوں میں اڑا‘فضائوں کو چیرتا ہواچاند پراترا اورآج مریخ پر قدم رکھنے کے لئے پر تول رہا ہے۔کھیل انسانی زندگی کا اہم حصہ ہیں اورجب وہ اس میدان میں اترا تو اس نے اس جذبے کی تسکین کے لئے ایسے کھیل ایجاد کئے جوانسانوں کے لئے خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ جانوروںکے لئے بھی ظالمانہ تھے۔ ’’بل فائٹنگ ‘‘ بھی ایسا ہی ایک کھیل ہے جس کی سب سے وحشیانہ قسم میں بھینسے کونیزے کی مدد سے ہلاک کیا جاتا ہے۔اس کھیل میں حصّہ لینے والا بھینسا خاص نسل سے تعلق رکھتا ہے جو زخموں سے نڈھال ہونے کے باوجود نہ لڑائی سے بھاگتا ہے اور نہ ہی اپنی شکست تسلیم کرتا ہے۔بیل کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ان سے لڑنے والے جانباز کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔اگر جان کسی عظیم مقصد کے لئے دی جائے تو باعثِ افتخار ہے لیکن کھیل تماشوں میں جان گنوانااس مخلوق کے شایانِ شان نہیں جو علم و عقل کی وجہ سے نہ صرف اشرف المخلوقات کہلاتی ہے بلکہ خدا ئی نیابت کی بھی دعویدار ہے۔

 

زمانہ قبل از تاریخ میںلوگ بیل کی پوجا کیاکرتے تھے‘ اس لئے کہ وہ ان کے لئے فصل اگاتا تھاجس پر ان کی زندگی کا دارومدار تھا۔دیگر مقدس دیوتائوں کی طرح اس کی خوشنودی کے لئے بھی قربانی دی جاتی تھی۔ بیلوں کے ساتھ انسانوں کی لڑائی کے کھیل سے قبل ہسپانیہ(موجودہ سپین ) میں انسانوں کاانسانوں کے ساتھ لڑائی کا مقابلہ ہوتا جو دونوں میں سے کسی ایک کی موت پر ختم ہوتا ۔بالآخر ایک بادشاہ کلا ڈیوس (Claudius)نے اس کھیل پر پابندی لگا دی جس کے بعد انسان اور حیوان کے درمیان لڑائی کے کھیل کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔اس وحشیانہ کھیل کا آغاز 1133ء میں سپین کے بادشاہ الفانسو ہشتم کی رسمِ تاج پوشی سے ہواجس میں حاضرین کو محظوظ کرنے کے لیے اس طرح کے خونی مقابلوں کا بندوبست کیا گیا۔1527ء میں سپین کے بادشاہ چارلس اور بعد میں شہنشاہ فلپ نے بھی اس کھیل کو پروان چڑھایا جس میں کسی مجرم کوسزا دینے کے لیے اُسے جنگلی بھینسے کے سامنے بند احاطے میں چھوڑ دیا جاتا ۔بتدریج یہ عمل باقاعدہ کھیل کی صورت اختیا ر کر گیااور لوگوں نے برضا ورغبت اس میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ سپین اور پرتگال میں اس کھیل کو ’’ٹوریو(Toreo)کہا جاتا ہے۔فرانسسکو رومیرو (1700–1763) پہلا ہسپانوی باشندہ تھاجس نے بل فائٹنگ کے باقاعدہ مقابلے میں حصّہ لیا۔اس طرح دور جدید میں بل فائٹنگ کا آغاز ہوگیا۔
میکسیکو میں اس کھیل کا آغاز1526ء ‘ یورا گوائے میں 1776ء اور ارجنٹائن میں 1912ء میں ہوا‘ تاہم ارجنٹائن کی آزادی کے بعداس ملک میں اسے ختم کر دیا گیا۔1915ء میں آٹھ بُل فائٹرز کھیل کے دوران اپنی جانیں گنوا بیٹھے ۔براعظم جنوبی امریک

ہ کے ملک ایکوا ڈور میں یہ وحشیانہ کھیل1920ء میں پہنچا۔بیسویں صدی کے وسط میں ملک کے کامیاب بل فائٹروں کو ’’سٹارز‘‘کا درجہ حاصل رہاجنہیں لاکھوں لوگ شوق سے اپنی ٹی وی کی سکرین پر دیکھا کرتے تھے۔آج سپین اور پرتگال کے علاوہ جنوبی فرانس اور جنوبی امریکہ کے ممالک میکسیکو، کولمبیا، وینزویلا، پیرو اور ایکو ڈور میں بھی یہ کھیل مقبول ہے ۔میکسیکو شہر میں48000نشستوں کی گنجائش کاحامل بل فائٹنگ کاسٹیڈیم موجود ہے جووہاں اس کھیل کی مقبولیت کا بین ثبوت ہے۔
بل فائٹر کو میٹا ڈور (Matador)کہا جاتا ہے۔ وہ مخصوص قسم کا پرکشش اور بھڑکیلا لباس پہنتا ہے جو17ویں صدی میں سپین کے علاقے انڈا لوسیا (Andalusia)کے لوگ پہناکرتے تھے۔ سپین میں منعقد ہونے والے اس کھیل کے قوانین بھی خاصے دلچسپ ہیں۔ان میں سر فہرست بیل کی عمر ہے جو پانچ سال سے کم نہیں ہونی چاہئے۔ اس کا وزن بھی 460 کلو گرام سے کم نہ ہونا چاہئے اور یہ بھی ضروری ہے کہ بیل کی پیدائش بھی سپین میں ہی ہوئی ہو۔سپین کی تاریخ میں ’’کارمیلو‘‘واحد بیل تھا جسے دو دفعہ صرف اس لیے زندہ چھوڑ دیا گیاکہ اس نے اسی طرح کے مقابلوں میں ایک دفعہ شیر اور دوسری دفعہ چیتے کو ہلاک کر دیا تھا۔اس وحشیانہ کھیل کی وجہ سے 2009ء میں صرف سپین میں 24000 ہزار بیل موت کا شکار ہوئے جبکہ 2010ء میں 7000 بیل تیروں اور تلواروں سے زخمی ہوکر ہلاک ہوئے۔

20 یں صدی میں جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کے ضیاع کی وجہ سے اس کی مخالفت میں تحریکیں چلنا شروع ہو گئیں۔کیٹلونیا کی پارلیمنٹ نے عوامی امنگوں کے مطابق 28 جولائی 2010ء کواس پر پابندی کا بل منظور کر لیا گیا جس کا اطلاق یکم جنوری 2012ء سے ہو چکا ہے۔25 ستمبر2011ء کو اس سلسلے کی آخری لڑائی دیکھنے کے لیے 18 ہزار سے زائد افراد جمع تھے جو ٹکٹ کی اصل قیمت سے پانچ گنا زائد فیس ادا کر کے سٹیڈیم میں داخل ہوئے تھے۔اس آخری بل فائٹنگ میں ملک کے تین سپراسٹار بُل فائٹرز میدان میں اترے تھے جنہوں نے چھ بیلوں کو ہلاک کیا۔

کھیل انسانی صحت کے لیے بہت مفید ہیں لیکن ایسے کھیلوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو انسانوں اور جانوروں پر ظلم یاانسانی زندگی کے لئے خطرناک ہوں۔ آج کہیں گاڑیوں کے اوپر سے جمپ لگانے کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں تو کہیں بڑے شہروں کی معروف سڑکوں پر نوجوان ’’ون ویلنگ‘‘ کرتے نظر آتے ہیں۔جب پتنگ بازی کی بات ہوتی ہے تو دھاتی ڈوروں کا استعمال کیا جاتا ہے جو پتنگ بازوں کے ساتھ ساتھ راہگیروں کے بھی گلے کاٹ دیتی ہیں۔ تفریح انسان کا حق ہے لیکن اس کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا اور کسی دوسرے کی جان لینا کسی طوربھی پسندیدہ عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ہمیں کھیلوں کو صحت کے تناظر میں دیکھنا چاہئے اور صرف انہی کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے جو انسانی جان اور صحت کے لئے مفید ہوں اور مثبت رویوں کو پروان چڑھائیں۔ (صائمہ اکرم چوہدری)

Vinkmag ad

Read Previous

جلد کی پیوند کاری

Read Next

الرجی جانئے ‘پہچانئے ‘بچئے

Leave a Reply

Most Popular