Vinkmag ad

پلاسٹک … رحمت یا زحمت

20ویں صدی میں جب پلاسٹک ایجاد ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مستقبل قریب اور بعید میںاسے کس کس طرح اور کتنے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے گا۔یہ لچکدار‘ نرم اور مضبوط، ہر شکل میں تیار کیا جا سکتاہے لہٰذا اسے کچن کی اشیائ‘ گاڑیوں‘ کھلونوں‘ کمپیوٹر اور ٹی وی سے لے کر جوتوں تک میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طبی آلات مثلاً انجیکشن‘ آئی وی بیگ اور ٹیوبوں وغیرہ میں بھی اس کا بے تحاشا استعمال نظر آتاہے ۔1957ءمیں پہلی دفعہ پلاسٹک کا سینڈوچ بیگ تیار ہواجس کے بعد اس سے تیار کردہ تھیلوں کا ایک نیا اور انوکھا سلسلہ شروع ہو گیا ۔پلاسٹک میں بیکری کا سامان زیادہ دن تک تازہ رہتا ہے لہٰذا 1969ءمیں نیویارک کے سٹورزمیں ڈبل روٹی اور اشیاءخوردنی کو اس سے بنے تھیلوں میں فروخت کیاجانے لگا۔ 1977ءتک ان کا استعمال سبزی فروشوں اور جنرل سٹورز تک پھیل چکا تھا اور1996ءتک اس کا استعمال 80 فی صد تک بڑھ گیا۔ یہ شاپنگ بیگ دکانداروں کو سستے پڑتے تھے لہٰذا وہ گاہکوں کو ان میں چیزیں ڈال کر دینے میںخاصی فراخدلی کا مظاہرہ کرنے لگے اور لوگ بھی انہیں اندھادھند استعمال کرنے لگے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں پلاسٹک کے آدھے سے لے کر ایک ٹریلین شاپنگ بیگز سالانہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس حساب سے ہر شخص ایک سال میں اوسطاً 150 تھیلے استعمال کرتا ہے۔ انٹرنیشنل ٹریڈ کمیشن کی 2009ءکی ایک رپورٹ کے مطابق صرف امریکہ میں سالانہ 102 ارب تھیلے استعمال ہوتے ہیں۔

پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی مقبولیت سے قبل پٹ سن کی تیارکردہ بوریاں استعمال ہوا کرتی تھیں ۔وہ مضبوط ہوتی تھیں اور انہیں بار بار استعمال کیا جا سکتا تھااور جب انہیں ضائع کیا جاتا تو وہ کچھ ہی عرصے بعد بیکٹیریا اور کیڑے مکوڑوں کی غذا بن کر ختم ہو جاتیں۔ اس کے برعکس پلاسٹک کی مصنوعات دھوپ اور پانی کی وجہ سے رفتہ رفتہ چھوٹے ٹکڑوں میں تو تبدیل ہو جاتی ہیں لیکن کئی صدیوں تک ختم نہیں ہوتیں۔ ان کا بیشتر حصہ ندی نالوں یا دریا کے پانی میں شامل ہوکر سمندروں میں پہنچ جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 200 ارب پاﺅنڈ پلاسٹک کی چیزیں بنتی ہیں جن کا 10فی صد حصہ سمندروں میں پہنچ جاتا ہے۔ اس میں سے 70فی صد ڈوب کر تہہ میں چلا جاتا ہے جبکہ باقی 30فی صد پانی میں تیرتا رہتا ہے۔ سمندر سے نکالے جانے والے کچرے کا 90 فی صد حصہ پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے جو سمندروںکے کنارے جمع ہوتا رہتا ہے۔اس وقت بحراوقیانوس میں کچرا جس پیمانے پر پھیلا ہے‘ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ امریکہ کی دوسری بڑی ریاست ٹیکساس سے دو گنا ہے۔ 2006ءکی ایک رپورٹ کے مطابق سمندر کے کئی حصوں میں ایک مربع میل کے رقبے کے اندر پلاسٹک کے تقریباً 46000ٹکڑے موجود ہیں جو سمندر میں زہریلا مواد پھیلا رہے ہیں۔

سمندری اور دریائی پانی میں موجودکچھوے پلاسٹک کے تھیلوں کو جیلی فش سمجھ کر کھا جاتے ہیں۔دیگر جانور‘ مچھلیاں اور پرندے بھی انہیں خوراک سمجھ بیٹھتے ہیں ۔جب معدے میںان کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو انہیں بھوک نہیں لگتی۔ مزیدبراںپلاسٹک انتڑیوں وغیرہ کو بلاک کر دیتا ہے جو ان کے لئے جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ پلاسٹک میں موجود کیمیکلز مچھلیوں کا جزو بدن بن جاتے ہیں اور جب انسان انہیں کھاتے ہیں تووہ اجزاءان کے جسموں میں پہنچ جاتے ہےں۔ پلاسٹک کے تاروں سے بنے جال بھی استعمال کے بعد سمندروں میں پھینک دیئے جاتے ہیں جو سمندری جانوروں کے لئے پھانسی کے پھندے ثابت ہوتے ہیں۔ ان تاروں کی عمر بھی بہت لمبی ہوتی ہے ۔

شہروں میں پلاسٹک کے تھیلے کوڑے کے ڈھیروں سے اُڑ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ یہ نہ صرف گاڑیوں کی آمدروفت میں خلل پیدا کرتے ہیں بلکہ پانی کے گٹروں میں پہنچ کر انہیں بلاک کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا پانی سڑکوں پر نکل آتا ہے جس سے ان میں شگاف اور دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ان کی وجہ سے بعض اوقات سیلابی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔بنگلہ دیش کی تاریخ کے دو بڑے سیلابوںکا ایک سبب ان تھیلوں کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔ فلپائن کے شہر منیلا میں بھی سیلابوں کی ہر سال کی آمد کی ایک وجہ یہی بتائی جاتی ہے۔
جب کسی شہر یا ملک میں نکاسی کے نظام میں رکاوٹ ہو تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ اس سے گندا پانی اردگرد پھیل کر نہ صرف شہر کی گندگی میں مزیداضافہ کرتا ہے بلکہ پینے کے پانی میں بھی شامل ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہیضے اور گیسٹرو جیسی خطرناک بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ یہ پانی جوہڑوں اور گڑھوں میں اکٹھا ہو کر مچھروں وغیرہ کی افزائش میں مدد دیتا ہے جس کی وجہ سے ڈینگی بخار‘ ملیریا اور پیٹ کے کیڑوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔پلاسٹک کے زہریلے عناصر پانی میں حل ہو کر زمین کی گہرائیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح کنوﺅں اور چشموں کا زیر زمین پانی بھی آلودگی سے نہیں بچ پاتا۔ سائنسدانوں کے مطابق 80 فی صد بچوںاور93فی صد بڑوں کے جسموں میں ایسے اجزاءپائے جاتے ہیں جو پلاسٹک کا جزو ہیں ۔ان کے نزدیک اس کا سبب پلاسٹک سے بنی ہوئی پانی کی بوتلوں اورکافی اور چائے کے کپوں کا زیادہ استعمال ہے۔یہ اجزاءکم مقدار میں پیشاب میں بھی پائے گئے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہارمون پیدا کرنے والے غدودوں اور جنسی اعضاءمیں بھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔

ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بنگلہ دیش سمیت کئی افریقی ممالک میں پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔بعض ایسے ممالک بھی ہیں جن میں اگر کوئی سیاح ان تھیلوں کو باہر سے لے آئے تو وہ ایئرپورٹ پر ہی ضبط کر لئے جاتے ہیں۔ چین اور بعض یورپی ممالک میں ان پر اضافی ٹیکس لگا دیا گیاجس کے بعد چند ہی روز کے اندر ان کے استعمال میں 90 فی صد سے زیادہ کمی دیکھنے میں آئی۔وزیراعظم پاکستان نے فروری 1997ءمیں تمام رنگ کے تھیلوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ مختلف صوبائی حکومتوں نے بھی مختلف ادوار میں ان تھیلوں کے استعمال پرپابندیاں عائد کیں تاہم ان پر سختی سے عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔
ان حقائق سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پلاسٹک کی مصنوعات ‘ خصوصاً تھیلے اگرچہ کم قیمت ہیں اورہمارے لئے سہولت پیدا کرتے ہیں لیکن کسی نہ کسی حوالے سے ہمیں ان کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے ذمہ دار اورمحب وطن شہری کی حیثیت سے ہمیں چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو‘ انہیں استعمال نہ کریں۔جب ہم سودا سلف لینے جائیں تو اپنے ساتھ ٹاٹ یا مضبوط کپڑے کے تھیلے لے جایا کریں۔ اسی طرح مشروبات کے لئے بھی پلاسٹک کی جگہ مٹی‘ چینی یا شیشے کے برتن استعمال کریں ۔ اگر پلاسٹک کے تھیلوں کا ہی استعمال کرنا ہوتوان کا انتخاب کریں جنہیں بار بار استعمال کیا جا سکتا ہو۔ اس کے بعد انہیں احتیاط سے اس طرح تلف کریں کہ وہ نالیوں اور گٹروں وغیرہ کو بلاک نہ کریں۔

Vinkmag ad

Read Previous

ڈیجیٹل ایپس

Read Next

جلد کی پیوند کاری

Leave a Reply

Most Popular