Vinkmag ad

نظرچاہئے تو آنکھیں بچائیے

بہت سے لوگوں کی نظر میں آنکھیں ہمارے جسم کا سب سے خوبصورت حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزلوں اور گیتوں میں شاعروں نے ان کی خوب خوب تعریف کی ہے ۔تاہم قدرت نے ان کا سب سے اہم کام دیکھنا رکھا ہے ۔ اگر ہم ان کی دیکھ بھال مناسب طور پر کرتے رہے تو دنیاہمیں لمبے عرصے تک روشن اور خوبصورت نظرآئے گی۔بصورت دیگر تاریکیاں کوئی دور کی کوڑی نہیں۔شفاانٹرنیشنل ہسپتال کے ماہر امراض چشم اور ریٹینا سپیشلسٹ ڈاکٹر عامر اعوان سے محمد زاہد ایوبی کا انٹرویو


یہ بتائے کہ آنکھوں کی بڑی بیماریاں کون کون سی ہیں؟
آنکھ کی بیماریوں کو اس کے مختلف حصوں کی بنیاد پر دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے ۔آنکھ کے سامنے کے حصے کو قرنےا کہتے ہےںجسے اردو مےں پتلی کہا جاتا ہے ۔اس کا پچھلا حصہ پردہ بصارت کہلاتاہے جسے رٹینا کہتے ہیں۔ آنکھ کے اگلے حصے میں جو مسائل پیش آتے ہیں‘ ان میں سفید موتیا، کالا موتیا، آنکھوں کی خشکی، آنکھوں میں پانی آنا اور ان کی سرخی شامل ہے۔ آنکھ کے پچھلے حصے یعنی پردہ بصارت کی بہت ساری بیماریاں ہیں جن میں سے ایک پردے کا اکھڑ جانا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو پردہ بصارت کی بہت سی بےماریاں مثلاً سوجن اور آنکھ کے اندر خون آنا وغیرہ ہو سکتی ہیں۔ تقریباً 40 سال کے بعد انسان کی نزدیک کی نظر کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے جو 60 سال پر جا کر رک جاتی ہے۔  جب عمر بڑھتی ہے تو سفید اور کالا موتیا بڑھ جاتا ہے جس سے نظر کمزور ہوتی جاتی ہے۔

موتیے کو کالا یا سفید کیوں کہتے ہیں؟
٭٭سفےد موتیے ( catract) کو سفےد کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس مےںآنکھ کا عدسہ شفاف نہیں رہتا بلکہ دھندلا ہوجاتا ہے اوراےک وقت ایساآتا ہے جب وہ بالکل سفےد ہو جاتاہے۔ سفےد موتیے کا سرجری سے علاج ممکن ہے۔ موتیے کی ایک اورقسم وہ ہے جس میں علاج ممکن نہیں۔ شاید اسی لئے اسے کالا موتیا کہتے ہیں۔

سفید موتیے کا علاج کیا ہے ؟
اگر سفید موتیا نظر کو اتنا متاثر کر رہا ہے کہ عینک سے مریض کو کوئی مدد نہیں مل رہی تو پھر سرجری ہی اس کا حل ہے۔ ایسے میں ایک آپریشن ہوتا ہے جس میں ٹانکے اور انجکشن لگائے بغیرموتیا نکال کر اس کی جگہ عدسہ لگا دیتے ہیں جو عمر بھر کیلئے ہوتا ہے ۔ علاج کے طریقے کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ مریض کیا کام کرتا ہے۔ اگر وہ لکھنے پڑھنے کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے تو اسے نزدیک کی نظر کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بندہ کسان ہوتو شاید وہ یہ کہے کہ مجھے پڑھنا لکھنا تو ہے نہیں اور میرا کام چل رہا ہے۔ دونوں مریضوں کو ہم مختلف طرح سے دیکھیں گے۔

کالے موتئیے کی صورت میں آپ کیا کرتے ہیں؟
کالے موتیے کی مختلف اقسام ہےں اور ان کا علاج بھی مختلف ہے۔ عموماً ڈراپس سے ہی اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اگرمرض بڑھ جائے توپھر لےزر کا استعمال کیاجاتا ہے۔ یہ بات ذہن مےں رکھنی چاہےے کہ کالے موتےے سے جو نقصان ہوجائے اس کو درست نہیں کیا جاسکتا۔ سرجری ےا لےزر کا مقصد ےہ ہوتا ہے کہ موتیا مزید نہ بڑھے۔
٭اگرعلاج نہ کیا جائے تو کیا یہ نابینا پن کا باعث بن سکتاہے؟
٭٭اگر علاج نہ کیا جائے تو موتیابڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس مےں مسئلہ یہ ہے کہ مریض کو درد نہےں ہوتالہٰذا وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ اس لئے لوگوںکو چاہےے کہ 50سال کی عمر کے بعد سالانہ چےک اپ ضرورکروائےں۔جن لوگوںکے خاندان میں یہ بیماری ہو‘وہ 40سال کے بعدسے سالانہ چیک کرانا اپنا معمول بنا لیں۔ اگر اس سے لاپرواہی برتی جائے تو نظر مکمل طور پرجا سکتی ہے۔

٭نظر کمزورہونے کی دیگر وجوہات کیاہوسکتی ہیں؟
نظر کی کمزوری کو ہم تین اقسام میں تقسیم کر تے ہیں۔ان میں دور کی نظر کی کمزوری‘ قرےب کی نظر کی کمزوری اور پریس بائیوپیاہے جس مےں 40 سال کی عمر کے بعد نظر مےں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔گلاسز لگا کر ہم نظر بہتر کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی گلاسز نہیں لگانا چاہتا تو کنٹیکٹ لینز کا آپشن موجود ہے۔ اگر وہ بھی نہیں کرنا چاہتا تو پھر لیز ر سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔

ماضی کی نسبت آج کل بچوں میں نظرکی کمزوری کے مسائل زےادہ کیوں ہیں ؟
سائنس اب اتنی آگے بڑھ گئی ہے کہ ہم بہت ابتدائی مرحلوں میں ہی کسی بیماری یا کمزوری کو شناخت کرلیتے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ پہلے سکولوں میں بچوں کا چیک اَپ نہیں ہوتاتھا۔ ٹیچرز کو آئیڈیا نہیں ہوتا تھا کہ کسی بچے کی نظر کمزور ہے یا نہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک میںبچوں کی شروع ہی سے سکریننگ کی جاتی ہے۔ بچہ جب تین یا چار سال کی عمر میں سکول جانا شروع ہوتا ہے تو وہیں اس کی نظر چیک ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اب والدین اس حوالے سے باخبر اور فکر مند ہوگئے ہیں۔ وہ بچے میں ذرا سا بھی کوئی مسئلہ دیکھتے ہیں تو اسے ڈاکٹر کو دکھاتے ہیں۔ پہلے چیزیں وقت پر سامنے نہیں آتی تھیں ‘ اب وہ آجاتی ہیں۔

بچپن میں بھینگا پن بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں اور یہ کس عمر میں شناخت ہوجاتا ہے؟
بھینگا پن میں آنکھ یا تو زیادہ اندر کی طرف جارہی ہوتی ہے یا باہر کی طرف۔ کبھی یہ اوپر کی طرف بھی جاسکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ بچے کی نظر کاکمزور ہونابھی ہے۔ جب نظر کمزور ہو تو آنکھ بہتر دیکھنے کے لیے اندر کی طرف آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اگر کسی کو بچپن میںسفید موتیا ہوگیا ہو اور وقت پر علاج نہ ہوا ہو توبھی آنکھ میں ٹیڑھا پن آسکتا ہے۔ اگرعلاج کی بات کی جائے تو پہلے تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ گلاسز سے مسئلہ حل ہوجائے۔ اگرسفید موتیا ہے تو اسے نکالا جائے۔ بھینگے پن کی صورت میں ہم بعض اوقات مسلز کواس طرح ایڈجسٹ کرتے ہیں کہ آنکھ سیدھی ہوجاتی ہے۔

کیااس کے لیے آنکھ کی ورزشیں بھی کروائی جاتی ہیں ؟
جی ہاں! اگر اندر کے مسلز کمزور ہوں تو بچے کو یا بڑے کو پڑھنے میں دقت پیش آتی ہے۔پڑھنے کے دوران آنکھیں اندر کی طرف آنا ہوتی ہیں جو آ نہیں پاتیں‘ اس لئے کہ مسلز کام نہیں کررہے ہوتے۔ اس کے لیے ایسی ورزشیں ہیں جن میں پنسل کوآنکھ کے قریب اور پھر دور لایا جاتا ہے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہر بچے کی آنکھوں کا ٹیسٹ ضرور ہونا چاہیے؟
والدین نوٹ کریں کہ کیابچے کو پہلے ٹھیک نظر آتا تھا اوراب اسے کچھ مسئلہ ہونے لگا ہے یایہ پیدائشی نقص ہے ۔پیدائشی نقص میں نومولود بچہ آپ کی طرف دیکھ نہیں رہا ہوتا‘ آپ کی مسکراہٹ کے جواب میں مسکرا نہیں رہاہوتا یاوہ رنگین لائٹس کی طرف نہیں دیکھتا۔ ایسے میں یہ پریشانی کی بات ہے۔ خاص طور پر ایسے بچے جو پورے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور جنہیںپیدائش کے وقت آکسیجن لگانے کی ضرورت پڑتی ہے‘ ان میں ایک بیماری ہوتی ہے جسے ریٹنو پیتھی آف پری میچورٹی کہتے ہیں۔ اس میں بہت تیزی سے آنکھ متاثر ہوتی ہے اور آنکھ کا پردہ بصارت پھٹ جاتا ہے۔ ایسی صورت میںڈاکٹر کو ضرور دکھانا چاہیے۔ اگر آپ کے خاندان میں پہلے بھی کم عمری میں عینک لگنے کا رجحان ہو تو دو یا تین سال کی عمر میں ڈاکٹر کو ضرور دکھائیں۔ اس کے علاوہ بچہ جب سکول جانے کی عمر کا ہوجائے تو اس وقت بھی ایک دفعہ آنکھیں چیک کروالیں۔

بھینگے پن کے لیے سرجری کس عمر تک ہوسکتی ہے؟
اس میں عمر کی کوئی حد نہیں ہے۔ پہلے ہم کوشش کرتے ہیں کہ گلاسز سے مسئلہ حل ہوجائے۔اگر بہتری آرہی ہو تو ہم سرجری کیلئے انتظار کرلیتے ہیں ۔ بھینگے پن کی کچھ اقسام ایسی ہیں جن میں نظر متاثر ہوسکتی ہے۔اس میں ہم جلد یعنی دوسال کی عمر میں بھی آپریشن کرتے ہیں۔

اگر تاخیر ہوجائے تو کوئی مسئلہ تو نہیں ہوتا ؟
اگر بچے کی نظر نہیں بن رہی‘ تب تو مسئلہ ہے۔ یعنی بچے کی نظر ایک آنکھ میں کم ہو اور گلاسز سے کوئی فرق نہ پڑرہا ہو تو پھر لازماً اس کا فوری آپریشن ہونا چاہیے۔ یہ پہلے 10سال کے اندر ہوجائے تو بہتر ہوتا ہے۔

کیا نظر سائیڈ سے کمزور ہونا شروع ہوتی ہے ؟
ہماری نظر دو طرح کی ہوتی ہے ۔ایک تو ہمیں سامنے سے نظر آرہا ہوتا ہے جبکہ ایک سائیڈ کی نظر ہوتی ہے۔ کچھ بیماریاں مثلاًکالا موتیاایسی ہیں جن میں سائیڈ کی نظر آہستہ آہستہ پہلے جانا شروع ہوتی ہے‘پھر آخر میں سامنے کی نظرجاتی ہے۔ فالج کی وجہ سے بھی سائیڈ کی نظر جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ دماغ کے اندر ایسی رسولی ہو جو دماغ کی طرف جانے والے آنکھ کے راستے کو متاثر کردے‘ اس میںبھی سائیڈ کی نظر جاسکتی ہے۔

 شوگر کی بیماری کانظر کی کمزوری سے کیا تعلق ہے؟
ذیابیطس ایسی بیماری ہے جو آنکھ سمیت جسم کے ہر عضوکو متاثر کرتی ہے۔ ذیابیطس کی وجہ سے سفید موتیا جلدی آسکتا ہے۔کالا موتیا بھی اس کی وجہ سے آسکتا ہے اور پردہ بصارت میں سوجن بھی آسکتی ہے۔ اس میںآنکھ کے اندر خون کی نالیاںبننا شروع ہوجاتی ہیں جن سے خون رسنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس سے نظر بالکل بند ہوجاتی ہے یا وہ پردہ بصارت کو اکھاڑ دیتی ہے۔ یہ ساری بیماریاں شوگر کی وجہ سے ہوسکتی ہیں۔ اس لیے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سال میں ایک دفعہ اپنی آنکھ کا معائنہ ضرور کروائیں۔ اس میں آنکھ کی پتلی کو پھیلا کر پردہ بصارت کو دیکھنا چاہیے تاکہ اگر اس میں کوئی مسئلہ نظر آئے تو اسے بروقت حل کیا جاسکے۔ اگر تاخیر ہوجائے تو نظر کی بہتری کے امکانات کم ہوجائیں گے دوسر ا یہ کہ تاخیر سے مسئلہ پیچیدہ ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے سرجری تک نوبت آسکتی ہے۔

بلڈ پریشر کا بھی آنکھوں کے ساتھ کوئی تعلق بنتا ہے ؟
بلڈ پریشر کی وجہ سے بعض اوقات آنکھ کے اندرسے تھوڑا تھوڑا خون رِسنا شروع ہوجاتا ہے‘آنکھ میں خون کی نالیاں سکڑنا شروع ہوجاتی ہیں اور کئی دفعہ یہ بند بھی ہوجاتی ہیں۔ اس طرح نظر متاثر ہوسکتی ہے۔ اس لیے بلڈ پریشر پر کنٹرول بہت ضروری ہے۔

آنکھوں کی حفاظت کے لیے ہم خود کیا کرسکتے ہیں؟
ہمیں آنکھوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ انہیں مٹی ‘گردو غباریا سورج کی تیز روشنی سے بچانا چاہیے۔اگرآپ موٹرسائیکل یا گاڑی پر ہوں تو سن گلاسز استعمال کریں۔ آنکھوں کو باقاعدگی سے صاف کریں اورانہیں صاف رکھیں۔ اگر خدانخواستہ آنکھ کے اندر کوئی چیز چلی جاتی ہے تو اسے اچھی طرح دھوئیں ۔ اگر ویلڈنگ کی طرح کا کوئی کام کریں تو حفاظتی چشمے ضرور پہننے چاہئیں تاکہ خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو تو آنکھیں محفوظ رہیں۔

یاکمپیوٹر پر کا م کرنے والوں کی نظریں زیادہ متاثر ہوتی ہیں ؟
پرانی سکرینوں کے ساتھ ایسا مسئلہ ہوتا تھا ۔ اب تو زیادہ تر سکرینیں اس طرح کی ہوتی ہیں جو نظر کومتاثرنہیں کرتیں۔البتہ جب آپ کمپیوٹر پر دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آنکھ بہت کم جھپکتے ہیں۔ اس سے آنکھ میں خشکی آسکتی ہے۔اس لئے جب آپ کمپیوٹر پر کام کررہے ہوں تو بار بار اپنی آنکھیں جھپکتے رہیں۔

سرمے کے استعمال کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
سرمے کا استعمال سنت نبوی ہے اور اگر یہ ٹھیک طرح سے لگائی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ سرمہ لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے آنکھ کے بہت اندر تک نہیں بلکہ پپوٹوںکے سروں پر لگاناچاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سرمہ باریک پسا ہوا ہونا چاہیے۔ کچھ لوگوں کو سرمے سے الرجی ہوتی ہے اوراس سے ان کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں۔ وہ لوگ اسے نہ لگائیں۔

کہا جاتا ہے کہ لیٹ کر پڑھنے یاٹی وی دیکھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
ہم نے دیکھا ہے کہ بعض پوزیشنز ایسی ہوتی ہیں جن میں آپ زیادہ دیر تک رہیں اور روزانہ کی بنیاد پرایسا ہو تو وہ فرق ڈالتی ہیں۔ مثلاً حفظ کرنے والے بچوں کی دور کی نظر اسی وجہ سے کمزور ہوجاتی ہے۔ بہت زیادہ جھک کر پڑھنے والے سکول کے بچوںکی نظر میں فرق پڑتا ہے۔ اسی طرح ٹی وی اگر بہت قریب سے بیٹھ کر دیکھیں تو اس سے آنکھوں پر بوجھ پڑتا ہے۔ لیٹ کر بھی بعض پوزیشنز میں آنکھوں پر بوجھ کا امکان ہوتا ہے لیکن اگر آپ صحیح طریقے سے لیٹے ہیں اور پڑھ رہے ہیں تو اس سے فرق نہیں پڑتا ۔ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے پڑھنے سے نظر میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ چکر وغیرہ آسکتے ہیں۔

آنکھوں کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے ایکسیڈنٹ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
میرے پاس لوگ آتے ہیںجو سیفٹی گاگلز نہیں پہنتے اور بتاتے ہیں کہ ہتھوڑے سے کسی چیز کو مار رہے تھے یا کوئی ڈرلنگ کررہے تھے کہ کوئی ٹکڑا آنکھ میں لگ گیا۔ اس صورت میں آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر سکول میں استاد بچوں کو سزا دیتے ہوئے سر کے پچھلے حصے کی طرف زیادہ زور سے مارے تو نظر متاثر ہوسکتی ہے۔

ریٹینا کی حفاظت اور صحت کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے ؟
پردہ بصارت کی بیماریاں ذیابیطس‘ عمر کے بڑھنے‘ دور کی نظرکی کمزوری یاچوٹ کی وجہ سے ہوسکتی ہیں۔ اگر آپ کو نظر میں فرق نظر آرہا ہو‘آنکھ میں چھوٹی چھوٹی سی کیڑیاں سی نظر آرہی ہیںیا آپ کو سائیڈ سے شیڈنظر آئے یا کم نظر آرہاہو تو فوراً آنکھ چیک کروائیں تاکہ دیکھا جاسکے کہ خدانخواستہ کہیں آنکھ کا پردہ بصارت اکھڑ تو نہیں گیایا آنکھ سے خون تو رسنا نہیں شروع ہوگیا ۔ ذیابیطس کے مریضوں کو آنکھوں کا معائنہ باقاعدگی سے کروانا چاہیے۔ اب سائنس میں اتنی ترقی ہو گئی ہے کہ پردہ بصارت کی جو سرجری ہم یہاں پر کررہے ہیں ‘ان میں اکثر اوقات ٹانکے لگانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ۔ہم اتنا چھوٹا ساکٹ لگاتے ہیں کہ وہ خود ہی بند ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں بہت کم اتنی ایڈوانس سرجری ہورہی ہے جو ہم یہاں شفا میں کررہے ہیں۔

آپ اس ساری گفتگو کا ماحصل کیسے بیان کریں گے ؟
میںچند چیزوں پر بہت زیادہ زور دوں گا۔ ایک تو ذیابیطس کے مریض سالانہ اپنی آنکھیں ‘ ڈاکٹر سے چیک کروائیں۔ بچوں کے والدین سے کہوں گا کہ چار یا پانچ سال کی عمر تک بچوں کی آنکھوں کا ایک ٹیسٹ ضرور ہوجانا چاہیے ۔ تیسرا یہ کہ ایسے بچے جو وقت سے پہلے پیدا ہوں اور جنہیں آکسیجن لگی ہو‘ ان کے لیے ضرور ی ہے کہ زندگی کے پہلے چھ سات ہفتوں میں آنکھوں کا چیک اپ کروائیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

ہارمونز کام کریں بڑے بڑے

Read Next

آپ کے صفحات

Leave a Reply

Most Popular