Vinkmag ad

انفرادی اور اجتماعی سطح پرپرہیزکو بنیاد بنائیے

’’ جان ہے تو جہان ہے ‘‘ ہمارے ہاں ایک معروف کہاوت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر زندگی ہے تو سب کچھ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صحت کے بغیر زندگی بھی ادھوری ہے۔ اس لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اسے اپنی ترجیحات میں نمایاں مقام دینا ضروری ہے۔ شفانیوز کا تازہ شمارہ جب آپ کے ہاتھوں میں ہوگا‘ تب تک نئی حکومت کا قیام عمل میں آ چکا ہوگا۔ ایک ہیلتھ میگزین کے طور پر ہم چاہیں گے کہ جب وہ اپنی پالیسیاں تشکیل دے تو نہ صرف یہ کہ صحت کو اپنی ترجیحات میں نمایاں مقام دے بلکہ نگہداشتِ صحت کے روایتی تصورات پربھی نظرثانی کرے‘اس لئے کہ صحت سے متعلق اشاریوں کے مطابق ہم مطلوبہ اہداف سے بہت پیچھے ہیں۔

پاکستان میں بیماریوں کے حجم پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد 132,000ہے جس میں گزشتہ ایک سال کے دوران 39,000 افراد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اس کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعدادبھی بڑھ کر 15,370 ہو گئی ہے۔ نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے مطابق ٹی بی کے مریضوں میں ہر سال 420000 نئے افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔2017ء میں پاکستان میں ذیابیطس کے حوالے سے کئے گئے سروے (Diabetes Prevalence Survey of Pakistan)کے مطابق یہاں 35.3ملین افراد اس مرض کا شکار ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ’’دی لینسٹ‘‘ کے مطابق ہیپا ٹائٹس سی کے مریضوں کی تعداد کے تناظر میں پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں اس کے مریضوں کی تعداد تقریباً آٹھ ملین ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان کی18فی صد آبادی جبکہ 45سال سے زائد عمر کے 33فی صد افراد ہائی بلڈپریشر کا شکار ہیں۔ یہاں امراض قلب کے مریضوں میں ہر سال دو لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے اورملک بھر میں 30سے 40فی صد اموات اسی سے ہورہی ہیں۔ یہاں ڈائریا کی وجہ سے ہر سال 53000 بچوں کی اموات واقع ہو جاتی ہیں۔ ادارئہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے مطابق16 2015-ء کے دوران سڑک پر 9100 حادثات ہوئے جن میں 4448افراد جاں بحق اور 11544افراد زخمی ہوئے۔

بیماریوں کے اتنے بڑے حجم کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر ہم علاج معالجے کی سہولیات کا جائزہ لیں توبظاہر وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف نظر آتی ہیں۔ مثلاً قومی اقتصادی سروے برائے 2017-18ء کے مطابق پاکستان میں20کروڑ77لاکھ 70ہزار پر مشتمل آبادی کے لئے (سرکاری شعبے میں) صرف 1211ہسپتال ‘ 5,508بنیادی مراکز صحت ‘ 676دیہی مراکز صحت اور 5,697 ڈسپنسریاں ہیں۔اگر ہم افرادی قوت کی بات کریں تویہاں صرف 208,007 ڈاکٹر‘ 20,463 ڈینٹسٹ اور 103,777 نرسیں ہیں۔ آبادی اور سہولیاتِ صحت میں تناسب کا جائزہ لیا جائے تو یہاںہر 997 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر اورہر 10658 افرادکے لئے صرف ایک ڈینٹسٹ ہے ۔ ایسے میں اگرہسپتال میں داخل ہونے کی نوبت آجائے تو ہر1584 افراد کے لئے وہاں صرف ایک بستر دستیاب ہے۔ واضح رہے کہ یہ سہولیات بھی زیادہ تر بڑے شہروں میں مرتکز ہیں۔
ملک میں امراض اور حادثات بڑھنے کی رفتار علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے کی نسبت کہیں زیادہ تیزہے۔ ایسے میں اگر ہم پاکستان کے چپے چپے پر ہسپتال بنا دیں ( جو ہمارے لئے ہی نہیں‘ترقی یافتہ ممالک کے لئے بھی ناممکن ہے) تو بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ مینجمنٹ سائنسز اسلام آباد کے

چیئرمین ڈاکٹر عثمان بلوچ کا کہنا ہے:
’’ اگر صرف علاج پر توجہ مرکوز کی جائے تو وہ اتنا مہنگا ہے کہ پاکستان تو کجا‘ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیابھر میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ پرہیز کواپنی توجہ کا مرکزبنایا جائے۔ بدقسمتی سے یہ سوچ ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی اورہم جب بھی صحت کا سوچتے ہیں‘ہمارے ذہن میں فوراً ہسپتال‘ ڈاکٹر‘دوائیں اور مشینیں آتی ہیں۔ ان چیزوں کا تعلق علاج کے ساتھ ہے جبکہ صحت تو اس سے کہیں پہلے شروع ہوتی ہے۔‘‘
پرہیز صرف قومی اور اجتماعی ہی نہیں‘ انفرادی سطح پر بھی بہترین حکمت عملی ہے۔دوسرے لفظوں میں ہمیں ایساطرز زندگی اختیار کرنا چاہئے جس میں صحت کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ ایسے طرز زندگی کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیںجن میںسے پہلے کا تعلق غذائیات‘ دوسرے کا جسمانی سرگرمیوں اور تیسرے کا غیرمحفوظ اور غیرصحت مندانہ رویوں سے اجتناب ہے ۔ان کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے :

متوازن اور صحت بخش غذا
یونیورسٹی آف لاہور کے اسلام آباد کیمپس میں شعبہ غذائیات کے اسسٹنٹ پروفیسرعبدالمومن کہتے ہیں کہ متوازن غذا جسم کی بحیثیت مجموعی صحت مندی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ وہ جملہ ہے جو ہم اکثر بولتے توہیں لیکن اس پر عمل کم ہی کرتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے:
’’ہمیں جسمانی نشوونما‘ مختلف اعضاء کو اپنے اپنے افعال کی انجام دہی اور بیماریوں سے بچائو کے لئے مختلف قسم کی غذائوں کی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں۔ جب تمام فوڈگروپس میں شامل غذائی اجزاء روزانہ کی بنیاد پراور مطلوبہ مقدار میں ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو ہم صحت مند رہتے ہیں اور بیماریوں کے خلاف ہمارا مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوتا ہے۔‘‘

غذا کا متوازن ہونے کے ساتھ ساتھ صحت بخش ہونا بھی اشد ضروری ہے۔ فیصل ہسپتال فیصل آبادکے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر کامران طارق کا کہناہے کہ اکثر لوگ کھانوں کے ضمن میں صحت کی بجائے ذائقے کو ترجیح دیتے ہیں اورایسا کھانے پسند کرتے ہیں جن میں کیلوریزکی تعداد بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ان کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہمارے ہاں موٹاپے اور نتیجتاًذیابیطس کی شرح بڑھ رہی ہے:
’’ گھر کے کھانوں کو باہر کے چٹ پٹے‘تیز مصالحہ دار اور چکنائی سے بھرپور کھانوں سے بدل دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں ہائی بلڈپریشر اور امراض قلب کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مزید برآں ہمارے ہاں اکثر جگہوں پر پینے کا پانی بھی صاف اور محفوظ نہیں جس کی وجہ سے معدے کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔‘‘

شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے ماہرِ امراضِ دندان(ڈینٹسٹ) ڈاکٹر امتیاز احمد کہتے ہیںکہ جو لوگ میٹھا کھانے کے بعد دانت صاف نہیں کرتے ‘ان کے دانتوں میں کیڑا زیادہ لگتا ہے۔ اکثر مائیںبچوں کو فیڈر میں چینی ڈال کر دودھ دیتی ہیں۔ ایسے بچے سارا دن اسے منہ میں رکھتے ہیں جس سے تمام وقت میٹھا ان کے منہ میں رہتاہے۔ ایسے میں ان کے دانت کالے ہو کر گر جاتے ہیں۔

اگرچہ منفرد ذائقوں کی وجہ سے پاکستانی کھانوں کی دنیابھر میں تعریف کی جاتی ہے لیکن ان کی ایک خاص بات نمک کا زیادہ استعمال بھی ہے جو ہائی بلڈپریشر میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ امراض قلب اور فالج کے امکانات کوبھی بڑھا دیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک عام بالغ اور صحت مند آدمی کو روزانہ اوسطاً پانچ گرام (چائے کا ایک چمچ) نمک استعمال کرنا چاہئے جبکہ ڈبلیو ایچ او ہی کے مطابق دنیا بھر میں ایک شخص روزانہ اوسطاً 9سے 12گرام نمک استعمال کرتا ہے جو مطلوبہ مقدار سے تقریباً دو گنا ہے۔ نمک صرف ہانڈی میں ہی نہیںبلکہ ایسی بہت سی چیزوں میں بھی شامل ہوتا ہے جن کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیںجاتا۔ اس لئے نمک کا استعمال کم سے کم کرنا چاہئے۔ اسے پھلوں اور سالن پر چھڑکنے سے خاص طور پر اجتناب کرنا چاہئے۔

جسمانی سرگرمیاں‘ اشدضروری
سائوتھ ایشین یونیورسٹی لاہورکے اسسٹنٹ پروفیسر فزیوتھیراپی ڈاکٹرو سیم جاوید کا کہناہے کہ انسانوں میں زیادہ تر بیماریاں غیرمتحرک زندگی اور بیٹھے رہنے کی عادت سے آتی ہیں لہٰذا ان سے بچائو کے لئے ہمیں ورزش کو معمول بنانا چاہئے۔ ان کے مطابق ورز ش ایسی حرکت کو کہا جاتا ہے جس میں آپ کے مختلف عضلات خاص انداز میں کام کرتے ہیں اور جسم کی کیلوری کو جلنے کا موقع ملتا ہے۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی کے کنسلٹنٹ فزیو تھیراپسٹ محبت علی کا کہنا ہے کہ جسمانی تندرستی کے لئے ورزشوں کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلی وہ جو عمومی صحت کے لئے ضروری ہیں جبکہ دوسری کا تعلق مخصوص مہارتوںسے ہوتاہے:
’’عمومی تندرستی سے مراد ایسی کیفیت ہے جس میں عام آدمی خود کو بہتر‘ صحت مند اور چاق چوبند محسوس کرے ۔اس کے لئے اوسط درجے کی ورزشیں درکارہوتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ کوباڈی بلڈنگ کرنا ہو یا کشتی‘ کبڈی‘ فٹ بال‘ سکوائش یا بیڈمنٹن کھیلنا ہو تو اس کے لئے فٹنس کی الگ سطح درکارہوتی ہے اور اس کے لئے ورزشیں بھی سخت ہوتی ہیں۔‘‘


ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایک عام آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزانہ کم از کم 10000قدم پیدل چلے۔ ہم روزمرہ کے کام کاج میں اتنا پیدل نہیں چلتے‘ اس لئے وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص کو ہفتے میں کم از کم پانچ دن روزانہ 30منٹ تک ضرور تیزتیزپیدل چلنا چاہئے۔ اس میں مر اورد عورت‘ جوان اور بزرگ سمیت کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں۔

غیرصحت مند اورغیرمحفوظ روئیے
ڈاکٹر کامران طارقکے مطابق صحت مند رہنے کے لئے تیسرا اہم کام غیرمحفوظ رویوں سے بچائو ہے۔ ان کے مطابق:
’’ہمارے ہاں تمباکو نوشی‘ پان، سپاری اور گٹکا کا استعمال بڑھ رہا ہے جس سے سانس کی بیماریوں کے علاوہ کینسر کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ نشہ بذریعہ انجیکشن ایڈزکے پھیلائو کا بڑا ذریعہ ہے جبکہ غیرمحفوظ جنسی تعلقات ایڈزکے علاوہ دیگربیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں لوگوں میں خودعلاجی کا رجحان بہت زیادہ ہے جو شدید نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ تھیلیسیمیا ایک خطرناک مرض ہے جو اس کے شکار لڑکے اور لڑکی کی شادی کی صورت میں اگلی نسل میں منتقل ہوتا ہے۔ اگر نکاح سے قبل اس کا ٹیسٹ لازمی قرار دے دیا جائے تو صرف اس ایک اقدام سے اس سیلاب کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے۔‘‘
گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس ملک کی اقتصادی حالت ناگفتہ بہ ہو‘جس کے ذمے22,820بلین روپے قرض ہو‘ جس کے 24.3 فی صد لوگ خط غربت سے نیچے کی سطح پر زندگی گزار رہے ہوں اورجو اپنے کل جی ڈی پی کا صرف 0.91فی صد صحت پر خرچ کرتاہو‘ اس کے افراد اور حکومت‘ دونوں کے لئے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ پرہیز پر توجہ مرکوز کی جائے۔ انگریزی محاورے کے مطابق اونس بھر پرہیز‘ پائونڈبھر علاج سے بہتر ہے۔

………………….
گھر کے اندر‘ گھر سے باہر
النور ہسپتال فیصل آبادکے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر مقصود احمد کا کہنا ہے کہ صحت گھر سے شروع ہوتی ہے جسے ہوادار اور روشن ہونا چاہئے۔ صحت کے ساتھ اس کے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہناہے:’’ہم دیکھتے ہیں کہ ٹی بی کی شرح ان علاقوں میں زیادہ ہے جہاں زیادہ تر گھر گنجان آباد اور تنگ و تاریک ہیں۔اگر ان میں تازہ ہوا کی آمدو رفت ہوتی رہے تو جراثیم کمروں میں معلق نہیں رہتے ۔ اسی طرح روشنی سے نہ صرف بہت سے جراثیم مر جاتے ہیں بلکہ اس میں وٹا من ڈی بھی ہوتا ہے جو ہڈیوں کی نشوونما اورمضبوطی کے لئے ضروری ہے۔ ‘‘
اسلام آباد ٹریفک پولیس کی طرف سے یہ پیغام عموماً نشر کیا جاتا ہے کہ اپنے سفر کو محفوظ بنانے کے لئے گاڑی میں بیٹھنے سے قبل اسے اچھی طرح چیک کرلیں۔ اس ضمن میں ایک لفظ پاور (POWER) ہمیشہ یاد رکھیں۔ اس میں پی (P )سے مراد پیٹرول‘ او (O)سے آئل‘ ڈبلیو ( W) سے واٹر یعنی پانی‘ ای (E) سے الیکٹریسٹی یعنی بجلی اور آر (R )سے مراد ربڑ یعنی ٹائرزہیں۔ اس کے علاوہ اضافی ٹائر اور ٹائر تبدیل کرنے کا سامان اپنے ساتھ رکھنا نہ بھولیں اور ضروری کاغذات یعنی اپنا قومی شناختی کارڈ ، ڈرائیونگ لائسنس اور گاڑی کی رجسٹریشن بُک بھی ساتھ رکھیں۔اس کے علاوہ ٹریفک کے اصولوں کی پابندی کریں‘ گاڑی چلاتے وقت سیٹ بیلٹ اور موٹر سائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ ضرور پہنیں تاکہ آپ حادثات سے بچ سکیں۔

بحریہ ٹائون راولپنڈی کی چیف آرکیٹیکٹ عمرینہ آصف کا کہناہے کہ حادثات صرف سڑک پر ہی نہیں ہوتے بلکہ گھروں کے اندر بھی ہوتے ہیں اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی سالانہ 5000 افراد ان کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔ کچھ اقدامات اٹھا کر ہم ان کی شرح میں کمی لا سکتے ہیں:
’’گھروں میں ایسی ٹائلیں استعمال کی جائیں جوپھسلن والی نہ ہوں۔باتھ روم میں خاص طور پر ان سے پرہیز کیا جائے ۔اگر گھر کو ٹھیک طرح سے پلان کیا گیا ہو تو واشنگ ایریا اس طرح بنایا جاتا ہے کہ پانی کی نکاسی انڈرگرائونڈ محفوظ طریقے سے ہوجائے ۔ جہاں ایسا نہیں کیا گیاہوتا‘ وہاں خواتین لان وغیرہ میں کپڑے دھوتی ہیں۔ اس سے پورا صحن گیلا ہوتا ہے اور اہل خانہ کے پھسل کر گرنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ سیڑھیاں بناتے وقت اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ کسی سیڑھی کی اونچائی چھ یا سات انچ سے زیادہ نہ ہو۔اگر وہ اس سے زیادہ ہو توسیڑھیاںچڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔ اس سے گھٹنوں پر دبائو پڑتا ہے اور ان کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح پائوں رکھنے کی جگہ بھی 10 انچ سے کم نہ ہو تاکہ پائوں پوری طرح اس پر آ سکے ورنہ گرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔‘‘
…………

 

Vinkmag ad

Read Previous

کھانا پکانے میں اہل خانہ کو بھی شامل کیجئے

Read Next

کچھ انوکھا کردکھانے کاشوق

Leave a Reply

Most Popular