سفید ٹی شرٹ پہنے 22 سالہ نوجوان نے ایک فٹ کے فاصلے سے ایک کتاب اپنے سینے کے سامنے رکھ کرپکڑی ہوئی تھی۔ انسائیکلوپیڈیا کی کسی بھی جلد کی طرح وہ ایک ضخیم کتاب تھی ۔ دوسری جانب کچھ فاصلہ پر پستول ہاتھ میں لیے اس کی بیوی موجود تھی۔ منظر ان کے گھر کے باہر کا تھا۔
معلوم ہوا کہ نوجوان اور اس کی بیوی باہم مل کر ایک وڈیو بنارہے تھے ۔ وہ پہلی دفعہ کوئی ویڈیونہیں بنا رہے تھے بلکہ اس سے قبل بھی انہوںنے سوشل میڈیا پر اپنے چینل کے لیے کئی ویڈیوز بنائی تھیں۔یہ سب چھوٹی چھوٹی شرارتوں پرمبنی تھیں۔ ان کاخیال تھا کہ وہ اب ایک ایسی ویڈیو بنائیں گے جو انٹرنیٹ پر بہت زیادہ وائرل ہوجائے۔
اپنے اس ارادے کااظہار انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کردیاتھا۔ اس پوسٹ میں خاتون نے اپنے شوہر کانام لیتے ہوئے کہاتھا کہ ہم ’’شاید ایک ایسی ویڈیو شوٹ کرنے لگے ہیں جسے خطرناک ترین کہاجاسکتا ہے۔ ‘‘ضمنی طورپر اس نے یہ ذکر بھی کیا کہ ’’یہ میرے شوہر کا آئیڈیا ہے‘ میرانہیں ہے۔‘‘ پہلے سے کیے گئے اس اعلان کا نتیجہ تھا کہ کچھ ناظرین یہ سارا منظر لائیو دیکھنے کے لئے وہاں موجودتھے ۔ ویڈیوکامرکزی خیال یہ تھا کہ بیوی اگرچہ بہت قریب (ایک فٹ) سے گولی چلائے گی لیکن نوجوان کے ہاتھ میں موجود انتہائی موٹی کتاب اسے بچالے گی۔
خیال غلط نکلا اور گولی اس موٹی کتاب کو چیرتی ہوئی نوجوان کو جالگی ۔خاتون نے پریشان ہوکر پولیس کو فون کیاکہ اس کے شوہر کو حادثاتی طورپر گولی لگ گئی ہے ۔ پولیس فوراً پہنچی لیکن طبی معائنے کے بعد یہ یقین ہوگیا کہ نوجوان کی موت واقع ہو چکی ہے۔ جون2017ء میں پیش آنے والے اس واقعے کی رپورٹ دنیا بھر کے نمایاں ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہوئی۔
خاتون پر قتل کا مقدمہ بنا۔ اس نے بیان دیا کہ ’’ یہ آئیڈیا میرے شوہر نے دیاتھا۔ میں نے اسے کہاتھا کہ ایسا نہ کرو! یہ نہ کرو، تم بندوق کا استعمال کیوں کرارہے ہو؟(لیکن) شوہر کاکہنا تھا کہ’ ہمیں زیادہ سے زیادہ ویورز(ناظرین) کومتوجہ کرناہے۔‘ اس کا کہنا تھا کہ ’یہ کھیل (stunt) محفوظ ہے اور وہ پہلے بھی آزمائشی طورپر ایک کتاب کے ساتھ ایسا کرچکاہے۔‘ خاتون کے بقول شوہر کی اس دلیل کے بعدوہ مطمئن ہوگئی تھی۔
اس بات کی تصدیق کہ آئیڈیا مرنے والے نوجوان کاہی تھا ‘ اس وڈیو سے بھی ہوتی ہے جس کا کچھ حصہ او رٹرانسکرپٹ ذرائع ابلاغ کو جاری کردیا گیا۔ اس ویڈیومیں نوجوان نے ازخود پورا آئیڈیا کیمرے کے سامنے کھڑے ہوکر بیان کیا۔ اس نے خاتون کے پاس موجود پستول دکھاتے ہوئے بتایا کہ وہ ایسے ایسے کرتبوں پر مبنی وڈیوز ہرہفتہ اپنے چینل پراَپ لوڈ کرنا چاہتا ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ ایسی و ڈیوز اس سے پہلے بہت سے نامورافراد کی بھی نہ ہوں گی۔ لڑکی کی ہچکچاہٹ اور نوجوان کا اصرار اس وڈیو ٹرانسکرپٹ میں بہت واضح طورپر دیکھا جا سکتا تھا۔
وڈیو تو ظاہر ہے کہ بن ہی گئی اور اس کے وائرل ہونے کی نوجوان کی خواہش بھی ان معنوں میں پوری ہوگئی کہ یہ خبرسوشل میڈیا پر ہی نہیں ‘دنیا کے کتنے ہی اخبارات اور ٹیلی وژن چینلز کے ذریعہ نشر ہوگئی لیکن کھیل ہی کھیل میں نوجوان شوہر کی زندگی ختم ہوگئی‘19سالہ کم عمر خاتون بیوہ ہوگئی اور ان کی چھوٹی سی بچی ہمیشہ کے لیے باپ سے محروم ہو گئی ۔
خاتون کو حراست میں لے لیاگیا ۔اس پر مقدمہ چلا لیکن اس بنیادپر کہ وہ دانستہ طورپر قتل کا ارتکاب نہ کرنا چاہتی تھی‘ اسے محض 180 روز ہ قید کی سزادی گئی۔یہ سزا ان شرائط کے ساتھ دی گئی کہ وہ 10 سال تک زیرنگرانی رہے گی اور اسے تمام عمر پستول یا بندوق وغیرہ رکھنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اس پر یہ شرط بھی عائد کی گئی کہ وہ اس واقعے کی کہانی سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہ کرسکے گی۔
کوئی غیرمعمولی کام کرنے کا جذبہ اور اس کے ذریعے دوسروں کومتاثر کرنے کی خواہش بذات خود کوئی غیرفطری رجحان نہیں لیکن ایسا کوئی بھی منفی رجحان اگروباء کی شکل اختیارکرلے اور انفرادی سطح پر لوگ اس کے عادی (addict)ہوتے چلے جائیں تو یہ ایک طر ح کی نفسیاتی بیماری ہے جس کا ہرسطح پرشعوراجاگر کرنے اوراس کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔
