پودوں سے الرجی

پودوں سے الرجی

جولائی کے اختتام اور اگست کے آغازپر موسم کچھ عجیب طرح سے کروٹ لیتا ہے۔ ایک طرف تیز چبھتی ہوئی دھوپ ہمیں پریشان کئے ہوتی ہے تو دوسری طرف حبس ایسا کہ پسینہ خشک ہی نہیں ہوتا۔ ایسے میں جب بارش ہوتی ہے تو موسم بہتر ہو جاتا ہے،انسانوں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں اورچرند پرند کی بھی جان میں جان آتی ہے۔ جب پودوں پر بارش کی بوندیں پڑتی ہیں تو وہ بھی تروتازہ ہو جاتے ہیں اورہرطرف ہریالی پھیل جاتی ہے۔

اسلام آباد میں پولن الرجی

ہریالی سے بعض اوقات الرجی بھی ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً ناک میں ورم اورسوجن، ناک اورآنکھوں سے پانی بہنے، چھینکیں آنے، ناک بند ہوجانے اورناک میں کھجلی کی شکایت ہوتی ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پولن الرجی زیادہ ہے۔ اس کا سبب یہاں لگائے گئے کچھ درخت ہیں جن کے پولن وزن میں ہلکے اورمقدار میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ان درختوں کے بلند ہونے کے باعث کیڑے مکوڑے اور شہد کی مکھیاں ان کا پولن حاصل نہیں کرپاتیں۔ ایسے یہ ہوا کے ذریعے پوری فضاء میں بکھرجاتے ہیں۔ جب لوگ اس فضاء میں سانس لیتے ہیں تو یہ پولن ان کے جسموں میں داخل ہوکر الرجی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بہت سایہ دار اورجلدی پھلنے پھولنے والے درخت ہیں۔

ان درختوں کے علاوہ کچھ ایسے پودے بھی ہیں جو گھروں کے باغیچوں میں بہت شوق سے لگائے جاتے ہیں لیکن وہ الرجی کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح کچھ پودے الرجی کا باعث نہیں بنتے لیکن انہیں غلط طور پراس کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے ۔ان پودوں کی تفصیل درج ذیل ہے

پھولدار پودے

کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ پھولدار پودے الرجی کا سبب بنتے ہیں‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پولن وزن میں بھاری ہوتے ہیں اورآسانی سے فضاء میں بکھر کر معلق نہیں رہ سکتے۔ ان کے پولن کو دوسرے پودوں تک پھیلانے میں شہد کی مکھیاں اوردیگر حشرات الارض اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ اس لئے ان کی وجہ سے الرجی کم ہوتی ہے۔ البتہ ان پودوں کے پھولوں کو ناک کے قریب لے جا کر سونگھا جائے تو وہ الرجی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لئے جن لوگوں کو پولن الرجی ہو‘ وہ ان سے ذرا سے دور رہیں۔ اگرانہیں سونگھنا ہو توکم از کم 10سنٹی میٹر کا فاصلہ ضرور رکھیں۔

جنگلی جھاڑیاں

گھروں کے باغیچوں میں لگائے جانے والے بعض پودوں مثلاً گلاب،گیندا، گل داؤدی اورگل نرگس کا شمار جنگلی جھاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ باغیچوں کو خوبصورتی بخشنے کے ساتھ ساتھ گھروں کو خوشبودار بناتے ہیں. تاہم سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو چاہئے کہ انہیں گھر میں لگانے سے اجتناب کریں۔

پھلدار درخت

پھلدار درختوں کے پولن بھی وزنی ہوتے ہیں اورانہیں بھی شہد کی مکھیاں اور کیڑے ہی پھیلاتے ہیں۔ ان کے پولن کی پیداوار بھی کم ہوتی ہے لہٰذا ان سے الرجی ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

الرجی والے پودے

٭بیل دار سبزیوں کے گروپ کو کیوکربِٹس کہاجاتا ہے۔اگر ان کی تعداد زیادہ ہو گی تو ان پر پھول بھی زیادہ لگیں گے اور نتیجتاً پولن بھی زیادہ ہوں گے۔اس حصے میں کام کرنے والوں کو الرجی کی شکایت ہو سکتی ہے لہٰذا اس دوران ماسک وغیرہ ضروراستعمال کریں۔

٭یہ گھروں میں عام لگائی جانے والی گھاس ہے جس پر پھول لگتے ہیں۔ ان پھولوں میں سے پولن کے ساتھ باریک ٹشوز بھی نمودار ہوتے ہیں جو الرجی کا باعث بنتے ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ برسات آنے سے پہلے اس گھاس کی کٹائی کر دیں تاکہ ان پر پھول نہ اگ سکیں۔ ایسے میں ان سے الرجی نہیں ہو گی۔

plant allergy, flowering plants, fruit plants, grass, pollen allergy

Vinkmag ad

Read Previous

پی سی او ایس

Read Next

ایلوویرا، ایک جادوئی پودا

Leave a Reply

Most Popular