معاملے دل کے

معاملے دل کے

دل کی دھڑکن زندگی کی علامت ہے‘ اس لئے کہ وہ اس کے ذریعے پورے جسم میں خون کی گردش کو یقینی بناتا ہے۔ دل کی صحت کو بہتر بنانے کے لئے کیا کرناچاہئے ‘ بتا رہے ہیں شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے ماہر امراض قلب ڈاکٹر اسد اکبر‘ صباحت نسیم کو دئیے گئے اس انٹرویو میں

یہ بتائیے کہ انجائنا،ہارٹ اٹیک اورہارٹ فیل ہونے میں کیا فرق ہے؟

 دل کو مسلسل کام جاری رکھنے کے لئے خون کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے دل کی شریانوں کے ذریعے ملتا ہے۔انہیں کارونری آرٹریز کہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ خون میں شامل چربی ان شریانوں میں جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ تنگ ہوجاتی ہیں۔ جب یہ تنگی 50یا 60فی صد سے زیادہ بڑھ جائے تو دوران خون میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں کوئی جسمانی یا ذہنی سرگرمی کی جائے تو سینے میں عجیب سی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اس درد کو طبی اصطلاح میں ’’انجائنا‘‘ کہتے ہیں۔ جب یہ رگ مکمل طور پر بند ہوجاتی ہے اورخون بالکل نہیں گزر پاتا تو اسے ’’ہارٹ اٹیک‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح جب دل کسی وجہ سے خون کو پمپ کرنا بند کر دیتا ہے تو اس کیفیت کو ہارٹ فیلیور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

دل کے دورے کی عام علامات کیا ہیں؟

اس کی عام علامات میں سینے میں درد اور کسی بھی کام یا جسمانی سرگرمی کے دوران سانس پھولنا ہے۔ اس کی دیگر علامات میں جبڑے میں درد اور سینے سے درد کا بائیں بازو میں جانا شامل ہے۔ درد ایسا ہو جو آدھے گھنٹے سے کم رہے اور آرام کرنے پر ٹھیک ہوجائے تو وہ دل کے درد یا دورہ کی علا مت ہے۔ اگر وہ زیادہ دیراورمسلسل برقراررہتا ہے اور بازو کی کسی خاص سمت میں گھمانے کے باعث ہوتا ہو تو اسے دل کے دورے یا درد کی علامت نہیں سمجھا جائے گا۔ البتہ خواتین کو دل کے دورے میں سینے میں درد نہیں ہوتا‘ صرف سانس پھولتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی صورتوں میں ڈاکٹرحضرات خواتین میں دل کے دورے کو نہیں پکڑ پاتے۔ وہ اس تک تبھی پہنچتے ہیں جب وہ ان کی میڈیکل ہسٹری سے واقف ہوں۔

دل کو نقصان پہنچانے والی بڑی چیزیں کیا ہیں؟

ان کو دوحصوں میں بانٹاجاسکتا ہے۔ایک وہ جنہیں آپ تبدیل نہیں کرسکتے جیسے جینز اور فیملی ہسٹری وغیرہ۔ دوسری وہ جنہیں ایک خاص حکمت عملی سے بدلا جاسکتا ہے۔ ان میں موٹاپا،غیر متحرک طرززندگی،غیر صحت بخش غذا،سگریٹ نوشی، ہائی بلڈپریشر اور ذیابیطس وغیرہ شامل ہیں۔اس کا تعلق ذہنی تنائو کے ساتھ بھی ہے۔ شخصیت کی بنیاد پردرجہ بندی  کے مطابق کچھ لوگوں کو ’’ٹائپ اے شخصیت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ شدید حساس لوگ ہوتے ہیں۔ یہ جب کوئی غلط کام ہوتا دیکھتے ہیں تو اسے درست کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ تاہم اگر ایسا نہ کر سکیں تو شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر بعض اوقات دل کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں میں دل کی بیماری کی شرح سب سے زیادی پائی جاتی ہے۔

دل دوست غذائیں کون سی ہیں؟

ان میں ہرے پتوں والی سبزیاں ،مرغی ،مچھلی اور مکمل انڈا ہفتے میں ایک یا دو دفعہ کھانا شامل ہیں۔ گھی، بڑا یا چھوٹا گوشت اوریخنی جو صرف چکنائی پر مشتمل ہوتی ہے‘ دل کے مریضوں کے لئے اچھے نہیں۔ اگربہت دل چاہے تواپنا پسندیدہ مرغی یا مچھلی کا ایک پیس کھا لیں لیکن روزانہ نہیں ورنہ آپ کا کولیسٹرول لیول بڑھ جائے گا۔

دل کے مریض کھانے میں کتنا نمک اور کون سا تیل استعمال کریں؟

ان کے لئے سب سے بہتر زیتون کا تیل ہے لیکن یہ مہنگا ہے اورہر شخص اسے خرید نہیں سکتا۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ آپ کسی بھی کوکنگ آئل میں کھانا پکائیں‘ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سالن پر تری موجود نہ ہو۔ ہائی بلڈپریشر کے مریض اور جن افراد کے دل کا پٹھہ کمزور ہے وہ نمک کی مقدار کم سے کم استعمال کریں۔ آٹے، چاول ، سلاد اور پھلوں پر نمک چھڑک کر بالکل نہ کھائیں۔ صرف سالن میں نمک ڈالیں۔ اگر طلب ہو تو کالی مرچ اور لیموں استعمال کریں۔ اس سے ذائقہ بہتر ہوگا اور نمک کی کمی بھی محسوس نہیں ہوگی۔

بازار میں مختلف اقسام کے نمک موجود ہیں۔ دل کے مریضوں کے لئے کیا تمام نمک مضرصحت ہیں؟

اصل میں بات یہ ہے کہ دل کے مریضوں کے لئے سوڈیم اچھا نہیں ہے ۔ پوٹاشیم سالٹ بلڈپریشر تو نہیں بڑھاتا لیکن اس کا زیادہ استعمال گردوں کو خراب کردیتا ہے۔ جسم میں پوٹاشیم کی سطح بڑھنے سے دل میں پھڑپھراہٹ بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔اس لئے عام نمک ہی استعمال کریں لیکن اس کی مقدار کم سے کم رکھیں۔

صحت مند دل کے لئے ہمیں کون سی ورزش کرنی چاہئے ؟

صحت مند دل کے لئے ایک اہم عامل متحرک طرز زندگی ہے۔ جسمانی سرگرمی کے لئے پہلے یہ تجویز کیا جاتا تھا کہ آپ کودن میں ایک گھنٹہ تیزقدمی یا ہفتے میں پانچ دن ورزش کرنا ہے۔ اب مریض کو یہ کہا جاتا ہے کہ آپ نے روزانہ 45منٹ ورزش کرنا ہے ‘بھلے وہ واک ہو، تیزقدمی ہو یا جو بھی ورزش آپ کو پسندہو، لیکن اسے روزانہ کرنا ہے۔ اگرآپ و قفہ کریں گے تو اس سے کماحقہ‘ فائدہ نہیں ہوگا۔

دل کے مریض خصوصاً خواتین اور بزرگ افراد کے لئے کون سی ورزش بہتر ہے؟

دل کے مریضوں کے لئے ورزش کی شدت یا اس کی قسم نہیں بلکہ اس کا دورانیہ اور باقاعدگی اہم ہیں۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ہر شخص کے لئے روزانہ 10000قدم لینا ضروری ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ روزانہ 7000تک قدم لے رہے ہیں تو یہ صحت مند دل کی نشانی ہے ۔ تاہم اگر ان کی مقدار 2500قدم سے کم ہے تو آپ کو دل کے دورے کا خطرہ دوسروں سے زیادہ ہے۔

سنا ہے کہ دل کے والوز کی تبدیلی کے لئے نئی تکنیک متعارف ہوئی ہے۔ یہ کیا ہے اورکیا یہ پاکستان میں بھی ہورہی ہے؟

ٹاوی یا ٹی وار  پروسیجر میں جانگھ میں چیرا دے کر کتھیٹر کی مدد سے نئے والو کو پرانے یا کمزور والو کے اندر رکھا جاتا ہے۔ اس مصنوعی والو کی عمر 8سے 10سال تک ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ پروسیجرمتعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ یہ حال ہی میں شفاانٹرنیشنل ہسپتال میں شروع ہوا ہے جو اسلام آباد ،پنجاب اورکے پی میں اس نوعیت کی پہلی سرجری ہے۔ اس کی اچھی بات یہ ہے کہ مریض ایک سے دو دن میں ہسپتال سے فارغ ہو جاتا ہے۔ چونکہ روایتی سرجری مشکل ہوتی ہے لہٰذا یہ طریقہ کار بزرگوں،دل یا ذیابیطس کے مریضوں اورموٹاپے کے شکار افراد کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ جو مریض روایتی سرجری کروا سکتے ہوں انہیں بھی یہی تجویز کیا جارہا ہے۔ اس میں وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ جلد صحت یابی کا امکان بھی زیادہ ہے ۔

روٹا بلیشن کیا ہے ؟

انجیوپلاسٹی دل کی شریانوں کو کھولنے کا ایک روایتی طریقہ علاج تھا۔ اس میں پہلے انجیو گرافی کرکے دل کی بند شریانوں کا معائنہ کیا جاتاہے۔ پھر انجیوپلاسٹی کی مدد سے سٹنٹ ڈال کر بندشریانوں کو کھولا جاتا ہے۔ اس میں بد پرہیزی اور بے احتیاطی کی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں شریان کے دوبارہ بند ہونے کا خطرہ باقی رہتاہے۔ اس میں ایک نئی پیش رفت روٹا بلیشن نامی تکنیک ہے۔اس میں بند شریانوں کی دیواروں پر زیادہ پرانی یا جمی ہوئی چکنائی کو ایک ڈرل نما آلے کی مدد سے کھرچا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان شریانوں میں سٹنٹ ڈالا جاتا ہے جو زیادہ دیر پا ثابت ہوتا ہے ۔

سائنس کے مطابق جذبات وغیرہ کو بھی دماغ کنٹرول کرتا ہے جبکہ عام زندگی میں ہم انہیں دل کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ کیا معاملہ ہے؟

انسانی جسم میں جذبات کے اظہار کے لئے مختلف ہارمونز پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کا موڈ جس طرح کا ہوتا ہے‘ اسی طرح کے ہارمونز آپ کے جسم میں زیادہ ہوجاتے ہیں۔ ان ہارمونز کا اثر آپ کے دل کی دھڑکن پر بھی ہوتا ہے جس سے وہ تیز یا آہستہ ہوجاتی ہے۔ جب جسم میں ایڈرینالین بڑھ جاتا ہے تو دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ شواہد سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ڈپریشن کے شکار لوگوں میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ دل کے دورے کا شکار ہوں، ان میں مایوسی بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جذبات دل کو اور دل جذبات کو متاثر کرتاہے ۔

دل ٹوٹنا کی اصطلاح ہم روزمرہ میں استعمال کرتے ہی ہیں لیکن اب میڈیسن میں بھی ’’بروکن ہارٹ سینڈروم‘‘ کا تذکرہ سننے کو ملتا ہے۔ یہ کیا چیز ہے؟

بروکن ہارٹ سینڈروم ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں اچانک کسی ذہنی تناؤ کے نتیجے میں دل کا بایاں حصہ کچھ عرصے کے لئے دھڑکنا بند کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس دل کا باقی حصہ نارمل سے زیادہ دھڑکنا شروع ہوجاتا ہے۔ 95فی صد لوگوں میں یہ بنا کسی دوا کے مہینے کے اندراندرٹھیک ہوجاتا ہے۔ یہ معاملہ زیادہ تر 30سے35سال کے افراد میں عام دیکھا جاتا ہے۔ اس کی علامات میں سینے میں درد اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔ بروکن ہارٹ سینڈروم کی تشخیص ای سی جی اور ای کو سے کی جاتی ہے۔

دل کے مریضوں کا گھر میں خیال کیسے رکھا جائے؟

اس کے لئے ضروری ہے کہ مریض کے گھر والے ڈاکٹر سے بات کریں اور پوچھیں کہ مریض کی کیسے مدد کی جاسکتی ہے۔ وہ اس سے دریافت کریں کہ کون سی ایسی چیزیں ہیں جن میں مریض اپنی مدد آپ کر سکتا ہے۔ ہر بیماری کا علاج اور اس کی احتیاطی تدابیر مریض کی حالت اورمرض کی شدت کو مدنظر رکھ کر بتائی جاتی ہیں۔

بلڈ پریشر عموماً بائیں بازو سے کیوں لیا جاتا ہے؟

بلڈپریشر لینے کے لئے جو ہدایات ہیں، ان میں پہلی یہ ہے کہ بازو اور دل ایک سطح پر ہوں۔ اس لئے بلڈپریشر لیتے وقت بہترہے کہ آپ پرسکون حالت میں لیٹے ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بلڈپریشر چیک کرنے سے آدھا گھنٹہ پہلے آپ نے چائے یاکافی نہ پی ہو اور نہ ہی کوئی جسمانی مشقت کی ہو۔ایسا کرنے سے آپ جس بھی بازو سے بلڈپریشر لیں گے وہ زیادہ تر درست ہی ہوگا۔

بلڈ پریشر کے مریض کو کس ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے؟

 بلڈپریشر زیادہ تردل،آنکھوں اور گردوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس لئے بلڈپریشر کے مریض کو معائنے کے لئے ماہر امراض قلب یا میڈیکل سپیشلسٹ کے پاس جانا چاہئے ۔

دل کے کون کون سے ٹیسٹ ہیں اور کب کئے جاتے ہیں؟

دل کی عام بیماریوں میں سانس چڑھنا،سینے میں درد اور بلڈ پریشر قابو میں نہ رہنا شامل ہیں۔ جن مریضوں کا بلڈ بریشرکنٹرول میں نہیں رہتا، ان کے لئے گردوں کی نالیوں کا ٹیسٹ، ہارمونز کے ٹیسٹ،دل کاایکو اور آنکھو ں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ سینے میں درد کے مریض کے لئے ایکواورای ٹی ٹی کئے جاتے ہیں ۔تاہم واضح رہے کہ ان ٹیسٹوں کی ایکوریسی 70فی صد تک ہے۔ دل کے مرض کا خطرہ اگر زیادہ ہو اور مسئلے کی تصدیق ضروری ہو تو پھر درد کی شدت اور باقی علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے سی ٹی انجیوگرافی کرتے ہیں ۔

ریسٹنگ ہارٹ ریٹ کیا ہے اور کتنا ہونا چاہئے؟

ایک منٹ میں 60سے لے کر 90 تک دھڑکن نارمل ہے۔ دل کے مریض کا ریسٹنگ ہارٹ ریٹ ایک منٹ میں70دھڑکن سے نیچے رکھا جاتا ہے۔ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ اتنی ورزش کریں کہ آپ کو ہلکا سا پسینہ آجائے۔ اس دوران اگر 10سے15منٹ تک ان کے دل کی دھڑکن ایک منٹ میں 110سے115 رہے تو یہ نارمل ہے۔ اگر وہ 160سے 170کے درمیان ہو تو یہ اچھا نہیں ۔ایسے میں دل کے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہئے۔ اگر آپ کے دل کی دھڑکن نارمل سے تیز ہو تو اپنی نبض کو گھڑی کے ساتھ 15سیکنڈ کے لئے گنیں۔ پھر اسے چار سے ضرب دے دیں۔ اگردل دھڑکنے کی شرح بنا کسی مشقت یا سرگرمی کے 90 سے اوپر جارہا ہو تو آپ کو ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہئے ۔

یہ بتائیے کہ دل کے مریض روزہ رکھیں یا نہیں؟

اگر حال ہی میں دل کے دورہ کا شکار ہوئے ہوں،  سٹنٹ ڈالا گیا ہو، پیشاب آور ادویات لے رہے ہوں یا ان کے دل کا پٹھہ کمزور ہوتو وہ روزہ نہیں رکھ سکتے۔ البتہ وہ مریض جنہیں کچھ سال پہلے ان میں سے کوئی مسئلہ ہوا تھا اور اب  نارمل کے قریب زندگی بسر کررہے ہیں، ادویات باقاعدگی سے لے رہے ہیں تو وہ ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھ سکتے ہیں۔

دل کے مریض سحرو افطار میں کیا احتیاطیں کریں؟

سب سے ضروری بات یہ ہے کہ انہیں اس دوران ایسی اشیاء کا استعمال کرنا چاہئے جن میں نمک کم سے کم ہو۔ ہمارے ہاں بالعموم افطار میں تلی ہوئی اور چٹ پٹی اشیاء مثلاً سموسوں‘پکوڑوں اور رول وغیرہ کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ دل کے مریضوں کے لئے بطور خاص نقصان دہ ہیں۔ گھی کی بجائے کسی اچھے اورمعیاری کوکنگ آئل کا استعمال کم مقدار میں کرنا چاہیے۔ ہائی بلڈ پریشر کے مریض بطور خاص کھانے میں اعتدال برقراررکھیں۔ وہ افراد مزید احتیاط کریں جن کو ایک دفعہ دل کا دورہ پڑ چکا ہو۔

افطاری میں تازہ پھلوں کو ترجیح دیں اور اس کے بعد تھوڑی بہت چہل قدمی کریں۔ یہ آپ کی صحت کے لئے مفید ثابت ہوگی۔ سحری کے بعد فوراً لیٹنا آپ کی صحت کے لئے مفید نہیں۔ امراض قلب کے شکار افراد کو عام طو رپر ذیابیطس کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے انہیں چاہیے کہ چائے اور کولا مشروبات کی بجائے سادہ پانی اور پھلوں کا جوس استعمال کریں۔ دل کے مریض سحری اور افطاری میں مندرجہ بالا احتیاطوں کا خیال رکھیں تو وہ روزے رکھتے سکتے ہیں ۔ ایسے انہیں اپنی بیماری کے حوالے سے کسی پیچیدگی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔

Interview, DR Asad Akbar, heart issues, solutions, treatments

Vinkmag ad

Read Previous

پرو ٹائم ٹیسٹ

Read Next

روزانہ کتنا پانی پئیں

Leave a Reply

Most Popular