ہمیں اپنے اردگرد اکثر لوگ وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے پریشان نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ ایسے بھی ہیں جن کی پریشانی کا سبب وزن کی زیادتی نہیں بلکی کمی ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایچ اور کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 462 ملین افراد کا وزن معمول سے کم ہے۔
بعض اوقات وزن نارمل ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہمیں کم یا زیادہ لگتا ہے۔ اس کی صحیح جانچ کے لیے بی ایم آئی کیلکولیٹر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی شخص کے قد اور عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے بتاتا ہے کہ اس کے لیے مناسب وزن کتنا ہے۔ بی ایم آئی 18.5 سے کم ہو تو یہ وزن کم ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
وزن میں کمی کی وجہ
وزن کم ہونے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ کوئی شخص کھا رہا ہے، اسے بھوک بھی ٹھیک لگتی ہے مگر پھر بھی اس کا وزن نہیں بڑھ رہا۔ دوسرا یہ کہ کسی کا وزن کھانا نہ کھانے کی وجہ سے کم ہے۔
پہلی صورت میں کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کھانے پینے کے باوجود وزن نہ بڑھنا کسی بیماری کی علامت ہو سکتا ہے۔ مثلاً سیلئک ڈیزیز، ٹائپ ون ذیابیطس، انفیکشنز اور کینسر وغیرہ۔
دوسری صورت میں ایسی چیزیں استعمال کرنا ہوتی ہیں جن سے بھوک بڑھے۔ غذائی تبدیلیوں کے ساتھ کچھ سپلیمنٹس بھی دیے جاتے ہیں اور دن بھر کی غذائی ضروریات اور انہیں پورا کرنے کے حوالے سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ماہر غذائیات کی مدد لی جا سکتی ہے۔
وزن کیسے بڑھائیں
وزن بڑھانے سے متعلق ایک تصور یہ ہے کہ اس کے لیے ہر طرح کی چیز (جس میں جنک فوڈ بھی شامل ہے) زیادہ مقدار میں کھانی چاہیے مگر یہ درست نہیں۔ اسے صحت مند طریقے سے بڑھانے کا مطلب ہے کہ آپ کے پٹھوں کی نشوونما ہو، ان کا وزن بڑھے اور چربی نہ بڑھے۔ اس سلسلے میں ان باتوں پر عمل کیا جا سکتا ہے:
٭ ایسی چیزیں کھائیں جو کم مقدار میں بھی زیادہ توانائی دیں۔ مثلاً میوہ جات اور بیج۔ ان سے کیلوریز، اچھی چکنائیاں اور پروٹین حاصل ہو گی۔
٭ میوہ جات، السی کے بیج اور چار مغز کا پاؤڈر بنا کر رکھ لیں پھر جب بھوک لگے اسے کھائیں۔
٭ پروٹین کی حامل اشیاء کا استعمال بڑھا دیں۔
٭ وزن کم کرنا ہو تو کھانے کے لیے چھوٹی پلیٹ استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ وزن بڑھانا ہو تو بڑی پلیٹ استعمال کرنی چاہیے۔
٭ مشروبات زیادہ پیئیں تاکہ بھوک زیادہ لگے۔
٭ پیاس لگے تو دودھ یا جوس پی لیں کیونکہ ان سے زیادہ توانائی تو حاصل ہوتی ہے مگر وہ محسوس کم ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ڈبل روٹی کا ٹکڑا لیا جائے تو اس سے پیٹ بھرا محسوس ہوگا، اس کے برعکس دودھ کا گلاس پی لیا جائے تو یہ احساس کم ہوگا۔
٭ جب دودھ پیئیں تو اس میں میوہ جات کا پاؤڈر شامل کر لیں۔
٭ کھانوں کے درمیان لگنے والی بھوک کو میوہ جات سے مٹائیں۔
ایسے کھانے نہ کھائیں جن میں کیلوریز تو زیادہ ہوں مگر غذائیت نہ ہو مثلاً فاسٹ فوڈ وغیرہ۔ پھر کھانے کے ساتھ یا اس سے پہلے کوئی مشروب نہ پیئیں۔ کھانوں کے درمیان بہت زیادہ وقفہ دینا بھی ٹھیک نہیں۔ کم مقدار میں اور کم وقفے سے کھانا کھائیں۔
ورزش کیسی ہو
وزن بڑھانے کی سرگرمیاں اسے کم کرنے سے مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً وزن کم کرنے کے لیے ایسی ورزشیں کی جاتی ہیں جن سے دھڑکن تیز ہو۔ اس کے برعکس وزن بڑھانے کے لیے ایسی ورزشیں موزوں ہوتی ہیں جن سے پٹھوں کی برداشت اور طاقت میں اضافہ ہو۔
اکثر لوگوں کا یہ سوال ہوتا ہے کہ ان کا وزن کتنے دنوں میں بڑھ جائے گا۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جیسے اسے کم کرنے میں وقت لگتا ہے ویسے بڑھانے میں بھی وقت لگتا ہے۔ اس کے لیے کوئی مخصوص وقت بتانا ممکن نہیں لہٰذا تھوڑا صبر سے کام لیں۔
اسی طرح ہر فرد کا جسم اور ضروریات مختلف ہوتی ہیں لہٰذا ایک ڈائٹ پلان ہر کسی کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔ بہتر ہے کہ کسی ماہر غذائیات سے رابطہ کر کے اپنے لیے مخصوص ڈائٹ پلان بنوا لیں۔