Vinkmag ad

آنکھ میں ککرے

آنکھیں قدرت کا وہ انمول تحفہ ہیں جو ہمیں دنیا کی رنگینیوں سے روشناس کرواتی اور ان سے لطف اندوز ہونے کا بھرپور موقع فراہم کرتی ہیں۔ جسم کے دیگر اعضاءکی طرح انہیں بھی صاف رکھنے اور ان کی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر اس سے لاپروائی برتی جائے تو آنکھوں میں کُکروں کی بیماری لاحق ہو سکتی ہے ۔ ماہرین امراض چشم کی آراءکی روشنی میں مدحت نسیم کی ایک معلومات افزاء تحریر

صفائی نصف ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ صحت مند رہنے کے لئے بھی اشد ضروری ہے لہٰذا ہمیں اپنی اور اپنے اردگرد کے ماحول کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔اس کے برعکس آج ہم جس ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں‘ وہ کئی قسم کی آلودگیوں کا شکار ہے۔یہ ماحول متعدی امراض اور سانس کی بیماریوں کے علاوہ آنکھوں کو بھی کئی طرح کے امراض میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے جن میں سے سے ایک آنکھ میں ککرے  بھی ہے ۔
ککرے کیا ہے ؟
دنیا بھر میں 10سے15فی صد لوگوں کی بینائی کے ضائع ہونے کی وجہ آنکھ میں ککروں کو قرار دیا جاتا ہے ۔بدقسمتی سے بچے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہ صفائی کا خاص خیال نہیں رکھتے۔شفاانٹرنیشنل ہسپتال کی ماہر امراض چشم ڈاکٹرسعدیہ فاروق کے مطابق یہ بیماری ایک بیکٹیریا کلے مائیڈیا ٹریکومیٹس  کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ان کے بقول یہ بیماری آنکھ کے حساس حصے کارنیا اور آنکھ کے سفید پردے کو نشانہ بناتی ہے ۔
پہلے مرحلے میں اس مرض کا باعث بننے والا جرثومہ آنکھ میں داخل ہوکر اس کے حساس حصوں میںانفیکشن کا باعث بنتا ہے ۔ اس کی وجہ سے پپوٹوں کی اندرونی سطح کھردری اور ناہموار ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں آنکھ میں شدید درد ہوتا ہے، وہ سرخ ہوجاتی ہیں ‘پلکیں آنکھوں کی طرف مڑ کر تکلیف دیتی ہیں اور بعض اوقات آنکھ کے نرم حصے پھٹ بھی جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ مریض کے تیز روشنی میں آنکھیں بند کر لینے، دل کے تیز دھڑکنے اور بعض اوقات کانوں کے سامنے لمف نوڈز  کے سوج جانے یا آنکھوں سے خاص قسم کا مواد خارج ہونے کی علامات بھی سامنے آتی ہیں۔دوسرے مرحلے میں زخم بھرتے ہیں اوراپنی جگہ پر سخت ہوکر نابیناپن کا باعث بنتے ہیں۔

مرض کی وجوہات
ان کے بقول اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں

صفائی کا خیال نہ رکھنا۔
ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہونا جہاں گندگی زیادہ ہو۔
ایسے انسان کا تولیہ،رومال یا کپڑے وغیرہ استعمال کرنا جو پہلے سے اس مرض کاشکار ہو‘یا اس کے ہاتھوں،آنکھوں یا تھوک کو چھونا یا اس کے استعمال شدہ برتن میں کھاناکھانا۔
اردگرد کے ماحول میں مکھیوں کا موجود ہونا۔
ایسی آبادیوں میں رہنا جہاں بیت الخلاءکی سہولت موجود نہ ہو۔
مویشیوں کے ساتھ ایک جگہ پر زندگی گزارنا۔

 

تشخیصی ٹیسٹ اور علاج
ڈاکٹرسعدیہ نے بتایا کہ مرض کی علامات کو دیکھتے ہوئے ماہرامرض چشم کچھ تشخیصی ٹیسٹ بھی کرتے ہیں جن میں سے ایک جِمساسٹیننگ ہے ۔ اس میں کارنیا کے ٹشوکا خوردبینی معائنہ کیا جاتا ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اس بیماری نے آنکھ کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔
اس مرض کا علاج ڈاکٹر کی ہدایت کردہ ادویات کا استعمال ہے جبکہ بعض صورتوں میں آپریشن بھی کیا جاتا ہے ۔

احتیاطی تدابیر
ڈاکٹر سعدیہ فاروق کے مطابق مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے اس بیماری سے محفوظ رہا جا سکتا ہے
اپنے ماحول کوصاف ستھرارکھیں۔
بیت الخلا کی صفائی کو نظرانداز نہ کریں ۔
بچوں کے چہرے ،ہاتھ اور کھیلنے کی جگہ کو گندگی سے پاک رکھیں۔
اس مرض کے شکار فرد سے باقی افراد‘ خصوصاً بچوں کو براہ راست نہ ملنے دیں ۔اگر ان سے مصافحہ کیا ہو تو صابن سے ہاتھ دھوئیں۔
آنکھوں کی صفائی کے لئے ہفتہ بھر میں ایک بار کسی برتن میں پانچ حصے پانی اور ایک حصہ بے بی سوپ یا شیمپو ملائیں اور اس محلول سے اپنی پلکوں اور پپوٹوں کو نرمی سے دھوئیں۔
اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ اپنی آنکھیں بند کر لیں اور انگلیوں کے پوروں کی مدد سے پلکوں کو اچھی طرح ملیں۔ اس سے ان پر موجود اضافی تیل دُھل جائے گا۔قدرت نے ہماری پلکوں کے نیچے تیل بنانے کے غدود رکھے ہیں جنہیں اگر صاف نہ رکھا جائے تو اضافی تیل انفیکشن کا باعث بنتا ہے۔
جس طرح سونے سے پہلے منہ دھونا اور دانتوں کی صفائی ضروری ہے‘ ایسے ہی اس وقت آنکھوں کو واش کرنابھی اہم ہے۔ اگر ایسا نہ کیاجائے تو دن بھر کی دھول اورمٹی رات بھر آنکھوں میں رہتی ہے جو ان میں جلن اور سرخی کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کی وجہ سے بعض اوقات آنکھوں میں چپچپاہٹ سی آجاتی ہے اور صبح کے وقت انہیں کھلنے میں دقت ہوتی ہے۔
آنکھوں کو کسی کیمیکل سے دھونے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ صاف پانی ہی کافی ہے۔آج کل ہمارے ہاں پانی بھی صاف نہیں ہوتا لہٰذا وہ آنکھوں میں جراثیم لے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس مقصد کے لئے ابلے ہوئے پانی کو ٹھنڈا کر کے یا فلٹرشدہ پانی استعمال کریں۔

 عہد قدیم میں ککروں کا علاج
قدیم روم میںدوسری صدی قبل مسیح میں لکھی گئی ایک کتاب ’توبت کی کتاب‘میں ایک دلچسپ واقعہ بیان ہوا ہے جس کے مطابق توبیاس کے پاس یہ طاقت تھی کہ وہ بڑی مچھلی کا دل، جگر اور پتے کااستعمال کر کے لوگوں کو مختلف بیماریوں سے صحت یاب کرتا تھا۔
ایک دن اس کا والد ککرے کی بیماری میں مبتلا ہوگیا ۔ مرض کے زیادہ پھیل جانے اور اس کے زیادہ عرصے تک برقرار رہنے کی وجہ سے طبیبوں نے اسے لاعلاج قرار دے دیا اور یہ خدشہ ظاہر کیا کہ آخر کاراس کی بینائی چلی جائے گی۔جبتوبیاس کو اپنے والد کی بیماری کا پتا چلا تو اس نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہاکہ ”پریشان نہ ہوں، میں آپ کا علاج کروں گا۔ “ اس نے مچھلی کے پِتے کا عرق نکال کراس کے چند قطرے والد کی آنکھوں میں ڈال دیئے۔ کچھ دیر تک ”دوا“ کے آنکھوں میں رہنے کے بعد اس نے انہیں آنکھیں ملنے کو کہا۔جب انہوں نے آنکھیں ملیں تو دانے دار جھلی سفید پردے سے ہٹ کر گر گئی اوران کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں۔

اگرچہ اس طرح کے واقعات تاریخ کی پرانی کتب میں موجود ہیں لیکن انہیں آج کے دور میں آزمانے سے گریز کرنا چاہئے ‘ اس لئے کہ پرانے زمانوں میں اُن کے نقصانات کے بارے میں پوری طرح سے علم نہ تھا۔آج ماہرین یہ کہتے ہیں کہ معالج کے مشورے کے بغیر کوئی بھی چیز آنکھ میں نہیں ڈالنی چاہئے‘ اس لئے کہ وہ شدید نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔اگر آنکھوں میں ایسی کوئی تکلیف محسوس ہو تو فوراً ماہر امراض چشم سے مشورہ کرنا چاہئے اور اس کی ہدایات پر عمل کر کے قدرت کی اس نعمت کی حفاظت کا اہتمام کرنا چاہئے ۔

Vinkmag ad

Read Previous

پودے لگائیں ‘مچھر بھگائیں

Read Next

ایپی ڈیورل۔۔۔ درد زہ کے بغیرزچگی

Most Popular