Vinkmag ad

ایپی ڈیورل۔۔۔ درد زہ کے بغیرزچگی

 دردِ زہ کچھ خواتین کے نزدیک قابل فخر ہے‘ اس لئے کہ وہ انہےں ماں بنا کرتکمیل کے مرحلے تک پہنچاتا ہے جبکہ کچھ کے لئے ےہ اےک اذےت کے سوا کچھ نہیں۔ اب ایپی ڈیورل  نے یہ مشکل آسان کر دی ہے۔ اگرچہ یہ ایک سہولت ہے جس سے استفادہ کرنے میں حرج نہیں لیکن صدیوں کے تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ ہم جتنا زیادہ فطرت کے قریب جائیں گے‘ اتناہی سکھی اور صحت مند رہیں گے۔ ماہرین سے گفتگووں کی روشنی میں صباحت نسیم کی معلوماتی تحریر

وہ بہت خوش تھی‘ اس لئے کہ اس کے رحم میں ایک نہیں دو بچے پرورش پا رہے تھے۔ دن‘ ہفتے اور مہینے دھیرے دھیرے آگے بڑھتے رہے اور وہ اس دن کا انتظار کرنے لگی جب اس کی گود میں ایک نہیں‘ دو پھول کھلیں گے۔ ایک دن اسے اچانک یہ خبر سننے کو ملی کہ ان میں سے ایک بچے کی نشوونما بالکل رک گئی ہے اور وہ زندہ نہیں بچ پائے گا۔ایک دفعہ تو اسے یوں لگا جیسے اس کے پاﺅں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو لیکن تقدیر کے فیصلوں پر راضی ہونے کے علاوہ کوئی چارہ بھی تونہ تھا۔وہ بھی رو دھو کر خاموش ہوگئی۔
اس سے قبل اس کے دو بچے تھے اور دونوں ہی نارمل ڈیلوری سے پیداہوئے تھے۔ اب کی بار اسے بتایا گیا کہ تندرست بچے کو بچانے کے لئے نارمل زچگی کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔
”تو کیا میراسیزیرین سیکشن کیا جائے گا؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ وہ بچپن سے ہی آپریشن کے نام سے خوفزدہ تھی۔
”مردہ بچے کو نکالنے کے لئے آپریشن کرنا پڑے گا ورنہ اس کی ضرورت نہ ہوتی۔ڈاکٹر نے اسے بتایا
ماں بننا اکثر خواتین کے لئے زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے جو انہیں شاید زندگی کے سب سے تکلیف دہ درد کے بعد ملتی ہے جسے دردِ زہ کہا جاتا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ صبر کا پھل جب ان کی گود میں آتا ہے تو وہ ساری تکلیف بھول جاتی ہےں۔کچھ خواتین کے نزدیک ےہ درد قابل فخر ہے‘ اس لئے کہ وہ انہےں ماں بنا کرتکمیل کے مرحلے تک پہنچاتا ہے۔ دوسری طرف کچھ خواتےن کےلئے ےہ اےک اذےت ہے اور وہ اےسے طرےقے ڈھونڈتی ہےں جو انہےں اس سے بچا سکیں۔ ایک زمانے میں سی سیکشن ہی اس کا واحد حل تھا لےکن اس میں بھی خاتون کو بےہوش کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ اب ایپی ڈیورل  نے یہ مشکل آسان کر دی ہے۔

ایپی ڈیورل ہے کیا
شفا انٹر نیشنل اسلام آباد کی ماہر زچہ و بچہ ڈاکٹر نابیعہ طارق ایپی ڈیورل کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں:
ریڑھ کی ہڈی کے گرد موجود مضبوط جھلی کو ڈیورا کہا جاتا ہے۔ یہاں تین جھلیاں ہوتی ہیں اور سب سے بیرونی جھلی یعنی قمر میں ایک انجیکشن لگایا جاتا ہے۔ اس کا تعلق ”لوکل انستھزیا“ کی کلاس سے ہے یعنی اس میں فرد کو بیہوش نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی مخصوص جگہ کو سُن کر دیا جاتا ہے۔ ایسا زچگی کے عمل میں ہونے والے درد کو ختم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
بعض لوگ ایپی ڈیورل اور جنرل انستھزیا کو ایک ہی چیز کے دو نام سمجھتے ہیں لیکن ڈاکٹر نابیعہ کے بقول ایسا نہیں ہے:
ایپی ڈیورل کی صورت میں صرف مخصوص حصے کو سن کےا جاتا ہے اور زچگی کے دوران مریضہ مکمل ہوش میں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جنرل انستھ؛زیا میں وہ مکمل بےہوشی کی حالت میں ہوتی ہے اور اسے کچھ علم نہیں ہوتا کہ اُس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔

ایپی ڈیورل غیر موثر کیوں
شفا انٹر نیشنل کے انستھےزےالوجسٹ ڈاکٹر نفیس الحسن نے بتایا کہ بعض اوقات ایپی ڈیورل اثر نہیں کرتا جس کی درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں:
٭ انجیکشن ریڑھ کی ہڈی کی صحیح نالی میں نہ لگنا۔
٭ دواکی مقدار کاضرورت کے مطابق نہ ہونا۔
٭ انجیکشن لگانے کے بعد خاتون کا سیدھا نہ لیٹنا۔

ایپی ڈیورل کے منفی اثرات
ڈاکٹر نفیس کے مطابق ایپی ڈیورل کے درج ذیل نقصانات ہو سکتے ہیں:
٭ ایپی ڈیورل جہاں لگایا جاتا ہے‘ اس جگہ کے ٹشوز زخمی ہوجاتے ہیں جن سے مریضہ کو اٹھتے‘ بیٹھتے‘ لیٹتے اور کروٹ بدلتے وقت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم یہ زخم ہفتے یا10 دن میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
٭ ریڑھ کی ہڈی میں ایک خاص قسم کا محلول ہوتاہے۔ اگر انجیکشن لگاتے وقت وہ بہہ جائے تو خاتون کے سر میں شدید درد ہو سکتا ہے۔ بالعموم ایک فی صد سے بھی کم خواتین اس مسئلے کا شکار ہوتی ہےں۔ اگر مریضہ ڈاکٹر کی بتائی گئی ہدایات پر عمل کرے تو یہ مسئلہ بھی پانچ سے چھ مہینے میں مکمل ٹھیک ہوجاتا ہے۔
٭ اےپی ڈےورل لگانے سے مریضہ صدمے کا شکار ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں اس کا بلڈ پریشر اچانک بہت کم ہوسکتا ہے اور دل کی دھڑکن تیز ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کے دوران باقاعدگی سے بلڈ پریشر کا معائنہ کیاجاتارہے تاکہ بچے کو پیدائش سے قبل مناسب مقدارمیں خون مل سکے۔
٭ بچے کی پیدائش کے کچھ گھنٹوں بعد تک خاتون کو نچلا دھڑ مفلوج محسوس ہو سکتا ہے۔
٭زچگی کے بعد شدید کپکپی طاری ہونے‘کمرمیںدرد اور سرچکرانے جیسے مسائل کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

سائنسی ترقی کی بدولت انسانی زندگی بہت آسان ہوگئی ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاکہ ان آسانیوں کی وجہ سے ہم فطرت سے دور ہورہے ہیں۔کچھ خواتین کو ڈاکٹرطبی بنیادوں پر یہ تجویز کرتے ہیں جبکہ کچھ اپنی پسند سے یہ کرواتی ہیں۔ اگرچہ یہ ایک سہولت ہے جس سے استفادہ کرنے میں حرج نہیں لیکن صدیوں کے تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ ہم جتنا زیادہ فطرت کے قریب جائیں گے‘ اتنا ہی سکھی اور صحت مند رہیں گے۔ اس لئے اگر ڈاکڑ تجویز کرے تو یہ ضرور کروانا چاہئے ورنہ فطری راستے کو ہی اختیار کرنے میں بھلائی ہے۔
بغیردرد زچگی کے طریقے
میڈیسن کے میدان میں ترقی کی بدولت بغیر درد زچگی کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے پہلا پٹھوں میں لگایا جانے والا انجیکشن ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ سکون آور گیسیں ہیں جن کا پمپ خواتین کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔ جیسے ہی انہیں درد محسوس ہوتا ہے‘ وہ اس پمپ کو دبادیتی ہیں اور ان گیسوں کو اندر کھینچ لیتی ہیں۔ تیسرا اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ ایپی ڈیورل کا استعمال ہے۔
شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے انستھیزیالوجسٹ ڈاکٹر نفیس الحسن سے جب سب سے بہتر اور محفوظ طریقہ علاج کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایپی ڈیورل پہلے دو طریقوں سے بہتر ہے کیونکہ اس کے منفی اثرات عارضی ہیں اوررحم مادر میں پلنے والے بچے پر اس کے بلاواسطہ یابالواسطہ مضر اثرات نہیں ہوتے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلڈ پریشر اورذیابیطس میں مبتلا مائیں بھی اس سے مستفید ہوسکتی ہیں۔صرف ان خواتین کو ایپی ڈیورل استعمال نہیں کروایا جاتا جو خون پتلا کرنے والی ادویات استعمال کررہی ہوں‘ان کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد کم ہو‘انکے خون میں کوئی انفیکشن ہو یاوہ صدمے میں ہوں۔

Vinkmag ad

Read Previous

آنکھ میں ککرے

Read Next

میٹھی عید‘ہر دل عزیز پکوان

Most Popular