رویوں میں بناﺅ اور بگاڑ

رویوں میں بناﺅ اور بگاڑ

    ”فلاں کا رویہ اچھا جبکہ فلاں کا بہت ہی برا ہے۔“، ”فلاں کا رویہ میرے ساتھ کچھ عجیب سا ہے۔“،”اس کے رویے سے بے رخی جھلکتی ہے۔“، ”بات پیسوں یا کھانے کی نہیں‘ رویے کی ہوتی ہے۔“ اس طرح کے جملے ہم روزمرہ زندگی میں بکثرت سنتے اور استعمال کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ” رویہ “ ہماری زندگی میں خاص اہمیت کی حامل چیز ہے۔ اگر یہ مثبت ہوتونہ صرف دوسروں پر اچھا اثر پڑتا ہے بلکہ فرد خود بھی سکون اور خوشی محسوس کرتا ہے اور اس کیفیت کے اثرات ذہنی ہی نہیں‘ جسمانی صحت پربھی پڑتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ رویہ فی نفسہ ہے کیا؟‘ یہ کیسے تشکیل پاتا ہے؟ کیا انسانی رویوں کی بنیادوں کو سمجھا جا سکتا ہے اور کیا منفی رویوں کوتبدیل کیا جا سکتا ہے؟ زیر نظر کالم میں انہی موضوعات پر گفتگو کی جائے گی۔

رویہ ہے کیا

بہت سے لوگ اپنی گفتگوﺅں میں رجحان  اور رویے یا برتاﺅ  کوہم معنی الفاظ کے طورپر استعمال کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ ”رجحان“ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کسی خاص ماحول میں کوئی فرد کیسا طرزعمل اختیار کرے گا۔ جب وہ رجحان عمل کا روپ دھارتا ہے توا سے رویے کا نام دیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر استاد یا سینئر کا ادب کرنا کسی فرد کا رجحان ہوسکتاہے اوراس کا عملی اظہار یہ ہے کہ جب وہ آئے تو اس کے احترام میں کھڑا ہو جائے۔ اکثر صورتوں میں کسی فرد کے رویے کو دیکھ کر اس کے داخلی رجحانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے کلی طور پر جاننا یا سمجھنا اتناآسان نہیں ہوتا‘ اس لئے کہ اس کے پیچھے تہہ در تہہ بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔

انسانی رویوں کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک مشاہدے کے ذریعے سیکھنے کا نظریہ ہے۔ مثال کے طور پر باپ کو دیکھ کر بیٹا‘ باپ جیسابن جاتا ہے اور اسی جیسے رویے اختیار کرتا ہے۔ مشہورماہرنفسیات بینڈورا (Bandora)کے مطابق فرد سب سے زیادہ اپنے معاشرے سے سیکھتا ہے۔ ایک اور نظریہ خود اپنے بارے میں گمان یاتاثر  ہے جس کے مطابق انسان کا اپنے بارے میں گمان بھی اس کا رویہ تشکیل دیتا ہے۔ مثال کے طور پراگراسے اپنے بارے میں یہ گمان ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے تو وہ آگے بڑھ کر زندگی کے چیلجز کو قبول کرے گا۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو وہ اپنی خدمات پیش کرنے کی بجائے دوسروں کے پیچھے چھپنے اور امتحان سے بچنے کی کوشش کرے گا۔

انسانی رویوں کی پہچان

:انسانی رویے احساسات‘ جذبات‘سوچ‘ اعتقادات‘ آراءاور افعال سے مل کر تشکیل پاتے ہیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے

رجحان اور برتاﺅ

ہم دیکھتے ہیں کہ اگر گھر میں مہمان آرہے ہوں تو اکثر والدین اپنے بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ ان کو سلام کرنا‘ ان کے سامنے بدتمیزی نہ کرنااوران سے اچھا رویہ اختیار کرنا۔گویا برتاﺅ ایک عمومی پیمانہ ہے جس سے ہم لوگوں کا اور لوگ ہمارا رویہ جانچتے ہیں۔

احساسات یا جذباتی ردِعمل

کسی خاص موقع پر خاص طرح کا جذباتی ردِعمل بھی انسانی رویوں کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے ملتی جلتی کیفیت میں وہ کیسا طرزعمل ظاہر کرے گا۔ مثلاً ایک شخص کو سانپ سے خوف آتا ہے۔ جب بھی سانپ اس کے قریب آئے گا تو وہ بھاگ جائے گا یاپھر سانپ کی مدد سے اسے خوفزدہ کیا جا سکے گا۔

سوچ، اعتقادات اور آراء

انسانی رویوں کاکسی شخص کے اعتقادات اور کسی خاص موضوع پر اس کی رائے سے بھی گہراتعلق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص جسمانی اور نفسیاتی طور پر کمزور ہے لیکن اس کا اعتقاد ہے کہ خدا اس کی مدد کرے گا تو عین ممکن ہے کہ وہ درپیش چیلنج کا سامنا اس بہادری سے کرے جس کی اس سے توقع نہیں کی جا رہی تھی۔

فکرو عمل میں تضاد

ہر شخص اپنے اعتقادات کے ساتھ زندہ رہتاہے مگربعض اوقات رویوں اور رائے یا اعتقاد میں تضاد بھی سامنے آنے لگتا ہے۔ مثلاً ایک شخص جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے لیکن وہ اس کے باوجودجھوٹ بولتاہے۔ اس ضمن میں ماہرنفسیات کارل فیسٹنگر  دو متضاد شناختوں کی وجہ سے سوچ میں آنے والی ناہمواری کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس کے مطابق خیالات میںجب ربط یا ہم آہنگی نہ رہے تو رجحان اور رویے میں بھی تضاد پیدا ہوجاتا ہے۔

یہاں اس بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ خیالات اور رویے میں تضاد بعض اوقات کسی خاص مصلحت کے تحت بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مسلم عقائد کا حامل ایک شخص اگرغیرمسلم گھرانے یا ماحول میں رہ رہا ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ ان کی رسومات میں شامل توہو مگر انہیں دل سے تسلیم نہ کرتا ہو۔ اسی طرح ایک شخص مزاجاً مہمان نواز ہو لیکن کسی خاص وجہ سے وہ مہمان کو خوش آمدید کہنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ لہٰذاکسی آدمی کا رویہ اس کی شخصیت کے ایک پہلو کی نشاندہی تو ضرور کر سکتا ہے مگراس سے اس کی پوری شخصیت پر کوئی خاص چھاپ نہیں لگائی جا سکتی۔فکرو عمل میں اس تضاد کی وضاحت تفاعلی رویہ بھی کرتا ہے جس کے مطابق انسان اپنے اعتقادات تبدیل نہیں کرتا بلکہ ماحول سے متاثر ہو کر مخصوص رویہ اختیار کرلیتاہے۔ بہت دفعہ ہم ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی غلط کام کرنے لگتے ہیںاور پھر یہ ایک عمومی رویہ بن جاتا ہے۔

فرانسیسی ماہرنفسیات لا پیرےز کے مطابق انسانوں میں اپنا حقیقی رویہ چھپانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اس میں ان کی سوچ کی قوت کا بڑا ہاتھ ہو تا ہے۔اگر وہ غالب آ جائے تو فرد اپنے رویے کو بڑی خوبصورتی سے چھپا لیتا ہے اوراس کے افعال سے اس کا اصل رویہ جانچنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مثبت اور منفی رویے

علم نفسیات کی رو سے جس فرد کے افعال و اقوال میں تضاد نہیں‘ اس کارویہ مثبت اور اگر تضادموجود ہے تو اس کا رویہ منفی ہے۔مثبت رویوں سے ہی مثبت معاشرے کی تشکیل ممکن ہے کیونکہ رویے اپنے اردگرد لوگوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ قول و فعل کے تضاد کو مذہبی تعلیمات میں بھی برا قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی آیت ”اے ایمان والو، وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں“ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

انسانی رویے کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا‘ اس لئے کہ اس کی تعمیر میں برسوں تک متعدد عوامل کارفرما رہے ہوتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ انسانی شخصیت کا فیصلہ زندگی کے پہلے پانچ سالوں میں ہوجاتا ہے اور پھر وہ بالعموم اسی رخ پر نشوونما پاتی ہے۔ بڑھوتری کی عمر میںوہ جو کچھ گھر،سکول،محلے،ماحول اورٹی وی وغیرہ سے سیکھتا ہے‘ اس کی روشنی میں اس کے خیالات تشکیل پاتے ہیں۔ جوانی تک پہنچتے پہنچتے ان میں پختگی آ جاتی ہے اور اس کے رویوں میں ان تمام چیزوں کا اثر شامل ہو جاتا ہے جو اس نے ان سالوں میں سیکھی ہوتی ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ طاقت کے زور پر یا ڈانٹ ڈپٹ کرکسی کا رویہ تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن پائیدار بنیادوں پر ایسا ممکن نہیں ہوتا۔غلط رویوں کو ختم اور اچھے رویوں کی تشکیل کے لئے فرد کی سوچ بدلنے‘ اچھی سوچ پر اس کا یقین قائم کرنے اور اس میں اس سوچ پر استقامت سے چلنے کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

Behaviour, Behavior, Positive and negative behavior, How do behaviors shape up?

Vinkmag ad

Read Previous

کیمیکلز سے بچنے کے لئے مہندی کاپودا گھر میں اگائیے

Read Next

اب کے برس کچھ ایسا کرنا

Most Popular