Vinkmag ad

کراچی کا چھرا مار ماہر نفسیات کی نظر میں

    25ستمبر 2017ءسے لے کرتادم تحریر ایک چھری مار کراچی میں خوف و ہراس کی علامت بنا ہواہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ اب تک 13سے زائد نوجوان خواتین کو دن دہاڑے کسی تیزدھار آلے سے زخمی کرچکا ہے۔وہ موٹرسائیکل پر سوار تیزی سے آتا اور خواتین کے قریب سے گزرتے ہوئے سے زخمی کر کے فرار ہو جاتا ہے۔ منڈی بہاﺅالدین سے ایک نوجوان کو اس شبہے میں گرفتار کیا گیا ہے لیکن تاحال اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ اصل مجرم وہی ہے۔
میڈیا میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ ایسے واقعات چیچہ وطنی میں بھی لگاتار تین سال تک پیش آتے رہے مگر پولیس مجرم پکڑنے میں ناکام رہی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاید وہی مجرم اب کراچی آگیا ہے۔اگر یہ خیال درست ہے تو قانون سے متعلق نفسیات کی شاخ یعنی فرانزک سائیکاٹری (forensic psychiatry) کی رو سے یہ جرائم کا ایک سلسلہ (serial)ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ ایسے واقعات ایک سے زیادہ ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تعلق موجود ہے۔ پولیس اس کی وجہ جاننے میں ابھی تک ناکام رہی ہے‘ لہٰذا اس کیس کو بہتر طور پر سمجھنے اور حل کرنے کے لیے فرانزک سائیکا ٹری کی مدد درکار ہے۔
میرے مطابق ان وارداتوں کے تناظر میںبہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاًاس کے پیچھے نفسیاتی اسباب کیاہیں،کیا یہ ایک آدمی ہے یاکوئی گروہ اس میں ملوث ہے، آخر جوان لڑکیاں ہی کیوں اس کا نشانہ ہیں اور کوئی انسان کیوں کسی کو زخمی کرناچاہے گا۔
میڈیااسے خللِ دماغی کے شکار فرد یعنی سائیکوپیتھ (psychopath) کے طور پر پیش کر رہا ہے مگرحقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ایسے افراد کو تکنیکی زبان میں سٹاکر(stalker) یعنی کسی چیز یا بات کی آڑ میں شکار کرنے والا کہا جاتا ہے۔ بالعموم سوشل میڈیا پر جوبھی شخص غیرضروری طور پر ہمارا پروفائل دیکھے‘ اسے ہم سٹاکر کہہ دیتے ہیں مگر نفسیات کی رو سے یہ اصطلاح اس شخص کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو برے ارادے سے کسی کا مسلسل پیچھا کرے، اسے دھمکیا ں دے‘ ڈرائے دھمکائے اور اس کی ذاتی زندگی کو منفی طور پر متاثر کرنے کی کوشش کرے۔سٹاکنگ میں سب سے بڑامسئلہ یہ ہوتاہے کہ مجرم کے پاس اپنے شکار کے بارے میں تمام تر معلومات ہوتی ہیں کہ وہ کہاں جاتا ہے،کہاں آتا ہے،کس جگہ رہتا ہے وغیرہ۔آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے فرانزک سائیکاٹرسٹ پال ملل (Paul Mullel) نے اس پر بہت کام کیا ہے۔
ہمارے معاشرے میںایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں بعض لوگ خواتین کو نشانہ بناتے ہیں۔وہ ان کے نام، پتے اور فون نمبر حاصل کر کے کالز اور میسجز کے ذریعے انہیں تنگ کرتے ہیں اور اس کے ذریعے تسکین حاصل کرتے ہیں۔جب موبائل فون عام نہیں تھے تو ایسے افراد خطوط اورفون کالزکے ذریعے اور گھروں کے باہر آ کر لوگوں کو پریشان کیا کرتے تھے۔سٹاکنگ کا نشانہ خواتین ہی نہیں‘مرد بھی بن سکتے ہیں مگر اس کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی ہے۔
سٹاکرز کو اپنی بدنامی کا خوف نہیں ہوتااور وہ پوری ڈھٹائی سے رابطہ کر کے اپنے شکار خواتین و حضرات کو بتاتے ہیں کہ وہ ان کے پیچھے ہے۔ بلیک میلنگ ان کا پسندیدہ ہتھیار اور ڈرانا دھمکانا ان کی فطرت ہوتا ہے۔ سٹاکرزبعض اوقات اس وہم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ متعلقہ فرد ان کی محبت میں گرفتار ہے حالانکہ ایسا ہرگزنہیں ہوتا۔اس قسم کی سٹاکنگ عام انسانوںکے علاوہ نامورشخصیات خصوصاًفلمی ستاروں کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔
زیرِبحث واقعات میں ملوث شخص سٹاکرز کی اس قسم سے تعلق رکھتا معلوم ہوتا ہے جو اجنبی اور غیرمتعلقہ افراد کو نشانہ بناکر ذہنی و جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں کم از کم ہمارے ہاں اکثر صورتوں میں عدالت سے رجوع بھی زیادہ مفید نہیں ہوتا کیونکہ اس کے بعد بھی سٹاکر کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔تاہم اگر اس میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہو جائے تو پھر کورٹ کا رخ کرنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ مجرم کو اس کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ایسے افراد کو عدالتوں میں لے جانا معمول کی بات ہے مگر پاکستان میں یہ آسان نہیں‘ اس لئے کہ اس بارے میں قانون سازی انتہائی ناکافی ہے۔نیز اس ضمن میں قوانین بھی تب تک مفیدثابت نہیںہوسکتے جب تک ان میں فرانزک سائیکاٹری کے ماہرین کی مدد حاصل نہ کی جائے۔
مذکورہ بالا واقعات میں مجرم کی نفسیات کو جاننا بہت اہم ہے۔ اگر واقعات کاجائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان میںصرف خواتین کو ہی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید اس کی وجہ محبت میں ناکامی ہے اور وہ اس کا انتقام دیگرخواتین سے لے رہا ہے۔
ایسے افراد کی پروفائلنگ یعنی حلیہ،طریقہ واردات،جگہ وغیرہ کو جانچ کران کے رویے کو جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ اس لئے کہ مجرم ہمیشہ اپنے پیچھے جرم کے نشانات چھوڑجاتاہے ۔
میڈیا پر دکھائی جانے والی ویڈیو ز اور رپورٹوںکے مطابق ایک خاص علاقے میں، خاص کلاس اورعمرکی خواتین کو نشانہ بنانا،بلیڈ ، موٹر سائیکل اورہیلمٹ کا استعمال مجرم کی پروفائلنگ میں اہم ہیں۔ خصوصاًبلیڈ کا استعمال بہت اہم ہے‘ اس لئے کہ تیز دھار آلہ یعنی بلیڈ یا کوئی ایسی چیزعام استعمال نہیں ہوتے نہ ہی عام افراد انہیں خریدتے ہیں۔البتہ یہ کسی کیمسٹ،ہسپتال یاکلینک وغیرہ میںکام کرنے والے کومیسر ہوسکتا ہے۔
ابتدائی پروفائلنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ مجرم سنسنی پسند ہے۔ اسے خواتین کو مارناسنسنی خیز لگتا ہے ۔یہ احساس اس کے لئے اس کے لیے باعثِ سنسنی ہے کہ کوئی اسے پکڑ نہیں سکتا،پولیس اور میڈیا اس کے پیچھے لگے ہےں، اس کے اس جرم کو وجہ کوئی سمجھ نہیں پا رہا۔ یہ کہنا تو انتہائی مشکل ہے کہ مجرم صرف بوریت کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے کیونکہ محض بوریت دور کرنے کے لیے کوئی اپنی جان جوکھوں میں نہیں ڈالتا۔مگر یہ طے ہے کہ اس کا جرم اس میں فاتحانہ جذبات پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ بار بار اس کام پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
ہر تشددپسند آدمی میںیہ احساس موجود ہوتا ہے کہ وہ نشانہ بننے والے انسان پر قابو پارہا ہے یا اسے اپنا تابع فرمان کر رہا ہے ۔وہ نشانہ بننے والے شخص سے اپنی طاقت منوانا چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سے کمزور شخص کو نشانہ بناتا ہے۔ اس کیس میں مجرم میںذمہ داری کا فقدان،بے ضمیری اوربے حسی بھی دیکھی گئی ہے۔عین ممکن ہے کہ میرے یہ اندازے غلط ہوں مگر ابھی تک جوکچھ دیکھا گیا ہے‘ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مجرم کوزندگی کے کسی نہ کسی موڑ پرڈپریشن،نشے کی لت اورمحبت میں ناکامی وغیرہ کا سامنا رہا ہے۔تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ وہ حقیقتاً ایسا کیوں کر رہاہے اور کیا قانون کبھی اسے اپنی گرفت کر لے سکے گا یانہیں۔
آخر میں سوال یہ کہ ایسے واقعات کیوں جنم لیتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سی سماجی، معاشی، معاشرتی اورتعلیمی کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں نوجوانوں کے پاس اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کو استعمال میں لانے کے لیے مثبت سرگرمیوں کا فقدان ہے لہٰذا وہ با آسانی بے راہ روی کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں غلط کام کرنا آسان جبکہ اچھے کام کرنامشکل ہوتا جا رہا ہے۔ راتوں رات امیر بننے اور سنسنی پیدا کرنے کے لیے لوگ جرم کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ نیز میڈیا ایسی چیزوں کو اتنا اچھالتا ہے کہ مجرم اس پر فخر محسوس کرنے لگتے ہیں اور ناپختہ یا مجرمانہ ذہن کے افراد ان سے غلط سبق اخذ کرکے کھلے عام ایسی حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔

٭ ڈاکٹر فواد قیصرفرانزک سائیکاٹری میںباقاعدہ تعلیم اور تربیت یافتہ ہیں۔وہ کئی یورپی ممالک میں اس شعبے میں کام کاعملی تجربہ رکھتے ہیں اور کئی مجرموں کو پکڑنے میں مدد بھی دے چکے ہیں۔ انہوں نے مذکورہ بالا واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تکنیکی معاونت کی پیش کش بھی کی ہے ۔

Vinkmag ad

Read Previous

لمفی نظام… انفیکشن سے جنگ

Read Next

اے ڈی ایچ ڈی عدم توجہ کا عارضہ

Most Popular