Vinkmag ad

لمفی نظام… انفیکشن سے جنگ

    لمفی غدود کا یہ کردار کچھ کم اہم نہیں کہ وہ اپنے علاقے کے لمف کو اُس وقت تک آگے نہیں بڑھنے دیتے جب تک اُس کی پوری طرح سے چھان پھٹک نہ کرلیں۔ چھان بین کے اس عمل میں وہ نقصان دہ خلیوں کے ساتھ ساتھ جراثیم کو بھی اتنی خاموشی سے ختم کر ڈالتے ہیں کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کب اور کس طرح جسم میں داخل ہوئے اور کب اپنے انجام کو پہنچے۔تاہم بعض اوقات جراثیم اتنے زیادہ یا طاقتور ہوجاتے ہیں کہ لمف نوڈز پر غلبہ حاصل کرلیتے ہیں۔
ایسے میں لمف نوڈزسوج کر بڑے ہوجاتے ہیں اوران پر ہاتھ لگانے سے درد محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں مریض کو بخار ہوسکتا ہے اور گلٹی کے اوپرکی جلد سوزش (inflammation) کی وجہ سے لال اور گرم ہوجاتی ہے۔ اگرلمف نوڈزجراثیم کے خلاف جنگ میں مکمل طور پر ہار جائیں تو پھر وہ پھوڑے (abscess) کی شکل اختیار کر لیتے ہیں یعنی اُن میں پیپ پڑ جاتی ہے۔ ان پھوڑوں کو چیرنا پڑتا ہے اور اگرایسا نہ کیا جائے توبھی پک جانے پر ان سے خود ہی پیپ خارج ہوجاتی ہے۔
طاعون کا مرض
اس حوالے سے طاعون کی مثال دینا چاہوں گا۔ اس کے شکار چوہوں کے پسوجب انسانوں کو کاٹتے ہیں تواس مرض کے جراثیم متاثرہ فرد کے لمف نوڈزمیں داخل ہوجاتے ہیں جس پر وہ بُری طرح سے سوج جاتے ہیں۔ اس کے بعد جراثیم آہستہ آہستہ پورے جسم میں پھیل کربالآخر مریض کی جان لے لیتے ہیں۔ لمف نوڈز میں پھیلنے والے طاعون کو گلٹی دار طاعون (Bubonic plague) کہاجاتا ہے۔ طاعون کی ایک اور قسم نمونیائی طاعون (Pneumonic plague) ہے جس میں جراثیم براہ راست پھیپھڑوںمیں داخل ہو کر نمونیاکا باعث بنتے ہیں۔
1346ءسے 1353ءکے دوران طاعون کی ایک بہت بڑی وباءپھیلی جس میں بلامبالغہ لاکھوں نہیں‘ کروڑوں کی تعداد میں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تقریباًسات سال پر محیط اس وباءمیں براعظم یورپ کی دوتہائی آبادی ختم ہو گئی۔ اس مرض کے ہاتھوں مرنے والوں کے قریب کوئی نہیں جانا چاہتا تھا لہٰذا لوگوں کی نعشیں شہروں کے گلی کوچوں میں گلتی سڑتی رہتی تھیں۔ جمہوریہ چیک میں ایک ایسا چرچ بھی موجود ہے جس کی عمارت کا بیشتر حصہ 40,000سے زائد افراد کی ہڈیوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بیشتر اسی وباءکے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔
لمف نوڈز میں ٹی بی
ٹی بی بھی لمف نوڈز پراثرانداز ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کی گردن کے سامنے کے حصے میں موجود لمف نوڈز میں ٹی بی کا انفیکشن ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں پہلے تویہ لمف نوڈز بڑے ہو کر گلٹیاں بناتے ہیں اور پھر ان میں پیپ پڑ جاتی ہے جس کی اوپر والی جلد لمف نوڈز کے ساتھ چپک جاتی ہے۔ عام پھوڑوں کے برعکس ان میںگرمی محسوس نہیں ہوتی لہٰذا انہیں ٹھنڈے پھوڑے(cold abscesses) کہاجاتا ہے۔ اب ایسے اینٹی بائیوٹکس باآسانی دستیاب ہیں جن کی مدد سے ٹی بی کی گلٹیوں کا موثر علاج ممکن ہوگیا ہے۔
لمفی نظام کے ضمن میں مجھے ایک ”بیلی ڈانسر“کاواقعہ یاد آرہاہے۔ ایک زمانے میں بیرون ملک ویزے کے لئے چیچک کا ٹیکہ لگوانا ضروری ہوتا تھا جسے اکثر اوقات بازوکے اوپر والے حصے میں لگایاجاتا تھا۔ انجیکشن کے بعد زخم کا نشان باقی رہ جاتا تھا جو دیکھنے میں برا لگتا۔ پیشے کے تقاضوں کے پیش نظرمذکورہ خاتون نے وہ ٹیکہ بازو کی بجائے اپنی ناف میں لگوایا تاکہ زخم کا نشان ناف کی گہرائی میں چھپ جائے۔ ناف جسم کا وہ حصہ ہے جہاں سے لمف دونوں جانگوں اور بغلوں میں جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس کی ناف جراثیم سے بُری طرح متاثر ہوئی اور انفیکشن اس کی دونوں جانگوں اور بغلوں کے لمف نوڈز میں پہنچ گیا۔ اس کی وجہ سے پھوڑے بنے جنہیں چیرنے کے بعد ان سب جگہوں پر زخم کے نشانات بن گئے ۔ یوں اُسے اپنا پیشہ چھوڑنا پڑا۔
لمف نوڈز‘مسائل کی تشخیص
چونکہ ہمارے ہاں امراض قلب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے‘ اس لئے ہمیں دل اور اس کی رگوں کے بارے میں اہم معلومات لازماً حاصل کرنی چاہئیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو سینے میں اور خصوصاً بائیں جانب درد ہوتو اس کی جانچ کے لئے انجیو گرافی (angiography) کی جاتی ہے۔ قارئین میں سے بیشتر خواتین و حضرات نے اس عمل کے متعلق سنا ہوگا جس میں ایک خاص رنگ خون کی رگوں میں داخل کر کے جلدی جلدی ایکسرے فلمیں لے لی جاتی ہیں۔ اس سے یہ فیصلہ کرناآسان ہوجاتا ہے کہ مریض کی رگوں میں سٹنٹ(stent) ڈالا جائے ‘انہیں کھولنے کے لئے انجیوپلاسٹی (angioplasty)کی جائے یانئی رگوں کے پیوند(venous graft) کے ذریعے بائی پاس کرکے خون کی گردش کے لئے متبادل راستہ بنایا جائے۔
خون کی رگوں کو اُن کے اندرکی دھڑکنوں (pulsations) کی وجہ سے باآسانی پہچانا جاسکتا ہے لہٰذا ان میں ڈائی ڈالناقدرے آسان ہوتا ہے۔اس کے برعکس لمفی نالیاں باآسانی نظر نہیں آتیں لہٰذا اُنہیں نمایاں کرنے کے لئے ان میں نیلا رنگ شامل کرنا ہوتا ہے ۔مثلاً اگر کسی شخص کی ٹانگ میں سوجن یاکینسر ہو اور ہمیں اس کے سبب کے علاوہ یہ بھی معلوم کرنا ہو کہ کینسرلمف نوڈزتک تو نہیں پھیل گیاتواس کے لئے لمفوگرام (lymphogram)اور لمف انجیوگرام (lymphangiogram) کیا جاتا ہے ۔
ٹانگ کی مثال میں خاص طرح کا نیلا رنگ پاﺅں کے انگوٹھے یا انگلیوںکے درمیان داخل کیاجاتا ہے جو کچھ دیر بعد لمفی نالیوں میں داخل ہو کر اُن نسوںکو گہرا نیلا کردیتا ہے جس سے ان کی شناخت آسان ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد متعلقہ فرد کے پاﺅں کے اوپر اس جگہ کو سُن کر کے ایک کٹ لگایاجاتاہے اورموزوں لمفی نالی میں ایک نلکی ڈال کر ڈائی انجیکٹ کی جاتی ہے۔ پھر وقفے وقفے سے ایکسریز لئے جاتے ہیںیہاں تک کہ ڈائی لمف نوڈز میں پہنچ جائے۔ اس کے بعد یہ دیکھا جاتا ہے کہ کینسر آگے پھیلا ہے یا نہیں یا وہ کس حد تک پھیلا ہے۔ اگر سوجن کسی رکاوٹ کی وجہ سے ہو تو اس کی نوعیت معلوم کی جاتی ہے۔ سرجری کے متعلق فیصلہ اسی کی بنیاد پر کیاجاتا ہے۔
آج کل چھاتی کے سرطان کا آپریشن کرنے سے پہلے یہ طریقہ استعمال کیاجاتا ہے۔ چند سال پہلے صورت حال یہ تھی کہ سرجن حضرات آپریشن کے دوران بغل میں موجود تمام لمف نوڈزکو انتہائی باریک بینی سے تلاش کر کے ہٹا دیا کرتے تھے تاکہ اگر ان میں سے کسی میں کینسر ہو تو وہ ہٹ جائے۔ایسے میں ایک تو آپریشن بہت طویل ہو جاتا اور دوسرا‘ اکثر اوقات مریضہ کا چہرہ سوج جایاکرتاتھا۔اس سے تکلیف زیادہ ہوتی اور سُوجے ہوئے غدود میں سیلولائٹس (cellulitis) نامی انفیکشن کاامکان بھی بڑھ جاتا تھا۔
اب لمف انجیوگرافی سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ چھاتی میں جہاں سرطان زدہ رسولی واقع ہے‘ اس کے ساتھ کون سا لمف نوڈ وابستہ ہے۔اسے پہریدار یا سینٹی نل نوڈ(sentinel node)کہتے ہیں اور ”سینٹی نل نوڈ بائیوپسی“ کے ذریعے صرف اسی کوہٹایا جاتا ہے۔ اس سے پیچیدگیاں پیدا ہونے کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اب نیلے رنگ کی بجائے ایک اور طریقہ (radioactive mode) استعمال ہوتا ہے جس میں سینٹی نل نوڈ کو گائیگرکاﺅنٹر(Geiger counter) نامی آلے کی مدد سے ہٹا دیا جاتا ہے۔اس عمل کو سائنٹی گرافی کہاجاتاہے۔
الغرض لمفی نظام ایک بہت ہی اہم نظام ہے جو نظام خون کے شانہ بشانہ کام کرتاہے۔نظام خون سے جو کام ادھورے رہ جاتے ہیں ( مثلاًاعضاءسے پانی ہٹانا اور جراثیم کے خلاف مدافعت)‘ انہیں یہ نظام خاموشی کے ساتھ پایہ¿ تکمیل تک پہنچاتا ہے ۔ا س طرح یہ خون کا مددگارنظام ہے جس کے بارے میں عام لوگ کم ہی جانتے ہیں اور یہ تب ہی ان کی توجہ کا مرکز بنتا ہے جب دیگر امراض لمف نوڈز کو بڑا کرکے گلٹیوں میں نہ تبدیل کردیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

خوف کا حملہ

Read Next

کراچی کا چھرا مار ماہر نفسیات کی نظر میں

Most Popular