طویل العمری اور اچھی صحت کا راز

برطانیہ کی طویل العمر ترین خاتون نے اپنی لمبی عمر اورصحت کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کومصروف رکھا‘ ہمیشہ دوسروں کی مدد کی اور زندگی میں وہی کچھ کیا جو انہیں پسند تھا۔ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ ان اصولوں پر عمل کرنے کے باوجود لمبی عمر اور اچھی صحت حاصل نہیں کر پاتے ۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ان کی مصروفیا ت کسی بڑے مقصد سے خالی اور اکثر صورتوں میں مجبوری کی بنا پر اختیار کردہ ہوتی ہیں۔ خالد رحمٰن کی ایک خوبصورت تحریر


اپنے بچوں کے علاوہ چار پوتے پوتیوں اورچھے (6)پڑپوتے پوتیوں سمیت اس خاتون کا سارا خاندان جمع تھا۔چار نسلوں پر مشتمل اس خاندان کے یکجا ہونے کا سبب ایک خصوصی تقریب تھی جو انہیں (خاتون کو) برطانیہ کا سب سے بزرگ شہری کا اعزاز ملنے پرمنعقد ہورہی تھی۔ ان کی عمر 112برس تھی اور تین روزقبل (15جنوری2015ئ) انہیں یہ اعزاز اس وقت حاصل ہوا جب ان سے عمر میں دوسال بڑے فرد کوموت نے آ لیا۔
اس عمرمیں لوگ عموماًپوری طرح ہوش وحواس میں نہیں رہتے اور اگر ایسا نہ ہو تو بھی اکثرلوگوں کی یادداشت اورذہنی صلاحیتیں بڑی حد تک متاثر ہوچکی ہوتی ہےں۔ تاہم ان خاتون کامعاملہ بالکل مختلف تھا۔ بزرگ ترین قرار پانے کی خبر پرتبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مجھے اس پر حیرت ہوئی ہے۔میراخیال نہیں تھا کہ میں ملک بھرمیں بزرگ ترین ہوں۔ میں تو بس، اپنے علاقے کی حدتک ہی خود کو سب سے بڑا سمجھتی تھی۔‘
1903ءمیں پیدا ہونے والی اس خاتون کی چار بہنیں اور ایک بھائی تھا اور وہ چھے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ اس وقت ان کے سب بہن بھائی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ 38 سال قبل (1977ءمیں )جب ان کے میاں فوت ہوئے تو وہ اپنے بیٹے کے گھر کے قریب منتقل ہوگئیں جس کی اپنی عمر بھی اس وقت 84برس ہے۔
اپنی طویل العمری اورصحت کا راز بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں نے ہمیشہ اپنے آپ کومصروف رکھا۔ میری ترجیح یہی رہی کہ فارغ رہنے کی بجائے کچھ نہ کچھ کرتی رہوں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ عمرکے اس حصے میں بھی خود کو ذہنی طور پر اسی طرح محسوس کرتی ہوں جیسی 70 سال کی عمرمیں تھی۔ زیادہ عمر نے میرے لیے مسائل پیدانہیں کیے۔ اگر کوئی پریشانی ہے تو فقط یہی ہے کہ میں اب پہلے کی طرح اپنے آپ کومصروف نہیں رکھ سکتی۔‘
ان کے بقول’ مصروفیت آپ کو جوان رکھتی ہے۔اس کے لئے میں نے وہی کچھ کیا جو مجھے پسند تھا،تاہم میں نے ہمیشہ اپنی حدود کوذہن میں رکھا۔“ اپنی گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے ایک بہت اہم نکتہ انہوں نے یہ بیان کیا کہ’میں نے ہمیشہ دوسرں کی مدد کی، جس قدربھی کر سکتی تھی۔‘
طویل عمراور اچھی صحت کے تناظر میں خاتون نے جو راز بتائے‘ وہ یقیناً اہم ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ ان پر عمل کرتے ہیں تاہم ان میں سے کم ہی اس قدر طویل عمرپاتے اور ذہنی طور پر اتنے صحت مند رہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کی مصروفیات کا کسی بڑے مقصد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
زندگی گزارنے کے لیے اختیار کئے جانے والے طرزعمل اور روئےے کا انحصار انسان کے اپنے فیصلے پر ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہر لمحے انسان کچھ نہ کچھ کررہاہوتا ہے لیکن لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کے لیے یہ ’کچھ نہ کچھ‘ ایک معمول کی سرگرمی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ بہت سوں کے لیے تو یہ مصروفیت مجبوری پر مبنی ہوتی ہے جس کا مقصد محض روزمرہ کی جبلی ضروریات کی تکمیل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں مشغولیت نہ تو کسی ذہنی اطمینان ، سکون اور مسرت کاباعث بنتی ہے اور نہ اس کی مددسے وہ زندگی میں کوئی بڑا مقصد حاصل کرنے میںکامیاب ہوتاہے۔
زندگی کی بے اطمینانی‘ بے کیفی اور محرومیوں کو دورکرنے کے لیے بعض لوگ بری عادات کا شکار ہوجاتے ہیں جو ان کے لئے زیادہ مسائل پیدا کر کے مزید بے چینی پیدا کرتی ہیں۔یوں وہ ایک تباہ کن شیطانی چکر (vicious cycle) میں پھنس جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو آج معاشرے کاایک قابل ذکر حصہ اسی چکر میں مبتلاہے۔ نفسیاتی علاج اور میدانِ طب میں ہونے والی ہوشربا ترقی کے باوجود آج کی بظاہر ہنستی کھیلتی دنیا میں اُداسی، احساس محرومی، تناﺅ اوردیگر اعصابی امراض کی بڑھتی ہوئی شرح اس کی واضح علامات ہیں۔
انسان زندگی کے لیے کوئی بڑا مقصد متعین کرلے اور اپنی مصروفیات کو اس کی روشنی میں ترتیب دے لے تو اس کی محض جسمانی ہی نہیں، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی ضروریات کی تکمیل کا راستہ بھی کھل جاتا ہے۔ ایسے میں کامیابیاں تو اس کے لیے مسرت کاسامان ہوتی ہی ہیں، کسی وقتی ناکامی کے باوجود مقصد سے وابستگی اسے زندگی میں متحرک رکھتی ہے۔ یہ تحرک آنے والے دنوں میں اس کے لئے مزید کامیابیوں کی راہ ہموار کرتاہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

Can stress cause headache

Read Next

ماں کا دودھ بچے کا پیدائشی حق

Leave a Reply

Most Popular