فالج، زندگی مفلوج نہ کر دے جانئے اور احتیاط کیجیے

پرسکون گزرتی زندگی بعض اوقات اچانک ایسا خطرناک موڑ مڑتی ہے کہ ایک فرد کی ہی نہیں‘ پورے خاندان کی زندگی بدل کر رہ جاتی ہے۔فالج ایک ایسی بیماری ہے کہ جو ہو جائے تو ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو جاتاہے ۔اس سے وقتی یا طویل مدتی معذوری لاحق ہو سکتی ہے ۔اس کا سبب بننے والے کچھ عوامل مثلاً عمر‘ جنس اور موروثیت ہمارے بس میں نہیں لیکن کچھ ایسے ہیں جو ہمارے بس میں ہیں۔ انہیں قابو میں رکھئے تاکہ آپ اور آپ کے پیارے سکون سے رہ سکیں ۔شفا انٹرنیشنل ہسپتال میںفالج کے موضوع پر ایک سمینار میں مختلف ڈاکٹروں کی گفتگووں کی روشنی میں ایک معلوماتی تحریر


فالج دنیا بھر میں اموات کی تیسری بڑی اور طویل مدتی معذوری کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔فالج ایک ایسا مرض ہے جو دماغ میں خون کی شریانوں کے بند ہونے یا ان کے پھٹنے سے ہوتا ہے ۔جب فالج ہوتا ہے تو دماغ کے متاثرہ حصوں میں موجود خلیے آکسیجن اور خون کی فراہمی بند ہونے کی وجہ سے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جسم کی کمزوری اوربولنے اور دیکھنے میں دشواری سمیت اور بہت سی اور علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس سے جسم کا پورا‘ آدھا یا کچھ حصہ کام نہیں کرتا۔ اچھی بات یہ ہے کہ ایسے طریقے یا علاج موجود ہےں جو دماغ کو پہنچنے والے نقصان کو محدود یا کم کر سکتا ہے۔

بیماری کی اقسام
فالج کی دو اہم اقسام ہیں ۔ان میں سے پہلی اسکیمک سٹروک (ischemic stroke) ہے جس کی وجہ خون کی نالی میں کوئی رکاوٹ ہونا ہے۔ یہ رکاوٹ نالی میں خون جمنے یا جمے ہوئے خون کا چھوٹا لوتھڑا آجانے سے ہو سکتی ہے۔ نالی بند ہونے سے آکسیجن اور خون دماغ تک نہیں پہنچ پاتے جس سے اس کا وہ حصہ ناکارہ ہو جاتا ہے۔ تقریباً70فی صد لوگوںمیں فالج کی بڑی وجہ یہی ہے۔
فالج کی دوسری قسم جریان خون کا فالج (hemorrhagic stroke)ہے۔ اس میں بلڈپریشر زیادہ ہونے کی وجہ سے دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے اورخون دماغ میں جمع ہو جاتا ہے۔
ایک فالج کم دورانیے کابھی ہوتاہے جسے ٹی آئی اے (transient ischemic attack) یا فالج کا چھوٹا حملہ کہتے ہیں۔ یہ فالج سے پہلے ایک طرح کی وارننگ یا اطلاع ہوتی ہے۔ اس کا دورانیہ 15منٹ یا ایک سے دو گھنٹے ہو سکتا ہے جس کے بعد یہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ تاہم اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور اس کا علاج کروانا چاہئے کیونکہ اس کے بعد فالج ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس میںاچانک جسم کا ایک حصہ کمزور یا سُن ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں دودو نظر آنے لگتے ہیں یا بولنے میں دشواری ہوتی ہے۔

وجوہات کی نشاندہی
اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے کچھ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتیں۔ جنس، جینیاتی عوامل اورعمر کا بڑھنا وہ عوامل ہیں جو ہمارے بس میں نہیں۔ عمر جتنی بڑھتی جاتی ہے‘ فالج کاخطرہ بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ اگرخاندان میں کسی کو یہ بیماری ہے تو یہ بچوں میں بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ وجوہات یا عوامل ایسے ہیں جنہیں کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ان میں بلڈپریشر، ذیابیطس، کولیسٹرول، سگریٹ نوشی، موٹاپااور دل کی بے ترتیب دھڑکن شامل ہیں۔
اگر دل خون کو ٹھیک طرح سے پمپ نہیں کر رہا تو وہ نالیوں میں جمنے لگے گااوریہ جمے ہوئے ٹکڑے ٹوٹ کر خون کی نالی کے ذریعے دماغ تک جائیں گے اور خون کی سپلائی کو بلاک کریں گے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں 60سال کی عمر میں فالج کے امکانات ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میںیہ40سے 50سال کی عمر میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہمارے ہاں بلڈ پریشر، ذیابیطس اورکئی دوسری بیماریوں کے ساتھ ساتھ غیر معیاری کھانوں کا بے دریغ استعمال ہے۔
خواتین کو بحیثیت جنس کچھ ہارمونز کی تبدیلی کی وجہ سے فالج ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک خاتون جبکہ ہر چھ میں سے ایک مرد اس کا شکار ہوتاہے۔ خواتین میں یہ تقریباً75سال کی عمر کے بعد ہوتا ہے۔

علامات اور تشخیص
فالج کا حملہ اچانک ہوتا ہے۔ مثلاًاچانک نظر چلی جاتی ہے‘ بہت زیادہ چکر آتے ہیں یادو دو نظر آنے لگتے ہیں۔ سر میں شدید درد ہونے یامسلسل قے ہونے کے بعد جسم کی ایک سائیڈ کمزور ہو جاتی ہے۔ اس کی علامات ظاہر ہونے پرمرض کو جانچنے کے لیے ایف اے ایس ٹی (Face, Arm, Speech and Time)کا اصول اپنانا چاہئے۔ یعنی اگر چہرہ (face) ایک طرف سے ٹیڑھا ہو جائے‘ اگر بازوﺅں (Arm) کو کندھوں کے برابر لائیں تو ایک بازو نیچے لٹک جائے‘بولنے (speech) میں مسئلہ ہو یا الفاظ سمجھ نہ آئیں توان علامات کو دیکھتے ہوئے وقت (Time)ضائع کیے بغیر ہسپتال جانے کی ضرورت ہے۔
جب مریض اس مسئلے کے ساتھ ہسپتال آتے ہیں تو سب سے پہلے ان کا بلڈ پریشر اور شوگر چیک کی جاتی ہے اورسی ٹی سکین کروایا جاتاہے۔ دماغ کا ایم آر آئی کیا جاتا ہے جس سے فالج کی تشخیص کرناآسان ہوتا ہے۔ تاہم ایک مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس مشین میں جانے سے گھبراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دل کی ’ای سی جی‘ کروائی جاتی ہے اور گردن کی شریانوں کا الٹراساﺅنڈ کروایا جاتا ہے۔ ان تمام ٹیسٹوں کو دیکھتے ہوئے علاج شروع کیا جاتا ہے۔
علاج کے ساتھ ورزش کرنا بہت ضروری ہے۔ فالج کی وجہ سے کمزوری وقت اورجسمانی ورزشوں کے ساتھ بہتر ہوتی ہے۔ ورزش سے آپ مزید پیچیدگیوں سے بچ جاتے ہیں۔ اگربازو کمزور ہو اور اس کی ورزش نہیں کی جا رہی تو وہ حصہ اکڑ جاتا ہے۔عموماً لوگوں کے ہاتھوں کی مٹھیاں بند ہو جاتی ہیں اور وہ صرف ورزش کرنے سے ہی کھلتی ہیں۔
بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو قابو میں رکھیں اور انہیںروزانہ چیک کریں، سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں، وزن کنٹرول میںرکھیں، چہل قدمی اور ورزش کریں۔ مزید براں باقاعدگی سے اپنے ڈاکٹر کو چیک کروائیں اور ان کے مشورے پر عمل کریں۔

سرجری کی ضرورت
بعض اوقات خون کے کچھ جمے ہوئے لوتھڑے دل سے نکل کر گردن کی رگوںکے ذریعے دماغ تک جاتے ہیں۔ اگر یہ گردن کی رگوں میں پھنس جائےں تو انہیں نکالنے کے دو طریقے ہیں۔
پہلے طریقے میں خون کو پتلا کرنے کی ادویات دی جاتی ہیں یا کولیسٹرول کو کم کیاجاتاہے۔ سرجری کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب یہ رکاوٹ زیادہ ہو اور ادویات سے ختم نہ ہو۔ ایسے میںرگوں کا سرجن (vascular surgeon)سرجری کے ذریعے اس رکاوٹ کو دور کر دے گا۔
اس صورت حال میں مریضوں کو سٹروک یونٹ میں رکھا جاتا ہے لیکن بعض مریض ہسپتال میں نہیں رہنا چاہتے۔ انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے لیکن اس صورت میں جب وہ علاج کروا چکے ہوں اور ان کی ورزش پرکام ہو رہا ہو۔ علاج کے دوران ہی مریض کے گھر والوں کو سکھایا جاتا ہے کہ کیسے آپ نے ان کا خیال رکھنا ہے۔ انہیں معلوماتی مواد فراہم کیا جاتا ہے جس میں تمام ہدایات درج ہوتی ہیں۔
مرکز بحالی صحت والے صرف ورزش ہی نہیں کروا رہے ہوتے بلکہ اہل خانہ کوبھی یہ بتا اور سکھا رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح آپ نے مریض کوبٹھانا، کھانا کھلانا،باتھ روم لے جا نا اور چلانا وغیرہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کے گھرکاجائزہ لیا جاتا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ اس میں کس طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر باتھ روم میں ہینڈل لگانا چاہئے تاکہ مریض آسانی سے بیٹھ سکے۔ عموماًاس کے بستر اور کرسی وغیرہ کی اونچائی کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے انہیں گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
فالج سے بچنے کے لیے سات آسان اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ کم چکنائی والااچھا اور صحت بخش کھانا کھائیں، پھلوں اور سبزیوں کا استعمال زیادہ کریں، پروٹین سے بھرپور غذاکھائیں۔ مرغی اور مچھلی اس کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں ۔واک اور ورزش کو معمول بنائیں، نمک کم استعمال کریں اوربلڈ پریشر کو کنٹرول میںرکھیں۔ اس کے علاوہ سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔ اپنے سونے جاگنے کے معمول کو بہتربنانا بھی اس کے خطرات کو کم کرسکتا ہے۔(ث ظ)

Vinkmag ad

Read Previous

زبان کو لگی گرہیں

Read Next

کیا پپیتا ڈینگی کا توڑ ہے؟

Leave a Reply

Most Popular